عارف شجر: گجرات اسمبلی انتخابات اور قومی سیاسی منظر نامہ

0
ABP Live

عارف شجر،حیدرآباد( تلنگانہ)
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات کا2022 کا اسمبلی انتخاب2024 کے عام انتخابات پر بڑے پیمانے پراثر انداز ہوگا۔ اس الیکشن کے نتائج کافی حد تک میں ہار اور جیت پر ہی منحصر ہوگا کہ مرکز میں کس کی سرکار بننے والی ہے۔ اس کا اندازہ سیاسی ماہرین نے بھی کیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی نے گجرات اسمبلی میں اپنا پرچم لہرایا تو یہ بھی درست ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی کا مرکز پر بھی قبضہ رہنے کا امکان ہے۔گجرات کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ بی جے پی نے اپنی پوری قوت دم خم کے ساتھ لگائی ہے اور گجرات کو فتح کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی جے پی نے 2024 کے لئے جیت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ پی جے پی اس ریاست کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہاں کئی روڈ شو اور ریلیاں کی تھی جو گذشتہ انتخابات کے مقابلے کہیں زیادہ تھی۔ وہیں کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ گجرات میں انکی حکومت قائم ہوگی بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہے ۔اسی کا خوف تھا کہ بی جے پی کو خصوصی طور سے پی ایم مودی کو یہاں پوری طاقت لگانی پڑی اور کئی روڈ شو کرنے پڑے لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا ۔ عام آدمی پارٹی کے بھی اسی طرح کے دعوے ہیں کیجریوال کا بھی ماننا ہے کہ انکی سرکار گجرات میں بننے والی ہے بی جے پی اور کانگریس کے دعوے کھوکھلے ہیں انہیں گجرات کی عوام نے انگوٹھا دکھا دیا ہے۔ سبھی سیاسی پارٹیوں کی جیت کے دعوے اپنی اپنی جگہ ہے اب یہ تو8 دسمبر کو ووٹ شماری میں ہی پتہ چل پائے گا کہ گجرات کا کنگ کون ہوگا۔
گجرات میں اسمبلی سیٹوں کی کل تعداد182 ہے اس میں 40 سیٹیں محفوظ ہیں۔27سیٹیں درج فہرست قبائل کے لئے اور13 سیٹیں درج فہرست ذاتوں کے لئے محفوظ ہیں ۔ اسمبلی میں اکثریت کا نشان92 ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 2017 کے انتخابات میں بر سر اقتدار بی جے پی بمشکل حکومت بچانے میں کامیاب رہی دودہائیوں میں پہلی بار پارٹی کی سیٹوں کی تعداد دوہرے ہندسے تک کم ہوئی اور بی جے پی صرف99 سیٹین ہی حاصل کر پائی۔ کانگریس 2017 کے انتخابات میں77 سیٹوںپر ہی کامیابی حاصل کر پائی تھی۔آزاد امیدواروں نے تین سیٹیں جیتیں دلت لیڈر جگنیش میوانی نے وڈگام سے کانگریس کی حمایت سے کامیابی حاصل کی۔ درحقیقت2022 کے اسمبلی انتخابات کی اگر ہم بات کریں تو گجرات میں بی جے پی کی یک طرفہ جیت کی قیاس آرائیوں کے درمیان دو ایگزٹ پول کے نتائج کی وجہ سے اس کے ممکنہ ووٹ فیصد کی بات چھڑ گئی ہے۔ ایکسس مائی انڈیا نے اپنے سروے کی بنیاد پر بتایا ہے کہ گجرات میں بی جے پی کو اس بار 46 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ اسی طرح ای ٹی جی کے اگزیٹ پول میں کہا گیا ہے کہ اس سال ہونے والے گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 46.7 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی کو گجرات میں کچھ ووٹ فیصد خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔8 دسمبر کو آنے والے گجرات اسمبلی انتخابات کے حقیقی نتائج میں بھی اگرAXIS MY INDIAٰٰٓٓیاETG میں بی جے پی کے ووٹ شیئر کے بارے میں کسی کی پیشن گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیںتو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بی جے پی کی طاقت واپس بی جے پی کے پاس ہی آ گئی ہے لیکن اس کے ووٹرز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ در اصل2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کل 49.44فیصد ووٹ ملے تھے ایسے میں اگر ایکس مائی انڈیا کے مطابق ہی بی جے پی کو 46 فیصد ووٹ ملتے ہیں تو اسے 3.44 فیصد کا نقصان ہوگا۔آپ کہیں گے کہ دو چار فیصد ووٹ آگے پیچھے ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے یہاں تک کہ اگر بی جے پی کو 3-2 فیصد ووٹوں کا جھٹکا لگ جاتا ہے تو بھی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی جگی صحیح ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے اپنے تبصرے میں کہا کہ سیاست حال کی کامیابیوں تک محدود نہیں رہ سکتی اسے مستقبل کے چیلنجز سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔2017 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں ب جے پی کو سب سے کم 77سیٹیں ملی تھیں۔ پھر پاٹیدار ایجی ٹیشن کی وجہ سے بی جے پی کی گذشتہ تمام اسمبلی انتخابات میں سب سے بری کارکردگی رہی پھر بھی اسے 49.44 فیصد ووٹ ملے اب کہا جا رہا ہے کہ اس بار بی جے پی سیٹوں کا ریکارڈ بنانے جا رہی ہے انتخابی ماہرین کو لگتا ہے کہ اس بار بی جے پی1985 میں149سیٹوں کا ریکارڈ توڑ دے گی۔اس سال کے انتخابات میں پارٹی نے کانگریس کے وزیر اعلیٰ مادھو سنگھ سولنکی کی قیادت میں149 سیٹیں جیتیں دوسری جانب وزیر اعظم نریندرمودی نے اس بار گجرات انتخابی مہم کے لئے 31 ریلیاں اور تین روڈ شو کئے۔ نریندر مودی کی تین روڈ شو اور 31ریلیاں کو لے کر اپوزیشن جماعت یہ کہنے سے نہیں باز آ رہی ہیں کہ بی جے پی اس بار گجرات میں حکومت نہیں پائے گی کیوں کہ پی ایم مودی نے جس طر ح سے گجرات میں تابڑ توڑ ریلیاں کی ہیں اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پی ایم مودی اپنے اس مہم میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
ایک عجیب بات یہ سمجھ میں آ تی ہے کہ حکمران پارٹی کے مقابلے کانگریس کے خلاف اینٹی انکمبنسی زیادہ نظر آتی ہے اور اروند کجریوال فائدے میں نظر آرہے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ اروند کیجریوال سورت اور سوراشٹر میں کتنے پاٹیداروں کو کھینچ سکے ہیں عام آدمی پارٹی میں جو بھی گئے ہیں اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا لیکن پسماندہ اور قبائلیوں میں کھڑگے کی وجہ سے کانگریس کو کئی گنا زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے بھوپیندر پٹیل لمبی سانس لے سکتے ہیں 2017 میں پاٹیدار مانت آندولن سمیتی کے بی جے پی مخالف مظاہرے کے باوجود تمام سات سیٹوں پر بھگوا لہرایا گیا۔ اس بار ورچھا روڈ سے الپیش کتھریا اور اولیاڈ سے دھر میندر مالویہ عام آدمی پارٹی کے مضبوط امیدوار مانے جاتے ہیں عام آدمی پارٹی نے یہاں کے بلدیاتی انتخابات میں 27 فیصد ووٹ حاصل کرکے مضبوط موجودگی درج کی ۔ سوراشٹر میں بی جے پی کو موربی،امریلی، جوناگڑھ، سومناتھ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا لیکن اس بار پٹیلوں میں کوئی ناراضگی نہیں تھی۔ پٹیلوں کے لیڈر ہاردک پٹیل خود ویرگام سے بی جے پی کے ٹکٹ پر میدان میں تھے پاٹیداروں کی ریزرویشن تحریک کے خلاف آواز اٹھانے والے انتہائی پسماندہ طبقات کا چہرہ الپیش ٹھاکر بھی گاندھی نگر سائوتھ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑا۔ موجودہ اہم ایل اے خلاف کسی بھی لہر کو روکنے کے لئے بی جے پی نے تمام شہری سیٹوں پر نئے چہرے اتارے تھے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات میں پاٹیداروں کا ووٹ شیئر 15 فیصد ہے لیکن ان کا غلبہ ہے زراعت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی یہ قابض ہیں اس کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ٹکٹوں کی بات کریں تو عام آدمی پارٹی نے 46 پاٹیداروں کو ، کانگریس نے42 اور بی جے پی نے 45 پٹیلوں کو جگہ دی تھی۔ اروند کجریوال نے گوپال اٹالیہ کی گرفتاری کو پٹیلوں کی توہین قرار دے کر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی جو کانگریس کے لئے خطرناک علامت ہے۔ بہر حال اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات کی ہار اور جیت2024 کے عام انخابات میں بھر پور اثر ڈالے گا۔ سیاسی ماہرین کی اگر مانے تو گجرات میں بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے عام انتخابات میں براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ گجرات اسمبلی انتخابات سے ہی دہلی کا راستہ نکلے گا۔
بہر حال! گجرات کے عوام کا ماننا ہے کہ اس بار بھی بی جے پی آئے گی یہ مودی کا گڑھ ہے اور وہ اپنے گڑھ میں اچھے فرق سے جیتیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نتین بھائی پٹیل کو ٹکٹ نہیں دیا گیا اس لئے لوگوں میں ناراضگی ہے اس بار بی جے پی ہارے گی کیونکہ لوگ نتن پٹیل کو پسند کرتے ہیں دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ نتین پٹیل انتخاب نہیں لڑے ہیں لیکن جو سپورٹر لڑ رہا ہے وہ نتن پٹیل کا آدمی ہے وہ جیت جائے گا لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ نتین پٹیل بھی ناراض ہیں کیونکہ انہیں نٹکٹ نہیں ملا۔ تاہم اس دوران کچھ لوگوں نے کانگریس کا ساتھ دیا ہے۔ کہا ہے کہ اس بار الیکشن میں صرف کانگریس آئے گی بی جے پی کا 27 سال کا راج ختم ہو جائے گا کسی نے کہا کہ عام آدمی پارٹی آئے گی۔ اروند کیجریوال نے دہلی میں بہت اچھا کام کیا ہے اگر عام آدمی پارٹی بھی یہاں آتی ہے تو یہ اچھا کام کرے گی دہلی کی طرح لوگوں کو بجلی اور پانی ملے گا اسکول اچھے ہون گے اس بار عام آدمی پارٹی ہی آئے گی۔ اس دوران ایک چیز جو دیکھنے میں آئی وہ تھی لوگوں میں ناراضگی لوگ مسائل پر ناراض تھے جن دو مسائل نے سب سے زیادہ ناراضگی ظاہر کی وہ تھی مہنگائی اور بے روزگاری یہ کہنے والوں میں زیادہ تر نوجوان تھے کہنے لگے کہ کسی کے پاس کام نہیں ہے اس لئے یہاں اتنے لوگ آکر کھڑے ہیں، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مہنگائی اور بے روزگاری بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اگر صحیح معنوں میں اس بنیادی مدعا کو لے کر گجرات کے عوام نے ووٹ کیا ہوگا تو یقیناً بی جے پی کے لئے مشکل کی گھڑی ہوگی بی جے پی کو کئی سیٹوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اب 8 دسمبر کو ہی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ گجرات کے عوام نے کس مدعا کو لے کر ووٹ دیا ہے۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS