اقامتِ دین کے لیے مطلوبہ صفات

0

از قلم ۔ ایس۔عبدالحسیب

دوستوں آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں جہاں پر ہر طرف سے مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑے جا رہےہیں،جہاں مسلمانوں کو کورونا وائرس کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے،جہاں حکومت ہند از سرے نو سے مسلمانوں پر زیادتیاں کرتی آرہی ہیں،کبھی مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو کبھی ہمارے تعلیمی نظام اور ملک کے آئین و دستور پر حملہ کیا جاتا ہے ان نازک حالات میں اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے ہمیں بھیجا ہے اسے  بخوبی انجام دینا اور اسلام کی دعوت ہر عام و خاص تک پہنچانا ہے اور اس بات کا اعلان کرنا ہے کی اسلام از سرے نو سے ہی امن و سکون اور بھائی چارے کا درس دیتا آرہا ہے۔

دعوت اسلامی اس لحاظ سے دینا ہے کی ہم بحیثیت مسلم کے ساتھ ساتھ بحیثیت خلیفہ بھی ہے جس کہ بارے میں آخرت میں ہم سے باز پرس کی جائیں گی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کی اقامت دین اصل میں ہے کیا۔۔۔؟؟؟

اقامتِ دین کیا ہے۔۔؟؟

اقامت یہ لفظ لفظ ‘قائم’ سے بنا ہے اور اقامت دین کا مطلب دین اسلام کو قائم کرنا ہے۔ کہنا یہ مطلوب ہے کی ہم اللہ کے اس دین کو اسکی دنیا میں قائم کردے اور اس کے ہر قوانین کو بروئے کار لائے اور ہم ہر حال میں اللہ کی پیروی و بندگی کرے اسی کا نام اقامتِ دین ہے۔

∆ ایک نظر تاریخ پر…..

چلئیے میں آپ کو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے مکہ کی ایک عظیم شخصیت اور عظیم داعی کی زندگی کے چند مشہور لمحات کہ بارے میں بتاتا ہوں،جن کا نام سنتے ہی ہماری زبانوں سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے’ صلی اللہ علیہ وسلم’۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ دنیا کے سب سے عظیم اور مشہور داعی گزرے ہے جس وقت آپکی نبوت کا اعلان ہوا ٹھیک اسی وقت سے آپ کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کی تڑپ نے دل میں جگہ بنالی۔ آپ علیہ السلام میں بے شمار صفات تھی جو کہ ایک داعی میں ہونی چاہیے میں چند صفات کا تذکرہ کروں گا۔

✓ داعیانہ صفات….

»حکمت و نصیحت

دعوت کیلئے حکمت کا ہونا نہایت ضروری ہے آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کی آپ جسے دعوت دے رہے ہوتو اس کا تعلق کس طبقہ یا مذہب سے ہیں وہ کیا کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ

اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ‌ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ۞

اے نبی ؐ ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سےمباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمہارا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے (سورة النحل -125)۔

چند مثالیں سیرت النبی سے…

1) ایک شخص معاویہ بن حیدہ نامی، نبی علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام سے پوچھا ‘اسلام کی تعلیمات کیا ہے’؟

2) نبی علیہ السلام نے فرمایا ‘اسلام کا مطلب یہ ہے کہ تم پوری زندگی اللہ کی مرضی کے تابع کر دو،اور اپنے سارے دعوے اور حقوق سے دست بردار ہو جاؤ،نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو’۔

2)مفروق شیبانی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام سے دریافت کیا ‘اے قریشی بھائی! آپ کی دعوت کس بارے میں ہے؟

آپ نے فرمایا:’ میں لوگوں کو اس صداقت کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔

یہ کچھ مثالیں تھی جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی علیہ السلام کس طرح سے لوگوں کو حکمت و دانائی کے ساتھ اسلام کی دعوت دیتے تھے کی ہر فرد کو اسکے سماج کے حوالے سے دعوت دی جاتی تھی مگر مرکزی پہلوں صرف اللہ کی وحدانیت بیان کرنا تھا۔

»پاک کردار

اسلام کی دعوت لوگوں تک پہنچانے میں حکمت کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی ایک پاک کردار کی بھی ضرورت ہے ہمارا کردار دعوت دین کیلئے اتنا پاک ہونا چاہیے کی سماج بھی ہمارے کردار کی گواہی دے۔

اس حوالہ سے ایک واقعہ بتاتا چلوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار کیسا تھا لوگوں نے آپ کے کردار کی گواہی کیسے دی تھی یہ ہمیں اس واقعہ سے سمجھ آئے گا۔

“ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو آواز دی

جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اے قریش والوں،اگر میں کہوں کے کوہ صفا کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم میری بات کو یقینی جانوگے..؟ سبھی نے با آواز بلند کہا ‘ہاں’ ہم آپکی بات پر یقین کرتے ہیں کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتا ہوا نہیں پایا۔

اس واقعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ علیہ السلام کا کردار کیسا بے مثال تھا کی لوگ اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود بھی سماج نے آپ کے کردار کی گواہی دی۔ دعوت دین کیلئے ہمیں بھی یہی کردار مطلوب ہے کی ہم زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولے،کسی کی امانت میں خیانت نہ کرے،کسی کا دل نہ دکھائے وغیرہ وغیرہ۔

»صبر اور استقامت

ہم جس دین کی سربلندی کے لئے اٹھے ہے یہ ایک عظیم اور بہت لمبا سفر ہے جہاں ہمیں ہر کام صبر سے کرنا ہے

یہ وہ راستہ ہے جہاں قدم قدم پر آزمائش ہی آزمائش ہے اس راستے میں رکاوٹیں،پریشانیاں ہزاروں آئے گی لیکن ہمیں صبر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”.

(سورة البقرہ -153)

ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کی

“جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے”.

(سورة العنکبوت-69)

یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہے کی جو لوگ اس راہ میں پیش قدمی کریں گے اللہ انھیں اپنے راستے دکھائیں گا اور یقیناً اللہ صابروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

»اللہ کا انعام

یہ وہ سفر ہے جس پر چل کر انسان کی زندگی کامیاب ہوسکتی ہے اس راہ پر چل انسان اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرسکتا ہے جس انعام کا تذکرہ قرآن حکیم میں بار بار ارشاد ہوا ہے وہ نعمتوں بھری جنت اسکا مقدر ہوگی انشاء اللہ۔

“اے اطمینان والی روح، تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش،پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا،اور میری جنت میں چلی جا۔

(سورة الفجر 30-27).

 

Name :- S.Abdul Haseeb

I’d :- [email protected]

 

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS