علیزے نجف
آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت ایک ایسا موضوع بن چکا ہے جس کی بازگشت چہار سو سنائی دے رہی ہے اور اس پہ کام پہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانی دماغ کو مسخر کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشینز تیار کرنے کی سائنس ہے۔ یہ 1960 سے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور محققین کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے، اور تقریباً نصف صدی کے اس سفر میں تیز تر تحقیق کا یہ عالم ہے کہ آج انسان مصنوعی انسانی دماغ ’ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی‘ کی تخلیق کے منصوبے کا آغاز کر چکا ہے۔
انسان نے اس دنیا کو تعیش کی آماجگاہ بنانے کے لئے اپنی پوری قابلیت و صلاحیت کو وقف کر دیا ہے اور اس نے اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کی کامیابی کا پایہء کمال تک پہنچنا دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے انسانوں کی حاصل کردہ ہر کامیابی بہت سے منفی مضمرات سے بھی جڑی ہوئی ہے جس سے نمٹنا سائنس اور انسان دونوں کے لئے دشوار گزار مرحلے سے کم نہیں۔ مصنوعی ذہانت بھی ایک ایسی ایجاد ہے جو بیشک انسانی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے لیکن وہیں دوسری طرف اس سے پیدا ہونے والے منفی نتائج بھی موضوع بحث بنے ہوئے ہیں مشہور مایہ ناز سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے سائنسدانوں کو اپنی تمام تر توجہ ایسے ذہین سسٹمز بنانے پر مرکوز رکھنی چاہیے جو انسانیت کی فلاح کے ضامن ہوں، مگر اس کے برخلاف ہماری زندگیاں ٹیکنالوجی کے جال میں روز بروز یوں جکڑتی جا رہی ہیں کہ انسانیت اور ٹیکنالوجی کا تصادم جلد یا بدیر وقوع پزیر ہونے والا ایک لازمی امر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک سچ ہے کہ اس نتیجے کو دیکھتے ہوئے ہم تحقیقات سے اپنا ناطہ نہیں توڑ سکتے سائنسدانوں کی کوششیں قابل تعریف ہیں اسے جاری رکھنا چاہیے ہاں ان کوششوں کے ساتھ انسانی زندگی میں ان ایجادات کی شمولیت کو متوازن سطح پہ رکھنے کے لئے سبھی کو اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ مثال کے طور پہ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کی ترقیات کو جس طرح مہمیز دی ہے وہ ہر کسی کے سامنے ہے لیکن اس کے ساتھ اسکرین ایڈکشن جیسا اذیت کن پہلو بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہم ان دریافتوں کے ذریعے سے پیدا ہونے والے مشکلات سے تبھی بچ سکتے ہیں جب ہم وقت رہتے اس کے متعلق مکمل آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ تعلیم اور آگہی ہی ہمیں اس دنیا میں کامیابی کے ساتھ زندگی گزارنے میں معاون ہو سکتی ہے لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی کم علمی کو نہ ہی تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اسے برا خیال کرتے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ وقت میں پیش آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی صلاحیتوں کی محدودیت اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتی رہے گی کہ وہ خالق مطلق نہیں بلکہ مخلوق ہیں اور ان کی یہ بے بسی ہی ان کو عبدیت کی طرف مائل کرتی ہے اور اس کائنات کے خالق کے سامنے سر جھکانے پہ مجبور کرتی ہے۔
ہم سائنس کی ان ایجادات کی طرف نہیں جاتے جو ابھی زیر تجربہ ہیں اگر ہم ان آسائشوں کی طرف نگاہ ڈالیں جو اس وقت ہر کس و ناکس کو حاصل ہو چکی ہیں بیشک اس نے نوع انسانی کو بیشمار فائدے پہنچائے ہیں وقت کی بچت ہو رہی ہے اور بہت کچھ بنا صعوبت کے حاصل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جسمانی مشقت کا دورانیہ کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے جیسا کہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جسمانی ورزش سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن جب جسمانی مشقت کا موقع ہی ختم ہوتا چلا جائے گا تو بڑھتے وزن اور ذہنی دباؤ بوریت اور کئی طرح کے جسمانی عوارض جیسی مشکلات سے نمٹنے کے لئے انسان دواؤں کا سہارا لینے پہ مجبور ہو جائے گا۔ مصروفیت انسان کے جسم کے ساتھ ذہن کے لئے بھی ضروری ہوتی ہے جب جسمانی طور پہ ہم مصروف ہوتے ہیں تو ہمارا ذہن بھی وہیں آس پاس رہتا ہے۔ لیکن اب جبکہ مصنوعی ذہانت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور انسان اس کا عادی بھی ہوتا جا رہا ہے تو فراغت سے پیدا ہونے والے منفی مضمرات سے بچنا انسانوں کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
روبوٹ بھی مصنوعی ذہانت کا ایک اہم حصہ ہے اس روبوٹ سے ہر وہ کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ پچھلی بیس صدیوں سے انسان کرتا آ رہا ہے مصنوعی ذہانت پہ ہو رہی مسلسل تحقیقات سے روبوٹ کا معیار بھی بہتر سے بہتر تر ہوتا جا رہا ہے۔
روبوٹس تیار کرنے والے دنیا کے بڑے ادارے مثلا بوسٹن ڈائنامکس جو وار روبوٹس اور سونی کارپوریشن جاپان کے لیے بھی روبوٹ تیار کرتا ہے ، نے بھی 2050 کے لیے کئی اہداف مقرر کئے ہوئے ہیں . ان میں سے وار روبوٹس کے کئی اہداف وہ حاصل بھی کر چکا ہے . سونی کارپوریشن اور جاپان کی کئی فیکٹریوں میں مینوفکچرنگ سے لے کر پیکنگ تک کا تمام کام روبوٹ انجام دیتے ہیں۔جاپان کے کچھ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں استقبالیہ سے لے کر قلی اور بیرے تک کی تمام خدمات روبوٹ سر انجام دے رہے ہیں۔ چین کی ڈونگوان فیکٹری سٹی میں پہلی روبوٹ بنانے والی فیکٹری قائم کی جا رہی ہے۔ جو آنے والے برسوں میں چین میں ہزاروں مزدوروں کو ان کی نوکریوں سے بے دخل کرنے کا سبب بنے گی۔
اس سے بیشک انسانوں کی قابل رشک ترقی کا نظارہ ہوتا ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والے نتائج بھی اتنے ہی بھیانک ہیں جب انسانوں کی جگہ مصنوعی ذہانت کام کرنے لگ جائے گی تو عام انسان جو کہ پہلے ہی بیروزگاری، مہنگائی، بھک مری جیسی تکالیف سے گزر رہے ہیں ایسے میں ان کے روزگار کے مواقع مزید مسدود ہوتے چلے جائیں گے آن لائن ایپ سے ٹیکسی فراہم کرنے والی کمپنی اوبر اب گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور گوگل کے اشتراک سے بہت جلد بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیوں کو بطور ٹیکسی متعارف کروانے والی ہے۔ اس سروس سے کئی ممالک میں بے شمار ٹیکسی ڈرائیوروں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ ساری صورتحال ایسی نہیں کہ اسے بآسانی نظر انداز کیا جا سکے۔ ایسے میں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ترقی کے نام پہ صرف آسائشوں کی بہتات پہ ہی یقین رکھتے ہیں یا انسانی زندگی کی خوشحالی کو بھی یقینی بنانے کے لئے فکر مند ہیں ان ایجادات سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لئے کیا کوئی لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے یا طاقت کے نشے میں نوع انسانی کو ہی ہلاکت کے دہانے پہ پہنچا دیا جائے گا۔ جس طرح سے مصنوعی ذہانت کا دائرہ کار بڑھتا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لگتا ہے اب وہ وقت دور نہیں جب میدان جنگ سے لے کر ادب، طب اور صحافت و سیاست کے دفتروں میں روبوٹس براجمان ہوں گے اور انسان ان کے احکام بجا لائیں گے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی ذہانت خواہ کتنی ہی کیوں نہ ترقی کر جائے ہر جگہ انسانی ذہن کا متبادل نہیں بن سکتی۔
ایک خبر کے مطابق مختلف فیکٹریوں میں انسانی افرادی قوت کو مکمل طور پر مشینوں روبوٹس، سافٹ وئیر، آرٹیفشل انٹیلجنس سے تبدیل کر دینے اور انسانی ہم نفس کے بجائے روبوٹ پارٹنرز کو متعارف کروانے پہ عملدرآمد کیا جانے لگا ہے
ایسے روبوٹ پارٹنر جو گفتگو کرنے کے قابل، تنہائی دور کرنے کے قابل اور ذہانت سے لیس ہوں گے تیار کرکے مارکیٹ میں پیش کرنا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مشینی رشتے حقیقی رشتوں کا بدل بن سکتے ہیں کیا اس سے انسانی زندگی مزید نفسا نفسی سے دوچار نہیں ہوگی میرے خیال میں انسانی زندگی میں مشینوں کی اس حد تک شمولیت کسی تلخ تجربے سے کم نہیں ہوگی۔ الفریڈ نوبل نے بھی ایٹم بم بناتے وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ اس سے انسانی تباہی کے دروازے کھل جائیں گے لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی کے حادثے نے ان کے دماغ کے چار طبق روشن کردئیے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی شرمندگی کے تحت ازالے کے لئے اپنی پوری دولت دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی۔ مصنوعی ذہانت کے اگرچہ بے شمار فائدے ضرور ہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والے نقصان کے جو خدشات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں اس کے مقابلے میں اس کے فوائد بہت معمولی حیثیت رکھتے ہیں۔
معروف محقق پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مصنوعی ذہانت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خیال میں مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی۔ ’ایک دفعہ انسانوں نے اسے بنا لیا تو اس کی ارتقا کا عمل خود ہی آگے بڑھتا رہے گا اور انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔‘
اسٹیفن ہاکنگ کا خدشہ بجا ہے اس پہ دوسرے سائنسدانوں کو بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور جس رفتار سے سائنس اپنے آگے کے مراحل طئے کر رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بہت جلد ہم مشینوں کی دنیا میں پوری طرح داخل ہو جائیں گے اور انسانی زندگی مزید افراتفری اور بے سکونی کی زد میں ہو گی۔ اس ترقی کے ساتھ سائنسدانوں کو اس پہلو پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے انسانوں کی مشینوں پہ برتریت قائم رکھنا ضروری ہے اگر اس نظام سے دنیا میں برتریت ایک بار انسانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تو بے شمار تباہیاں اپنے دہانے کھول دیں گی اور انسانی اخلاقیات زوال پزیر ہو جائیں گی۔
مصنوعی ذہانت اور انسان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS