پنکج چترویدی
بیس دن میں دوسری مرتبہ آسام سیلاب سے بے حال ہوگیا۔ اس وقت ریاست کے 32اضلاع کے 5424گاؤں پوری طرح پانی میں ڈوبے ہیں اور کوئی 47.72لاکھ لوگ اس سے راست متاثر ہوئے ہیں۔ موت کے اعدادوشمار 80کو پار کرگئے ہیں۔ ابھی تک ایک لاکھ ہیکٹیئر کھیتی کی زمین کے تباہ ہونے کی بات حکومت مانتی ہے۔ اس بار سب سے زیادہ نقصان پہاڑی ضلع ڈِما ہاسو میں ہوا، جہاں ایک ہزار کروڑ کے سرکاری و ذاتی نقصان کا اندازہ ہے۔ یہاں ریلوے پٹریاں بہہ گئیں و پہاڑ گرنے سے سڑکوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ ابھی تو یہ شروعات ہے اور اگست تک ریاست میں یہاں وہاں پانی ایسے ہی ترقی کے نام پر بنائے گئے اسٹرکچرس کو اُجاڑتا رہے گا۔ ہر سال ریاست کی ترقی میں جو رقم خرچ ہوتی ہے، اس سے زیادہ نقصان دو ماہ میں برہم پتر اور اس کی معاون ندیاں کرجاتی ہیں۔
آسام پوری طرح سے ندی وادی پر ہی بسا ہوا ہے۔ اس کے کل رقبہ78ہزار 438مربع کلومیٹر میں سے 56ہزار 194مربع کلومیٹر برہم پتر ندی کی وادی میں ہے۔ اور بقایا 22ہزار 244مربع کلومیٹر کا حصہ براک ندی کی وادی میں ہے۔ اتنا ہی نہیں نیشنل فلڈ کمیشن کے مطابق، آسام کا کل 31ہزار 500مربع کلومیٹر کا حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔ یعنی، آسام کے رقبہ کا تقریباً 40فیصد حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔ جبکہ پورے ملک کا 10.2فیصد حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔اندازہ ہے کہ اس میں سالانہ تقریباً 200کروڑ کا نقصان ہوتا ہے جس میں-مکان، سڑک، مویشی، کھیت، پل، اسکول، بجلی، مواصلات وغیرہ شامل ہیں۔ ریاست میں اتنی بنیادی سہولتیں دستیاب کرانے کے لیے 10سال لگتے ہیں، جبکہ ہر سال اوسطاً اتنا نقصان ہوہی جاتا ہے۔ یعنی آسام ہر سال ترقی کی راہ پر 19سال پیچھے ہوجاتا ہے۔
آسام میں قدرتی وسائل، انسانی وسائل اور بہترین جغرافیائی صورت حال ہونے کے باوجود یہاں کی مکمل ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال پانچ ماہ برہم پتر کی خوفناک شکل ہوتی ہے جو پلک جھپکتے ہی سرکار اور معاشرہ کی پوری سال کی محنت کو تباہ کردیتی ہے۔ ویسے تو یہ دریا صدیوں سے بہہ رہا ہے۔ بارش میں ہر سال یہ شمال مشرقی ریاستوں میں گاؤں-کھیت بربادکرتا رہا ہے۔ وہاں کے لوگوں کی سماجی، معاشی و ثقافتی زندگی اسی ندی کے ارگرد تھرکتی ہے، لہٰذا تباہی کو بھی وہ قدرت کی دین ہی سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے جس طرح سے برہم پتر و اس کی معاون ندیوں میں سیلاب آرہا ہے، وہ ہمالیہ کے گلیشیر حصہ میں انسانوں کے ذریعہ چھیڑچھاڑ کا ہی نتیجہ ہے۔ مرکز ہو یا ریاست، سرکاروں کی توجہ سیلاب کے بعد راحتی کاموں و معاوضہ پر رہتی ہے، یہ افسوسناک ہی ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ہم وہاں سیلاب کو کنٹرول کرنے کا کوئی مکمل منصوبہ نہیں بناپائے ہیں۔ اگر اس مدت میں ریاست میں سیلاب سے ہوئے نقصان اور تقسیم کی گئی امدادی رقم کوجوڑیں تو پائیں گے کہ اتنی رقم میں ایک نیا محفوظ آسام کھڑا کیا جاسکتا تھا۔
گزشتہ کچھ برسوں سے اس کا بہاؤ دن بہ دن تیزہونے کی اہم وجہ اس کے پہاڑی راستہ پر اندھادھند جنگلات کی کٹائی مانا جارہا ہے۔ برہم پتر کا بہاؤ کا میدان اتتنگ پہاڑیوں والا ہے، وہاں کبھی گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے۔ اس علاقہ میں بارش بھی شدید ہوتی ہے۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں پہلے پہاڑوں پر گر کر زمین سے ملتی تھیں، لیکن جب پیڑ کم ہوئے تو یہ بوندیں سیدھی ہی زمین سے ٹکرانے لگیں۔ اس سے زمین کی اوپری سطح اُدھڑ کر پانی کے ساتھ بہہ رہی ہے۔ نتیجتاً ندی کے بہاؤ میں زیادہ مٹی جارہی ہے۔ اس سے ندی لبالب ہوگئی ہے اور تھوڑا پانی آنے پر ہی اس کی پانی کی لہریں بکھر کر بستیوں کی راہ پکڑلیتی ہیں۔
آسام میں ہر سال تباہی مچانے والی برہم پتر اور براک ندیاں، ان کی کوئی 48معاون ندیاں اور ان سے منسلک لاتعداد نہروں پر سینچائی و بجلی پیدا کرنے والے منصوبے بنانے کا مطالبہ طویل عرصہ سے ہورہا ہے۔ آسام کی معیشت کی بنیادکھیتی-کسانی ہی ہے، اور سیلاب کا پانی ہر سال لاکھوں ہیکٹر میں کھڑی فصل کو برباد کردیتا ہے۔ ایسے میں وہاں کا کسان کبھی بھی قرض سے باہر ہی نہیں نکل پاتا ہے۔ ایک بات اور برہم پتر ندی کے بہاؤ کا اندازہ لگانا بھی بے حد مشکل ہے۔ اس کی لہروں کی سمت کہیں بھی، کبھی بھی بدل جاتی ہے۔ نتیجتاً زمینوں کا کٹاؤ، زرخیز زمین کا نقصان بھی ہوتا رہتا ہے۔ یہ علاقہ زلزلہ کا شکار ہے۔ اور وقت وقت پر یہاں زمین ہلنے کے ہلکے پھلکے جھٹکے آتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے زمین کھسکنے کے واقعات بھی یہاں کی کھیتی-کسانی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس علاقہ کی اہم فصلیں دھان، جوٹ، سرسوں، دالیں وگنا ہیں۔ دھان اور جوٹ کی کھیتی کا وقت ٹھیک سیلاب کے دنوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہاں دھان کی کھیتی کا 92فیصد آہو، سالی باؤ اور بوڈو قسم کی دھان کا ہے اور ان کا بڑا حصہ ہر سال سیلاب میں دھل جاتا ہے۔ آسام میں مئی سے لے کر ستمبر تک سیلاب رہتا ہے اور اس کی زد میں تین سے پانچ لاکھ ہیکٹر کھیت آتے ہیں۔ حالاں کہ کھیتی کے طریقوں میں تبدیلی اور جنگلوں کا بے ترتیب استحصال جیسے انسانی ساختہ واقعات نے زمین کے نقصان کے خطرے کا دوگنا کردیا ہے۔ دنیا میں ندیوں پر بنے سب سے بڑے جزیرہ ماجُلی پر ندی کے بہاؤ کی وجہ سے زمین کٹاؤ کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔
ریاست میں ندی پر بنائے گئے زیادہ تر گھاٹ یا باندھ 60کی دہائی میں بنائے گئے تھے۔ اب وہ بڑھتے پانی کو روک پانے کے اہل نہیں ہیں۔ پھر ان میں گاد بھی جم گئی ہے، جس کی باقاعدگی سے صفائی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ گزشتہ سال پہلی بارش کے دباؤ میں 50سے زیادہ مقامات پر یہ باندھ ٹوٹے تھے۔ اس سال پہلے ہی مہینہ میں 27مقامات پر میڑھ ٹوٹنے سے پانی آس پاس کے گاؤں میں پھیلنے کی خبر ہے۔ ویسے میڑھ ٹوٹنے کے کئی واقعات میں خود گاؤں والے ہی شامل ہوتے ہیں۔ مٹی کی وجہ سے لبالب ہوگئے باندھ میں جب پانی لبالب بھر کر چھلکنے کے دہانے پر پہنچتا ہے تو گاؤں والے اپنا گھرگھر بچانے کے لیے میڑھ کو توڑ دیتے ہیں۔ ان کا گاؤں تو تھوڑا سا بچ جاتا ہے، لیکن قریب کی بستیاں پوری طرح زیرآب ہوجاتی ہیں۔ براک ندی گنگا-برہم پتر-میدھنا ندی نظام کے دوسرے نمبر کی سب سے بڑی ندی ہے۔ اس میں شمال مشرقی ہندوستان کے کئی سو پہاڑی نالے آکرملتے ہیں جو اس میں پانی کی مقدار اور اس کی دھار بڑھا دیتے ہیں۔ ویسے اس ندی کے روٹ پر سیلاب سے بچنے کے لیے کئی گھاٹ، باندھ وغیرہ بنائے گئے اور یہ طریقے کم سیلاب میں کارگر بھی رہے ہیں۔
برہم پتر وادی میں پشتے اور سیلاب مینجمنٹ کے طریقوں کے منصوبے بنانے اور اسے نافذ کرنے کے لیے دسمبر 1981 میں برہم پتر بورڈ کا قیام کیا گیا تھا۔ بورڈ نے برہم پتر و براک کی معاون ندیوں سے متعلقہ منصوبہ کئی سال قبل پہلے تیار بھی کرلیا تھا۔ مرکزی حکومت کے تحت ایک سیلاب کنٹرول محکمہ کئی برسوں سے کام کررہا ہے اور اس کے ریکارڈ میں برہم پتر وادی ملک کے سب سے زیادہ سیلاب زدہ علاقوں میں سے ہے۔ ان محکموں نے اس سمت میں ابھی تک کیا کچھ کیا؟ اس سے کاغذ و اعدا دو شمار کو ضرور اطمینان ہوسکتا ہے، آسام کے عام لوگوں تک تو ان کا کام پہنچا نہیں ہے۔ آسام کو سالانہ سیلاب کے عتاب سے بچانے کے لیے برہم پتر و اس کی معاون ندیوں کی گاد صفائی، پرانے باندھ اور گھاٹوں کی صفائی اور نئے باندھوں کی تعمیر ضروری ہے۔
[email protected]