گنگا جمنی تہذیب کی علامت: گرونانک جی

0

پروفیسراخترالواسع

 

گرونانک جی نے انسانوں کو دائمی طورپر علم سے اور سیکھنے سے وابستہ کردیا۔ یہ دنیا ایک مکتب ہے اور یہاں انسان کا صحیح مقام ایک طالب علم بن جانا ہے، جو ہمیشہ کے لیے طالب علم بن گیا وہ سکھ ہے ۔سکھ ہمیشہ سکھ رہتا ہے یعنی ساری زندگی طالب علم رہتا ہے۔

گرو نانک دیو جی ہندوستان کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کے سب سے بڑے نمائندے تھے۔ان کی زندگی میں ہندو مسلمان دونو ںگندھے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ان کی زندگی کا آغاز مسجد میں تعلیم حاصل کر نے سے شروع ہو تا ہے۔پھر وہ نواب دولت خاں لودھی کے ساتھ رہے۔نواب صاحب بھی ان کی للہیت اور فقیر منشی کی وجہ سے ان کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے۔ان کی زندگی میںان کے ایک طرف مردانہ تھے تو ایک طرف بھائی بالا تھے۔ان کی نظر میں ہندو مسلم سب ایک سمان تھے۔وہ مذہب کی قید سے بلند ہو کر انسان کو انسانیت کا درس دیتے تھے۔ وہ سکھ مذہب کے توبانی تھے اس لیے سکھ مذہب کے گرو تھے لیکن گرو ہونا ان کا ایسا لقب ہے کہ گرو تو وہ سارے ہندوستان کے بلکہ سارے عالم کے تھے اور ہیں۔ اس لیے گرو کا لفظ ان کے نام کا جزءبن گیا ہے۔ انہوں نے پورے ملک کو بہت کچھ سکھایا اور پوری دنیا کو امن و آشتی،بھائی چارہ،خدمت خلق،اور محنت کرکے رزق کمانے کا سبق سکھایااور سب سے اہم بات یہ سکھائی کہ دوسرے دھرموں اور دوسرے دھرموں کی تعلیمات کابھی اسی طرح احترام کرنا چاہیے جیسے اپنے دھرم کاکرنا چاہیے ۔انھوں نے دوسرے دھرموں کے ادب و احترام اور ان کے مقام و مرتبہ کا لحاظ اس حد تک کیا کہ ہندو اورمسلمان دونوں مذہب کے گرو¿ں اور مرشدوں سے ملاقات کی اور ان کی اچھی تعلیمات کو اپنی تعلیمات کا حصہ بنایا۔ وہ پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مقدس مقامات اور مقدس شخصیات سے ملے۔ بلکہ لنکا تک گئے اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سب سے مقدس مقام مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی زیارت کی، بغداد شریف میں چلہ کشی کی،حلب کی زیارت کو گئے۔ یہ ان کی ایسی روایت ہے جو ہمیں کسی اور ہستی میں نہیں ملتی۔ گرونانک جی کسی ایک کے نہیں بلکہ سب کے ہیں اور سب گروجی کے لیے سمان ہیں۔وہ سرودھرم سنبھاؤاور مذہبی راواداری کا ایک بے مثال تجربہ تھے۔ گرو نانک جی کی زندگی سب کے لیے نمونہ ہے اور ان کی تعلیمات میں تمام انسانوں کے لیے رہنمائی ہے۔ وہ سب کے گرو تھے اور سب کے لیے مثال تھے۔
گرونانک نے انسانوں اور ایشور کے درمیان ایک نیا رشتہ استوار کیا ۔یعنی گرو اور سکھ کا رشتہ۔ اردو کی اصطلاحات میں کہہ سکتے ہیں کہ پیرو مرید یا مرشد ومرید کا رشتہ، مرید ہمیشہ طالب علم رہتا ہے اور سیکھتا رہتا ہے اور ایشور گرو بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اورا سے راستہ دکھاتا رہتا ہے۔یہ رشتہ ہے، اعتماد اور بھروسے کا رشتہ۔گرونانک جی نے انسانوں کو دائمی طورپر علم سے اور سیکھنے سے وابستہ کردیا۔ یہ دنیا ایک مکتب ہے اور یہاں انسان کا صحیح مقام ایک طالب علم بن جانا ہے، جو ہمیشہ کے لیے طالب علم بن گیا وہ سکھ ہے ۔سکھ ہمیشہ سکھ رہتا ہے یعنی ساری زندگی طالب علم رہتا ہے۔
گرونانک جی کی یہ تحریک ایسی مذہبی روایت بن گئی جس میں علم حاصل کرنا اس روایت کی بنیادی پہچان بنی اورانہوں نے مذہب کے نام پر ہونے والے گورکھ دھندے اور اندھ وشواس کو یقین کی روشنی سے ختم کردیا، گروجی کی ایک بنیادی تعلیم یہ تھی کہ دھرم کے نام پر اور اندھ وشواس پھیلا کر لوگوں کو لوٹنا بہت بڑی حرام خوری ہے، اس لیے جو شخص خود محنت نہ کرے اس کو کھانے کا بھی حق نہیں ہے۔ گروجی کی اس تعلیم نے صدیوں پرانے اندھ وشواس توڑدیے اور مفت خوری کو حرام خوری سمجھ کر محنت ومزدوری کرنے پر آمادہ ہوئے اور خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھانے کی عادت ڈالی۔ ہندوستان میں بت پرستی در اصل مشرکانہ عقائد اور دھرم کے نام پر ہونے والے ظلم وزیادتی کی ایک علامت بن گئی تھی اورایک اندھکارتھا جو پورے ملک پر چھایا ہوا تھا، ایسے ماحول میں گرونانک کی آواز ایک انقلاب کی نقیب بن اٹھی، مژدہ انقلاب کی طرح اٹھی اور اس نے پورے ملک میں ایک نیا پیغام دیا۔ علامہ اقبال نے گرونانک کے اس انقلاب اورا س پس منظر کو بہت خوب صورتی کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے۔
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے
گرونانک جی نے جس ماحول میں اپنا پیغام دیا، اور جو پیغام دیا ،علامہ اقبال کی یہ نظم اس کی بہترین ترجمانی ہے۔ 
ان کے پیغام کا خلاصہ یہ تھا کہ سب کا مالک ایک ہے اس لیے سب کو برابر درجہ ملنا چاہیے ۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں اور کوئی اونچ نیچ نہیں۔ علامہ اقبال نے اس بات کو توحید کی دعوت سے تعبیر کیا ہے۔ گرو نانک جی کے کلام کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے خدا کی حمد و ثنا کے زمزمے بیان کیے ہیں۔ان کا ترجمہ بھی اتنا مسحور کن ہو تا ہے کہ قاری الفاظ کے زیر و بم میں کھو سا جاتا ہے،اصل کلام کتنا مو¿ثر اور مسحور کن ہو گااس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جن کو پنجابی زبان کا ذوق ہے۔ایک نظم ذیل میں نقل کی جاتی ہے:
اگر میں لاکھوں سال بھی زندہ رہوں
اگر ہوا کو اپنا کھانا پینا بنا سکوں
اگر میں ایک غار میں لگاتار تیری عبادت کےلئے خود کو بند کر لوں
اگر پلک جھپکے بغیر اور سورج چاند کو ایک نظر دیکھے بغیر 
تیرے گیان میں لگا رہوں
تب بھی میں تیری قیمت نہ پاسکوں گا
نہ تیرے نام کی عظمت ظاہر کرسکوں گا
وہ ابدی بے بدل سچائی کا رب ہے جس کی کوئی شکل صورت نہیں
سنے سنائے علم سے اسے بیان کرنے کی کوشش نہ کرو
اگر وہ چاہے تو اپنی رحمت سے خود کو ظاہر کر دے گا
اگر میں چکی میں دانے کی طرح پیساجاؤں 
اگر میں آگ میں جلایا اور راکھ بنا کر بکھیرا جاؤں
تب بھی میں تیرے بھید نہ پاسکوں گا
نہ تیرے نام کی عظمت ظاہر کرسکوں گا
نانک کہتا ہے کہ اگر کاغذ کے انبار کے انبار بھی ہوں
اور اگر بے شمار کتابوں کا علم مجھ میں سما جائے
اگر روشنائی کا کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ مل جائے
اور میں ہوا کی رفتار سے لکھوں
تب بھی تیرے بھید نہ پاسکوں گا
نہ تیرے نام کی عظمت ظاہر کر سکوں گا
(گرو گرنتھ صاحب، سری راگ ص 14)
گرونانک کی زندگی میں ایک بڑا اہم پہلو ان کا سر زمین ہند سے پیارہے وہ سچے ہندوستانی تھے اور ہندوستان کی سر زمین سے بے انتہا محبت کرتے تھے ۔ اس لیے بابر کے حملے پر انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔
گرونانک نے پورے ملک کا سفر کیا بلکہ کئی سفر کیے اور پورے دیس میں جہاں جہاں ایشور کا گیان تھا اس کو جمع کیا اس لیے گروجی کے سفر ان کی روحانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں جیساکہ اوپر مذکور ہے انہوں نے ایران، عراق اور عرب کا بھی سفر کیا۔ بیت اللہ بھی گئے اور بغداد شریف میں چلہ بھی کیا۔ اس لیے گرو جی کی اپنی روایت ایسی بن گئی جس میں ملک اور بیرون ملک کی ہر روایت موجود تھی شاید اس لیے گروجی کے کلام کو Multiple Vioces of Godکہتے ہیں چوں کے ان کے یہاں سب کے لیے جگہ ہے سب کا ایک مقام ہے۔
گرو نانک ہندوستانی روایات کے امین تھے، ان کے کلام کی خوشبو سے پورا ملک معطر ہے اور اب تو گرو کی مہما اور ان کی عظمت کا گن گان ملک کی سرحدوں سے پار پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔گرو جی کی لنگر کی روایت نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میںغریبوں کی مسیحائی کا انتظام کر رکھا ہے ۔کتنے ہی بھوکے لوگ روزانہ گرو جی کے اس دسترخوان سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔
آج گرو جی کے جنم اتسو کی 550 ویں سالگرہ ہے۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں اس روایت نے ہندوستان اورپوری دنیا کو روشنی بخشی ہے۔ گروجی کی تعلیمات میں ایثار، قربانی،دوسروں کی خدمت کا جذبہ،با مقصد زندگی گذارنے کا حوصلہ دیا ہے وہ سکھ قوم میں دیکھا جا سکتا ہے اور پورے ملک بلکہ دنیا کو ایسے ایسے پیغام کی ضرورت ہے۔ گرو جی کی تعلیمات موجودہ دنیا کے بیشتر مسائل کا حل کرتی ہیں آج ان کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔) 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS