ارشد مدنی کی جرأت رندانہ اور میڈیا کا کردار غیر ذمہ دارانہ

0

عبدالسلام عاصم

مذاہب کی سیاسی تعبیر نے سارا فساد کھڑا کیا ہے وگرنہ اسلام اور سناتن دھرم سمیت دنیا کے تمام بڑے مذاہب نفرت کے ایجنڈے سے پاک ہیں۔ جب تک مذاہب کو اُن کے ماننے والے اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں، کہیں سے کوئی بین مذاہب تصادم کی راہ نہیں کھلتی۔ ہر مذہب اپنے اپنے طور پر لکم دینکم ولی دین پر یقین کے ساتھ قائم ہے۔ اس یقین کا تعلق کسی علمی/سائنسی تحقیق سے نہیں بلکہ صدیوں پر محیط تاریخی روایات، ارشادات، فرمودات اورحکایات سے ہے۔ بات اُس وقت بگڑتی ہے جب بلا حیل و حجت ماننے اور یقین کرنے والی مذہبی کتابوں اور عقیدے کی باتوں کو ایکدم سے علم اور سائنسی تحقیق کے دائرے میں لا کر ایک دوسرے عقائد کے ساتھ ردّ و قبول کا معاملہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
اللہ، اوم، آدم، ایڈم اور منو کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند(ارشد) کے صدر کے ایک عوامی خطاب میں اُن کی تقریر سے دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے عدم اتفاق کے نتیجے میں درونِ ملت اور دوسرے حلقوں میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث چل پڑی ہے۔ مولانائے محترم نے بظاہر جو قدم اٹھایا ہے، اُس کا تعلق اُس شر کو دور کرنے سے ہے جو مذاہب کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ ہے۔ مولانا نے ایک خدا کو الگ الگ ناموں سے صدق سے ماننے کو بجا طور پر درست ٹھہرایا۔ ابتدا میں تو ایسا لگا جیسے بگڑی بات بننے لگی ہو، لیکن دوسرے ہی لمحے جین سنت اچاریہ لوکیش منی نے مولانا کے اس طرز خطابت پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ آدم اور منو کے حوالے سے ایسی کہانیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ مولانا ئے محترم کا انتہائی سلجھا ہوا استدلال یہ تھا کہ آدم علیہ السلام/حضرت منو دنیا کے پہلے انسان ہیں اور انہی کی اولاد آدمی/مَنُش کہلاتے ہیں۔ ایسا نہیں مولانا ارشد مدنی کی اس وضاحت سے سبھی غیر متفق تھے۔ بلاتفریق مذہب و ملت امن پسندوں کے ایک بڑے حلقے نے اُن سے اتفاق کیا، لیکن ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ’سب خیریت ہے ‘کا جملہ کبھی کسی اخبار کی سُر خی نہیں بنتا اور معمولی فساد کی چار پانچ کالمی سُر خی لگا دی جاتی ہے۔ یہی مولانا کی رفعِ شر کی کوشش کا بھی حشر ہوا۔
مذاہب کی سیاسی تعبیر کی تاریخ بہت طویل ہے، جس پر اظہار خیال کی یہاں گنجائش نہیں۔ البتہ دو مثالیں بالکل سامنے کی ہیں۔ ان سے استفادہ کرکے بات مثبت رُخ پر آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ بر صغیر میں مذاہب کی سیاسی تعبیر بظاہر جماعت اسلامی اور آر ایس ایس کی طرف سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قیام کو اول الذکر کی فکر سے عبارت کیا جائے تو سرے سے غلط نہیں ہوگا۔ البتہ بنگلہ دیش کی شکل میں اس فکر کا نقص جلد ہی سامنے آگیا۔ اس کے بعد ہندوستان میں جماعت اسلامی حکومت الٰہیہ قائم کرنے کے نعرے سے بظاہر دستبردار ہو گئی۔ سیکولرازم پاکستان میں بیشتر اسلامی جماعتوں کے نزدیک آج بھی شجر ممنوعہ ہے۔ دوسری طرف ہندوستان میں اب یہاں اکثریت سے تعلق رکھنے والے ایک حلقے کی طرف سے مذہب کی سیاسی تعبیر کی جانے لگی ہے۔
مذہبی حلقوں میں جو با شعور لوگ دین اور دھرم پر علمی/ سائنسی بحث سے گریز کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ تمام ادیان میں رواداری اور انتہاپسندی دونوں کی گنجائشیں پہلے سے موجود ہیں۔ انتہاپسندی سے بچنے کیلئے ایک طرف جہاں مذاہب کی سیاسی تعبیر سے گریز کرنا ہوگا، وہیں دوسری جانب مذاہب کے ایسے استحصال کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کیلئے سخت الفاظ اور شدید ردعمل سے بات اور بگڑسکتی ہے۔ اس طرح زد میں آنے والوں کا ایک حلقہ صبر و اعراض سے کام لینے میں ہی عافیت ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اپنی بات زبردستی منوانا اور اخلاقی اور زبانی مزاحمت کے بغیر خودسپردگی سے کام لینا دونوں ہی اپنے اپنے رُخ پر دو انتہائیں ہیں۔ اِن کے درمیان سے گزرنے والی اعتدال کی راہ اول تو آسان نہیں ہوتی، دوم یہ کہ دونوں انتہاؤں کے درمیان یہ راستہ نہایت تنگ گزرگاہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
مولانائے محترم نے اسی راہ سے گزرتے ہوئے بظاہر اس ادراک سے کام لیا ہے کہ دونوں فرقوں کو فروعی اختلاف سے اوپر اٹھنے کی تحریک دی جائے۔ اس سوچ کو سامنے لانے کیلئے انہوں نے کسی ڈرائنگ روم کا انتخاب نہیں کیا بلکہ جلسہ عام میں ایک ہی منظر نامے کو ایک سے زیادہ زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے والوں کیلئے زیادہ روشن کرنے کی کوشش کی۔ قبل ازیں مولانا وحید الدین خان مرحوم و مغفور اس سے بھی زیادہ معقولیت پسندی سے کام لیتے ہوئے اقلیت کو عقلیت پسند بنانے کی کوشش کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے خوشگوار نتائج اُن علما کی وجہ سے مرتب نہیں ہوسکے جو عمل اور ردعمل سے آگے بڑھ کر کبھی حکمت سے کوئی کام لینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کا سارا کاروبار ہل کر رہ جائے گا۔ مولانا وحید الدین خان نے بعض ترقی یافتہ اقوام کی طرف سے علمی/سائنسی شعور کے ذریعہ انسانی وسائل کی بہبود کے عملاً بے پایاں اقدامات اور انسانی خدمات کو عبادت کا درجہ دینے کے منظر نامہ کو ملت اسلامیہ کی دہلیز تک لانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ دہائیوں کی کوشش میں وہ کہیں محتاط رہے تو کہیں ماحول کے تیار ہونے کا اندازہ لگانے میں عجلت سے کام لیتے ہوئے یہ مان کر آگے بڑھنے لگے کہ اُن کی باتوں کو بالواسطہ سننے والی ملت اب اُنہیں براہِ راست سننے اور سمجھنے کی متحمل ہو گئی ہے۔
اندازِ فکر کے ایک ایسے ہی موڑ سے گزرتے ہوئے مرحوم نے ملت کو یہ تاثر دینے کی کوشش شروع کردی کہ عصری حالات بشمول سیاسی معاملات اس تفہیم کے متقاضی ہیں کہ کسی روایتی اچھی مثال کو مثالِ کاملہ نہ سمجھا جائے اور اجتہاد سے بلند حو صلے کے ساتھ کام لیا جائے۔ اہلِ فکر و نظر گواہ ہیں کہ مرحوم کی زندگی میں ملت کی اکثریت کی طرف سے اُن کی اِس فکر کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ درونِ ملک فرقہ وارانہ منافرت کے(کبھی کم تو کبھی زیادہ) نقصان کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سے بچنے اور بیرونِ ملک فلسطینی کاز سے ردعمل کے بجائے حکمت سے نمٹنے کی مر حوم کی صلاح پر ملت کے ایک بڑے حلقے نے کبھی کان نہیں دھرا۔
بدلے ہوئے منظرنامے میں آج صرف مولانا ارشد مدنی اکیلے بہ انداز دیگر سامنے نہیں آئے، عام پڑھے لکھے ہندوستانی مسلمانوں میں بھی مولانا وحید الدین خان کے افکار سے ہم آہنگی کا سفر شروع ہوچکا ہے اور خاصی تعداد میں لوگ مرحوم سے متاثر نظر آنے لگے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب مذاہب کو لوگ ماننے تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنے عقائد کو جاننے اور سمجھنے کی بھی کوشش کریں۔ قومی اور بین الاقوامی مسائل کی سنگینیاں اہلِ مذاہب کو مسلسل اجتہاد سے کام لینے کی دعوت دے رہی ہیں۔ لازمی نہیں کہ فکری تبدیلی کا قدم کسی ایسے اعلان کے تحت اٹھایا جائے کہ سننے والے (جن میں بیشتر صرف سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں) حیران رہ جائیں یا اس قدر پریشان ہوجائیں کہ پوری کوشش بے سمتی کی شکار ہوجائے۔ بین مذاہب ہم آہنگی کی محض مجلسی نمائش سے اب بات نہیں بنے گی۔ ہم میں سے ہی کسی نہ کسی کو گھر گھر جا کر اس کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔
مولانا ارشد مدنی نے حالات کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے جسے پیدا کرنے میں دینی ذمہ داروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، اس رُخ پر قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے صرف محفل لوٹنے کیلئے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس کے حوالے سے بعض حلقے انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ امتِ واحدہ کا تصور کوئی نیا نہیں۔ تقسیم ہند سے ناعاقبت اندیشوں کو باز رکھنے کیلئے مولانا آزاد نے بھی اس کی وکالت کی تھی۔ مولانا مدنی نے بھی وقت کی پکار سے اپنی آواز کو ہم آہنگ کیا ہے۔ صحافیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ صحافت بالخصوص ورنا کلر صحافت کا یہی المیہ ہے کہ اب اس میں بھی وہی لوگ در آئے ہیں جنہیں بس شور اور ہنگامہ کیش کرنے میں مزہ آتا ہے حالانکہ یہ پیشہ انتہائی ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔ سماجی ذمہ داری اس کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ سماجی تانے بانے پر کسی بھی خبر یا نظر کے رد عمل کا اندازہ لگانے کے بعد ہی کسی تحریر کو نشر و اشاعت کا حصہ بنانا چاہیے۔ ملک اور ملک کی دو بڑی ملتیں اِس وقت جس کشاکش سے گزر رہی ہیں، اُسے معمولی نہ سمجھا جائے۔ ایسی باتوں، مکالموں اور تحریروں سے سخت پرہیز کیا جائے جنہیں سمجھنے میں معمولی غلطی سے بنتی بات بگڑ سکتی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS