ہمارے مسائل، یوکرین جنگ اور ہمارا میڈیا ؟

0

مکرمی آداب؛   یوں تو اکثر ٹیلی ویژن چینلز پر ہر کوئی واقعہ چاہیے چھوٹا ہو یا بڑا،اہم ہو یا غیر اہم  پرائم ٹائم  بحث و مباحثہ کا موضوع بنتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک ) اپنے ملک کے اہم معملات، حالات و واقعات پر بہت کم وقت صرف کرتا ہے۔ آجکل کے دور میں ذرائع ابلاغ بہت ہی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ملک اور قوم کو صیح سمت دینے اور لینے کے سلسلہ میں، روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے لیکر ملک کے بڑے بڑے اور اہم معملات میں میڈیا اپنا ایک اہم رول نبھانے کی پوزیشن حاصل کرچکاہے ۔ اتنے میں اگر ایک ذمےدار میذیا اپنے فرض منصبی  سے غفلت برتا ہو یا کم ازکم کوتاہی کا شکار ہورہا تو یہ اس کا اپنے ملک و قوم کی تئیں ایک ناقابل معافی جرم ہوسکتا ہے۔ہمارا ملک فلوقت ایک بڑے نظریاتی بحران سے گزر رہا ہے۔مذہبی کٹر پن اور علاقائی تعصب نے اس ملک اور اس میں رہنے والے شہریوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کے رکھا ہے۔ نفرت کی ہولناک آگ کسی بھی وقت  اس سارے ملک کو اپنے لپیٹ میں لینے جارہی ہے۔ ہر ایک شخص دوسرے کا جانی دشمن بن چکا ہے۔ ایک تھوڑی سی چنگاری کی منتظر یہ آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ اتنے میں ہمارا میڈیا اپنے ہی لگن میں مست ہے۔ہر شام دوسروں کے نام کرکے اپنے اور اپنی قوم کے انجام سے بے خبر پرائم ٹائم بحث و مباحثہ میں ادھر ادھر کی باتوں میں اپنا وقت ضائع کررہاہے۔ یوکرین کی جنگ کو ہی لیجیئے۔ یہاں کی بڑی سی بڑی ٹی وی چینل اپنا بیشتر وقت اسی جنگ کو کور کرتے رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ایک ذمہ دار میڈیا کا دنیا میں رونما ہورہے حالات واقعات سے اپنے سامعین اور ناظرین کو باخبر رکھنا فرض منصبی اور بنیادی ہدف ہوتا ہے لیکن کہتے ہیں نا کہ  زمانہ میں اور بھی ہے غم محبت کے سیوا ۔ جنگ خدانخواستہ اپنے اور اپنے اڑوس  پڑوس میں تو نہی ہے۔ یہ جنگ تو بچہ بچہ سمجھتا ہے کہ دو بڑے سورماوں کی آپسی بالادستی کی لڑائی ہے، بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔حتی’ کہ دنیا کو بےوقوف بنایا جارہا ہے کہ لو صاحب عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔لیکن نہ عالمی جنگ ہی ہوگا اور نا ہی جنگ زدہ یوکرین کا کچھ زیادہ بگڑے گا۔ جنگ ہوئی1939 میں  ،جنگ ہوئی تو 1942 میں۔ جنگ ہوئی تو عراق و ایران میں، جنگ ہوئی تو ہندوستان و پاکستان میں اور اگر جنگ جاری ہے تو اسرائیل اور فلسطین میں۔ ۔ان کی طرف اتنی توجہ نہی دی جارہی ہے۔ یوکرین میں بھی بلا شبہ ایک لڑائی چل رہی ہے اور اس چھوٹے سے یورپی ملک کی بھی تباہی ہورہی ہے لیکن یہ سب کچھ بڑے ملکوں کا آپسی کھیل ہے جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ کبھی عراق میں کھیلا گیا اور کبھی افغانستان میں، کبھی بالادستی کی یہ لڑائی شام میں چل رہی ہے تو کہیں یمن میں ۔ غرض ایسی لڑاہیاں تو ہر دوسرے تیسرے ملکوں میں آۓ دن کھیلتی جارہی ہیں۔

آمد بمطلب ؛ ہمارے ادارے خصوصا” ہمارے نشریاتی اور اطلاعاتی ادارے تو اوروں کی فکر میں لگ چکے ہیں ،غیروں کی مرہم پٹی کرنے میں میں مشغول ہیں جبکہ گھر میں اپنا جگر لہولہان ہورہا ہے۔ ہر روز شرپسندوں کے اوچھے ہتھیاروں سے اپنے ہی بھائی زخمی ہورہے ہیں، اپنے ہی ہم وطنوں کی زمین تنگ کی جارہی ہے۔

کیا ان چیزوں کی طرف توجہ دے کر ان کو پرائم ٹائم بحث و مباحثہ کا موضوع بناکر ان کا حل نہی ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ اور کیا،یہ ہمارے میڈیا ہاوسز کی ذمہ داری نہی بنتی ہے کہ وہ ان مسائل پرچرچا کروا کر اپنے عوام کو ان شرپسندوں سے خبردار  کرواۓ جو اس ملک اور قوم کو

خانجنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں  یا دھکیل چکے ہیں۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ گزرتا جارہا ہے۔ اگر ہم بہت جلد نہ سدھر سکے تو

ہماری داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں ۔

بشکریہ ۔قاضی سلیم ۔گاندربل۔ کشمیر 7889324408

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS