کیا معدوم ہورہے ہیں قیام امن کے امکانات؟

0

امریکی وزیروں، اعلیٰ حکام کے سعودی عرب اور مغربی ایشیا کے لگاتار دوروں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدانہیں ہورہی ہے۔ امریکہ کے خارجہ سکریٹری انٹنی بلنکن کے حالیہ دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری بالکل واضح طورپر دکھائی دے رہی تھی۔ اگرچہ دونوں طاقتوں کے درمیان کئی انتہائی سنگین نوعیت کے اختلافات ہیں مگر عرب سربراہ اجلاس کے دوران سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کے معاملہ میں جو سخت موقف اختیارکیاہے، اس کو سمجھتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بے چینی ہے، سعودی عرب کے حالیہ دورے میں امریکی خارجہ سکریٹری نے یہ کہہ کر مغربی کنارے میں ناجائز صہیونی بستیوں کی تعمیر، قیام امن میں بڑی رکاوٹ ہے، اسرائیل کی قیادت کی پیشانی پر شکن ڈال دی ہے۔
موجودہ وزیراعظم بنجامن نتن یاہو اپنی شدت پسندی اور سفاکی کے لیے بدنام ہیں مگر انھوں نے بھی ہوا کے رخ کو سمجھ لیا ہے۔ ان کا سعودی عرب کے ولی عہد وزیر اعظم اور اس وقت کی سب سے بااختیار شخصیت محمد بن سلمان سے ملاقات کی درپردہ کوشش کرنا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تمام ظاہری سختی، سفاکی اور رویہ میں ترشی کے باوجود یہودی سربراہ مملکت کے دل کے اندیشہ ہائے دور دراز ان کو خود کوبے چین کیے ہوئے ہیں۔ بنجامن نتن یاہو سے قبل اسرائیل کے وزیراعظیم کے منصب پر یائرلیپڈقابض تھے۔ وہ حتی الامکان اس بات کی کوشش کرچکے ہیں کہ اسرائیل کی سرزمین کی پڑوسی عرب ملکوں کے ساتھ موجودہ کشیدگی کو کم کیا جائے یا کم ازکم ان کے ساتھ ترسیل توبہتر کی جائے۔ سال رواں کے اوائل میں جنوری میں اس وقت کے وزیراعظم یائر لیپڈ نے ابراہیمی معاہدے کے تحت دوسخت ممالک بحرین، یو اے ای،مراقش کے لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کرکے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی مگر اسرائیل نے یہ سمجھوتہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے کیاتھا تاکہ عرب دنیا سے اس کے اقتصادی اور تجارتی رشتے بن جائیں اور اس کی معیشت جو کہ قرب وجوار کے ملکوں کے ساتھ حالت جنگ کی وجہ سے حسب توقع رفتار کے ساتھ ترقی نہیں کرپائی، بہتر ہوسکے۔فلسطین کی آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کرنے والی پی ایل او جس نے آزاد مملکت کے لالچ میں اسرائیل کو تسلیم کرلیاتھا، اس نے بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور وہ اس اجلاس سے دورہی رہی تھی۔
غرض یہ کہ اسرائیل مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتاہے اور ایک محدود سطح اورایک حد تک ہی معمولی نوعیت کے ایشو پر بات کرتاہے جیسا کہ رمضان سے قبل بیت المقدس میں نماز کی ادائیگی وغیرہ کے دوران کیانظم ہوگا، یہی معمولی ایشوپر ہی تبادلہ خیال ہوا ، اس تبادلہ خیال کے دوران جن ایشوپراختلافات تھے وہ برقرار رہے اور اسرائیلی حکام نے اردن میں ہونے والی اس دوطرفہ کانفرنس میں فلسطینیوں کو اپنے فیصلوں سے آگاہ کیاتھا اور ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔اس مصالحتی کانفرنس میں مصر ثالث کا رول ادا کرتا رہا۔اس پورے تنازع میں اردن کا رول بھی الگ نوعیت کا ہے۔ ابراہیم سمجھوتہ کرنے کے بعد بھی اسرائیل کی جنوری 2023کانفرنس میں اردن نے شرکت نہیں کی تھی۔ عرب اردن یعنی مغربی کنارہ درحقیقت اردن کاخطہ ہے اوربیت المقدس کے کسٹوڈین اردن کے شاہ ہیں۔ اسرائیل نے اردن کے سفیر کو بیت المقدس میں آمد اور نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب اردن کے سفیر اپنے سفارتی عہدے اور کسٹوڈین کے نمائندے کے طورپر بیت المقدس گئے تو اسرائیل کی فوج نے ان کو قبلہ اول میں جانے تک نہیںدیاتھا۔ ظاہرہے کہ ایک طاقتور غاصب کے طور پر یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ پر اقتدارِاعلیٰ اسرائیل کا ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج 2005میں واپس بلالی تھی مگر اس کے باوجود طاقت کے بل پر اسرائیل جب چاہتاہے اور جیسے چاہتا ہے غزہ میں فلسطینی جانبازوں اور عام لوگوں کوٹھنڈا کردیتاہے اورمہذب دنیا اس کی سفاکی کو ’حق دفاع‘ کہہ کر نظرانداز کردیتی ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS