عارف شجرح: گجرات: اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی نمائندگی کا مسئلہ

0

عارف شجرحیدر آباد، تلنگانہ
اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ اب مسلمانوں کوسیاسی حصہ دری سے محروم رکھاجارہا ہے یا یوں کہیں کہ سیاسی جماعتیں مسلم کمیونٹی کے ساتھ ‘اچھوت’ جیسا سلوک کر رہی ہیں بی جے پی تو چھورئے اس میں کانگریس اورعام آدمی پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں بھی پیچھے نہیں ہیں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ قومی سیاسی پارٹیوں سے لے کر علاقائی پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی ہیں ۔یہ سلسلہ 1990 سے بدستور جاری ہے اسمبلی سے لے کر لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی سمٹ کر رہ گئی ہے۔گجرات اسمبلی انتخابات 2022 میں بی جے پی نے 24 سال سے چلی آرہی اپنی روایت پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات کی طرح اس بار بھی صرف 6 مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیںاور گجرات میں سہ رخی لڑائی کا دعویٰ کرنے والی عام آدمی پارٹی نے اب تک 176 امیدواروں کا اعلان کیا ہے، جن میں سے صرف دو مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 6 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ لیکن، صرف 3 کو فتح ملی۔ سیدھے الفاظ میں 1990 سے گجرات اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کی تعداد لگاتار کم ہونے لگی۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات تک بی جے پی اور کانگریس گجرات میں اہم پارٹیاں تھیں۔ اور، کانگریس نے 2002 کے اسمبلی انتخابات کے بعد کبھی بھی 6 سے زیادہ امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔گجرات کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد مسلمان ہیں۔ جو 25 اسمبلی سیٹوں پر براہ راست فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ تاہم دیگر ریاستوں کے مقابلے گجرات میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ ان پر مسلم نواز ہونے کا الزام لگے کیونکہ، اگر ایسا ہوتا ہے تو دوسرے ووٹروں کے ووٹ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ دراصل، کانگریس اور بی جے پی کو گجرات میں ایک طویل عرصے سے اہم سیاسی پارٹیوں کے طور پر جانا جاتا تھا اور گجرات میں پولرائزیشن سے بچنے کے لیے، کانگریس نے خود مسلم امیدواروں کی نمائندگی کم کردی تھی۔ 1990 کے اسمبلی انتخابات میں جہاں کانگریس نے 11 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 1995 کے اسمبلی انتخابات میں یہ تعداد گھٹ کر 10 رہ گئی تھی اور کانگریس کے سبھی امیدواروں کو اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہونے والے ہر الیکشن میں کانگریس نے مسلم امیدواروں کی نمائندگی کم کی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات اسمبلی میں پہنچنے والے زیادہ تر مسلم ایم ایل اے صرف کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہیں۔ اسی کانگریس نے گجرات میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک نیا تجربہ شروع کیا ہے۔ نرم ہندوتوا کے راستے پر چلتے ہوئے کانگریس گجرات میں اپنی کھوئی ہوئی بنیاد دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کو بھی مناسب نمائندگی نہیں مل رہی ہے۔ اس بار اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے اسمبلی انتخابات میں سرگرم ہونے کی وجہ سے کانگریس کو بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ اس کے مسلم ووٹ بینک کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ کانگریس کا الزام کہ بہار اور اتر پردیش کے گزشتہ ا سمبلی انتخابات میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پراتھا۔ دوسری طرف گجرات اسمبلی ا نتخابات پی ایم مودی اور امت شاہ کے لئے وقار کا مسئلہ بنا ہوا ہے کیوں کہ گجرات مین عام آدمی پارٹی کی گھس پیٹھ نے سارے اعدادوشمار بدل دیے ہیں کھیل بگاڑ دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی آبائی ریاست ہونے کے ناطے بی جے پی کے لیے ریاست میں اقتدار برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف اب گجرات میں 10 فیصد مسلمانوں کے ووٹوں کے لیے مشق شروع ہو گئی ہے۔ یوں تو گجرات میں مسلمانوں کی آبادی کافی زیادہ ہے لیکن آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں ان کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس زمانے میں1980 میں کانگریس کے اندر مادھو سنگھ سولنکی کا دور تھا۔ جب سولنکی 1980 میں گجرات میں دوسری بار وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ انہوں نے گجرات میں کانگریس کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے ’کھم تھیوری‘ پیش کی تھی۔ کھم فارمولے کے تحت چھتریا، دلت، آدیواسی اور مسلم برادریوں کو ساتھ لے کر انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کی تھی۔ 1980 کی دہائی میں کانگریس نے 17 مسلم امیدوار کھڑے کیے جن میں سے 12 نے کامیابی حاصل کی لیکن اس الیکشن کے بعد اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی گئی، جبکہ گجرات کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 10 فیصد کے قریب ہے جو کہ 25 اسمبلی سیٹوں پر براہ راست 15 سے 20 فیصد کے قریب ہے۔ بہر حال گجرات میں مسلم ووٹروں کا ایک بڑا حصہ کانگریس کو کیڈر ووٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم مسلم ووٹروں میں ایک طبقہ ایسا ہے جسے بی جے پی کے حامی کہا جاتا ہے مجموعی طور پر گجرات انتخابات 2017 کے مقابلے اس بار زیادہ دلچسپ ہونے والے ہیں۔ اس بار گجرات انتخابات میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی مشق بھی شروع ہو گئی ہے۔ کیونکہ گجرات کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد مسلمان ہیں۔ جو 25 اسمبلی سیٹوں پر براہ راست فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ تاہم دیگر ریاستوں کے مقابلے گجرات میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ 2017 کے انتخابات میں پہلی بار کل 4 مسلم ایم ایل اے جیتے ہیں۔ اگر ہم 25 مسلم اکثریتی سیٹوں کی بات کریں تو 2012 میں کل 25 سیٹوں میں سے 17 سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ تھا جب کہ کانگریس کو 8 سیٹیں ملی تھیں۔ وہیں بی جے پی گجرات کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ گجرات میں قریب 10 فیصد مسلم ووٹر ہیں ریاست کے 182 سیٹوں میں 25 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر کسی بھی سیاسی پارٹی کو بنانے و بگاڑنے کی قوت رکھتی ہے اسی کے مدنظرسبھی سیاسی پارٹیوں کی نظریں مسلم ووٹروں پر لگی ہوئی ہیں ۔ بہر کیف گجرات اسمبلی انتخابات میں مسلم ایم ایل اے کی تعداد بھی جاننا ضروری ہے۔ گجرات اسمبلی میں 1980: 12 ایم ایل اے،1985: 8 ایم ایل اے،1990: 2 ایم ایل اے، 1995: 1 ایم ایل اے،1998: 5 ایم ایل اے، 2002: 3 ایم ایل اے ، 2007: 5 ایم ایل اے، 2012: 2 ایم ایل اے اور 2017 : 4 ایم ایل اے نے ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ آخری بار کانگریس نے 1995 میں دس یا دس سے زیادہ مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ دوسری طرف بی جے پی کی تاریخ میں تقریباً 24 سال قبل واحد مسلم امیدوار تھا۔ ایسے میں یہ تحقیقات کا موضوع ہے کہ گجرات میں جہاں احمد پٹیل جیسا چانکیہ تھا، جہاں 10 فیصد آبادی مسلمان ہے، وہاں پارٹیاں مسلمانوں کو امیدوار دینے میں کیوں پیچھے رہ گئیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS