تعلیم اور طب پر توجہ ضروری

دونوں شعبوں میں حکومت ہند فراخدلی سے پیسہ لگائے اور توجہ دے تو ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اگلے 10سال میں ہی پہنچ سکتا ہے

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

ہندوستان میں تعلیم اور طب کی حالت زار جتنی خراب ہے، اتنی تو کچھ پڑوسی ممالک میں بھی نہیں ہے۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں، جن میں اگر حکومت ہند فراخدلی سے پیسہ لگائے اور توجہ دے تو ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اگلے 10سال میں ہی پہنچ سکتا ہے۔ ہندوستان میں تعلیم اور طب کی روایات دنیا کی قدیم ترین اور مالامال ہیں۔ ان دونوں شعبوں میں ہندوستان کا دبدبہ اتنا مشہور تھا کہ چین اور جاپان سے لے کر عرب ممالک اور یوروپ سے بھی طلبا ہندوستان آتے تھے اور صدیوں تک آتے رہے ہیں لیکن بیرونی حملہ آوروں نے اپنی اناپرستی کی وجہ سے ہندوستان کے روایتی تعلیمی اور طبی نظام کی حوصلہ شکنی کی، جس کی وجہ سے تحقیقی کام بند ہوگیا اور ہندوستان مغرب کی نقل کرنے لگا۔ اب بھی جو ممالک خوشحال اور طاقتور ہیں، اگر ہم ان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ ان کی خوشحالی اور طاقت کا راز ہندوستان جیسی ترقی یافتہ قوموں کے استحصال میں تو چھپا ہی ہے، اس سے بھی زیادہ اس میں ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ تعلیم اور طب پر دی ہے۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے امریکہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور اپنے مریضوں کو علاج کے لیے برطانیہ اور یوروپ بھیجتا تھا لیکن جیسے ہی اس نے ان دونوں شعبوں میں پیسہ لگانا اور توجہ دینی شروع کی، وہ دنیا کی سب سے بڑا سپر پاور بن گیا۔ آج بھی جو قومیں ان دو مدوں پر زیادہ خرچ کرتی ہیں، ان کے عوام کا معیار زندگی ہم سے بہت بہتر ہے۔

ہیلتھ کیئر پر ہماری حکومتیں ایک ڈیڑھ فیصد خرچ کرکے مطمئن ہوجاتی ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو صحت مند طرز زندگی سکھانے کی کوئی مہم ان کے پاس نہیں ہوتی۔ بچوں کی تعلیم میں آسن-پرانایام اور صحت سے متعلق معلومات کی لازمیت کہیں نہیں ہے۔ ایلوپیتھی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہمارے آیوروید، نیچروپیتھی، ہومیوپیتھی اور حکیمی میں تحقیق اور علاج کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کچھ ہی برسوں میں ہندوستانی لوگوں کی استعداد اور لمبی عمر میں قابل ذکر اضافہ ہو سکتا ہے۔

ہندوستان میں ہم اپنی مجموعی پیداوار(جی ڈی پی)کا تعلیم پر 3فیصد بمشکل خرچ کرتے ہیں، جب کہ بڑی آمدنی والے کئی چھوٹے ممالک ہم سے دوگنا خرچ کرتے ہیں۔ کچھ ممالک میں جیسے کناڈا میں اسکول کی تعلیم بالکل مفت ہے۔ ہمارے ملک کے سرکاری اسکولوں کی حالت تو یتیم خانوں جیسی ہے اور جنہیں اچھا سمجھا جاتا ہے، ایسے انگلش میڈیم اسکول تو بے حساب ٹھگی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ ہماری اسکولی تعلیم آج بھی ہمارے بچوں کو بابوگیری کے علاوہ کیا سکھاتی ہے؟ انہیں اصل سوچ، تاریخی شعور، کارکردگی اور زندگی کے فن میں ماہر بنانے کے بجائے وہ ڈگری یافتہ بنانے میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ یہی حال ہمارے طبی نظام کا بھی ہے۔ہیلتھ کیئر پر ہماری حکومتیں ایک ڈیڑھ فیصد خرچ کرکے مطمئن ہوجاتی ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو صحت مند طرز زندگی سکھانے کی کوئی مہم ان کے پاس نہیں ہوتی۔ بچوں کی تعلیم میں آسن-پرانایام اور صحت سے متعلق معلومات کی لازمیت کہیں نہیں ہے۔ ایلوپیتھی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہمارے آیوروید، نیچروپیتھی، ہومیوپیتھی اور حکیمی میں تحقیق اور علاج کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کچھ ہی برسوں میں ہندوستانی لوگوں کی استعداد اور لمبی عمر میں قابل ذکر اضافہ ہو سکتا ہے۔
(مضمون نگار ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ کاراور
افغان امور کے ماہر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS