اربعین حسینی :انسانی اتحاد اور امن و آشتی کا پیامبر

0

تقدیس نقوی
اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہتے ہیں۔ لیکن اس لفظ نے گزشتہ 1400 برس میں تمام عالم اسلام میں خصوصاً اور دنیا کے ہر خطہ میں عموماً اپنی اک مخصوص شناخت بنالی ہے۔ یہ مخصوص شناخت اسے شہید انسانیت حضرت ابو عبداللہ امام حسین ابن علی علیہ السلام سے نسبت کے سبب حاصل ہوئی ہے۔ آج دنیا کے گوشے گوشے میں ’اربعین حسینی‘ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ یوں تو اربعین ایک عدد ہے مگر اس لفظ کو سنتے ہی غیر ارادی طور پر ذہن اربعین حسینی کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لفظ کی غیرمعمولی شہرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عاشورہ دس محرم یوم شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام سے ٹھیک 40 دن بعد تمام محبان امام عالی مقام بلا تفریق مذہب و ملت اس دن کربلائے معلی عراق میں روضہ اقدس سید الشہداء پران کی شہادت کی عظیم قربانی کے حقیقی مقصد کی تبلیغ کرنے اور امام سے اپنے تجدید عہد وفا کرنے کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں۔ جو محبان امام روضہ اقدس پر حاضری دینے سے قاصر ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے مستقر پر یوم اربعین ذکر مقصد قربان امام کا اہتمام کرتے ہیں اور امام سے اپنے روحانی تمسک کی شہادت دیتے ہیں۔ اربعین حسینی کے موقعہ پر زائرین روضہ امام حسین اور ان کے برادر علمدار حسینی حضرت عباس ابن علی علیھم السلام کا یہ پرامن اجتماع اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کا دین اسلام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ہزار مشقتیں برداشت کرتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی حق اور سچائی کی حفاظت کی خاطر دی گئی جانوں کی قربانی کے ذریعہ تمام انسانیت پر کئے گئے احسان کے اعتراف میں اور امام سے اپنی روحانی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے ان کے روضہ پر حاضری دیتے ہیں۔ ان زائرین امام میں سن رسیدہ ، معذور لوگ ، خواتین اور کم سن بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ساری دنیا اس منظر کو دیکھ کر متحیر ہوتی ہے کہ آخر وہ کون سی ایسی شئے ہے جس کی کشش ان لوگوں کو جوق در جوق کربلاکی جانب کھینچ لاتی ہے۔ اربعین حسینی کا اک اہم رکن پیادہ روی ہے۔
زائرین میلوں دور سے چھوٹے چھوٹے قافلوں کی صورت میں پا پیادہ کربلائے معلی کی جانب چلے آتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد میں زائرین کرام نجف اشرف سے کربلائے معلی تک آنے والے تقریباً 55 میل طویل راستے پر دن و رات کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں۔ کربلا کی دوسری جانب ساحلی شہر بصرہ سے جو تقریباً 500 کلومیٹر دور ہے زائرین دوتین ہفتوں کا طویل راستہ طے کرتے ہوئے یوم اربعین سے پہلے کربلا پہنچتے ہیں۔ اسی طرح بغداد اور دوسرے بڑے شہروں سے بھی زائرین کرام بڑی تعداد میں کربلا وارد ہوتے ہیں۔ مختلف راستوں سے آنے والے زائرین کے یہ قافلے ان کی کثیر تعداد اور ایک ہی مشترک منزل یعنی روضہ اقدس امام حسین علیہ السلام ہونے کے سبب اک پرامن طویل مارچ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اربعین حسینی کے زائرین کا یہ مارچ ’گنیس بک آف ریکارڈ‘ کے مطابق دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا مارچ اور ایک وقت میں ایک مقام پر سب سے بڑا اجتماع مانا گیا ہے۔ زائرین کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہوتا جاریا ہے اور عراقی حکومت کی اطلاعات اور تازہ اندازہ کے مطابق یہ تعداد کئی کروڑ زائرین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان زائرین میں اک بڑی تعداد غیرملکی زائرین کرام کی بھی ہوتی ہے۔ جن میں اہل ہنود ، عیسائی ، زوراشٹرین اور دیگر ادیان کے پیرو حضرات بھی شامل ہوتے ہیں جو اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ کربلائے میں حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی قربانی تحفظ انسانیت کی خاطر دی گئی تھی۔
اس لئے بلا تفریق مذہب و ملت ہر قوم کے افراد کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ ساری دنیا میں امام عالی مقام کی اس قربانی کی اہمیت اور اس کے مقصد کی تبلیغ کرنے کے اس پرامن مشن میں شامل ہوجائے۔ اسی لئے اربعین حسینی کے اس پرامن مشن کو ہر برس آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہر اس حساس انسان کے کاندھوں پر ہے جو کسی ایک خاص مذہب کے ماننے سے پہلے مذہب انسانیت کا پیروکار ہے۔ شاید اسی کی نشاندہی کرتے ہوئے شاعر انقلاب نے کہا تھا:
’’انسان کو بیدار تو ہولینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین‘‘
آج جب ہم اربعین حسینی کے پرامن اجتماع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس قافلے میں ’ لبیک یا حسین ‘ کا نعرہ لگانے والوں میں دنیا کے کونے کونے سے آنے والے ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حسینی پیغام سماج کے کسی ایک مخصوص طبقے کا پیغام نہیں ہے بلکہ ساری بنی نوع انسانی کا پیغام ہے ، تمام باطل قوتوں کے خلاف اہل حق کا اک غیر متشدد کرارا جواب ہے۔ اربعین حسینی نے عوام میں ہر برس بڑھتی ہوئی مقبولیت اور زائرین کی نامسائد حالات کے باوجود اس میں پرخلوص شمولیت اس بات کی شاہد ہے کہ یہ اجتماع انتہائی پرامن اور انسانی یکجہتی کی اک جیتی جاگتی مثال ہے۔ دنیا کے طول وعرض میں اربعین حسینی کے توسط سے سماجی اتحاد اور ہم آہنگی کے جو بے مثال مناظر مشاہدہ میں آتے ہیں اس سے اس یقین کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انسانیت کا کوئی الگ مذہب نہیں ہوتا بلکہ انسانیت خود ایک آفاقی مذہب ہے۔
اربعین حسینی کے اس پرامن سالانہ اجتماع کی سماجی اہمیت اور اس کے مختلف سماجی طبقوں پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے محرکات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی شمولیات کا اک مختصر سا تجزیہ کرلیا جائے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اربعین حسینی کے روزانہ کربلا آنے والے قافلوں میں زائرین اپنے ہمراہ اپنے سن رسیدہ اور معذور بزرگوں ، خواتین اور بچوں کو بھی لے کر آتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کسی مشکل اور پرخطر سفر پر کبھی اپنے ہمراہ اپنے کمزور اعزا و اقربا کو لے کر نہیں جاتا۔ اربعین حسینی کے انتہائی پرامن اور محفوظ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ اس میں ہرعمر کا زائر بے خوف و خطر شرکت کرتا نظر آتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں واقعہ مباہلہ میں یہ حقیقت جلی حروف میں رقم ہے کہ مباہلہ کے وقت نصاری نجران میدان مباہلہ میں حضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مباہلہ کئے بغیر ہی صرف اس بات کی بنا پر شکست تسلیم کررہے تھے کہ اگر حضور کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہوتا تو وہ اپنے بچوں کو ہرگز اہنے ساتھ لے کر میدان میں نہ آتے۔ اسی طرح میدان کربلا میں اگر سیدالشہدا کا مقصد جنگ و جدال ہوتا یا کوئی سیاسی مفاد پیش نظر ہوتا تو کیا وہ اپنے ہمراہ اپنے کم سن بچوں اور مخدرات عصمت و طہارت کو اتنے سخت حالات میں لے کر آتے۔ بس یہی امر اربعین حسینی پر بھی صادق آتا ہے کہ اگر یہ پرامن اور روحانیت سے لبریز اجتماع نہ ہوتا تو ہزاروں میل دور سے سفر کرکے آنے والے زائرین اپنے ہمراہ اپنے سن رسیدہ اور معذور بزرگوں ، بچوں اور خواتین کو ہرگز نہ لاتے۔
عراقی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اس مارچ کی ڈائریکٹ ٹیلی کاسٹ سے ہمیں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہی جہاں عراقی مومنین اپنی اعلی ترین مہمان نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے معذور بزرگوں کے پاوں کی مساج اپنے ہاتھوں سے کرتے ہوئے اور ان کے قدموں کے بوسے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا کون سا رشتہ ان عراقی میزبانوں اور ان کے مہمانوں کے درمیان بغیر کسی رسمی تعارف کے قائم ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر یہ جانے ہوئے کہ مہمان کس عقیدہ ، مذہب اور نسل سے تعلق رکھتا ہے اس کی بے لوث خدمت کرنا اپنے لئے باعث سعادت اور افتخار تصور کرتا ہے۔ ان دونوں کو جوڑنے والا بس ایک ہی طاہر اور پاکیزہ بندھن ہے اور وہ ہے ہر مہمان کا زائر حسین ہونا۔ یہاں نہ کوئی امیر رہتا ہے اور نہ غریب۔ یہاں نہ سیاہ فام اور سفید فام کا فرق کیا جاتا ہے۔ اربعین حسینی کا یہ مثبت پہلو آج بے شمار غیروں کو اپنا بنانے کا کام کررہا ہے۔
پوری دنیا میں کسی بھی مقام پر کیا کسی سیاسی یا شخصی قیادت کی معیت میں جمع ہونے والے لوگوں کے درمیان اربعین حسینی کے زائروں کے درمیان نظر آنے والی اس ہم آہنگی ، یگانگت، اخوت اور محبت جیسی کوئی دوسری مثال دکھائی جا سکتی ہے ؟
اربعین حسینی کے قافلوں میں مصائب سیدالشہدا بیان کرنے کے علاوہ صرف اور صرف ایک ہی نعرہ ’ لبیک یا حسین‘ لگایا جاتا ہے۔ یہ نعرہ دراصل امام مظلوم کی اس ندائے استغاثہ کے جواب میں لگایا جاتا ہے جب امام نے عصر عاشور اپنے تمام انصار و اقربا کے قتل ہوجانے کے بعد تنہا ہوجانے پر آوز دے کر پکارا تھا:
’ ہے کوئی جو میری مدد کرے‘۔
امام عالی مقام نے یہ آواز اس وقت میدان جنگ میں اپنے لئے جنگی مدد مانگنے کے لئے نہیں دی تھی کیونکہ اگر یہ استغاثہ وہاں موحود لوگوں کو مخاطب کرنا مقصود ہوتا تو وہ یہ ندا جنگ کی ابتدا ہی میں دیتے۔ امام بخوبی جانتے تھے کہ یہاں اب سوائے دشمنوں کے اور کوئی میری یہ آواز نہیں سن رہا ہے۔ دراصل امام حسین علیہ السلام یہ ندا تاقیامت آنے والے ہر اس انسان کو مخاطب کرکے دے رہے تھے جس کے سینے میں اک حساس دل دھڑک رہا ہو، جو انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار ہو اور جو باطل کے خلاف کھڑے ہو جانے والے حق ہرستوں کا ہر وقت ساتھ دینے کا عزم رکھتا ہو۔ اربعین حسینی کے زائرین سب یک زبان ہوکر اپنے امام کی ندا استغاثہ کا جواب ’ لبیک یا حسین ‘ کہہ کر دیتے ہیں جس کا مطلب ہے ’اے مرے مولا حسین میں آپ کی نصرت کے لئے حاضر ہوں ‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ نعرہ دراصل طاغوتی طاقتوں کے خلاف شروع کی گئی حسینی تحریک میں پرخلوص طریقہ سے شامل ہو جانے کا اک عہد بھی ہے۔ یہ نعرہ ’ وہ زائرین بھی لگاتے ہیں جو عربی سے ناواقف ہیں۔ پوری دنیا میں کسی مجمع کی یکجہتی اور اتحاد کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی۔
ایام اربعین میں جانب کربلا زائرین کا یہ اجتماعی اور نہایت منظم مارچ دراصل حصول اجرو ثواب کے ساتھ ساتھ ایک علامتی اظہار یکجہتی اور مشترک انسانی اقدار اور حقوق انسانی کے تحفظ کی جانب مثبت قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی مظلوم اور کمزور عوام نے طاغوتی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے تو سب سے موثر اور معتبر طریقہ اک غیر متشدد اور پرامن تحریک چلاکر ہی اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ ہماری ہندوستانی جنگ آزادی کی ابتدا ستیہ گرہ اور ڈانڈی مارچ جیسی پرامن اور غیر تشدد تحریکوں کے ذریعہ ہی کی گئی تھی جن کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
اربعین حسینی کی تاریخی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ابتداحضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی قیادت میں اہل حرم نے کربلا پہنچ کر کی تھی۔ قبر حسین علیہ السلام کے سب سے پہلے زائر حضورؐ کے برگزیدہ عظیم صحابی حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری تھے۔ سب سے پہلا یوم اربعین حسینی سنہ 62 ھجری کے ماہ صفر کی 20 تاریخ کو برپا کیا گیا تھا۔
مقاتل میں بیان ہوا ہے کہ جب اہل حرم حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے ہمراہ تقریباً ایک سال بعد دمشق میں یزید کی قید میں رہنے کے بعد آزاد ہوئے تو انہیں مدینہ واپس لیجانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس وقت ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے خواہش ظاہر کی ہم کچھ دن دمشق میں رہ کر اپنے شہدا کا ماتم کریں گے۔ اس کے لئے ایک مکان خالی کرایا گیا جہاں اہل حرم نے اپنے مقتولوں کا ماتم کیا اور دمشق کی عورتوں نے اہل حرم کو ان کے وارثوں کی تعزیت پیش کی۔ قاتل کے شہر میں مقتولوں کی یہ پہلی مجلس عزا تھی جس کی بانی ثانی زہرا جناب زینب سلام اللہ علیھا تھیں۔ ایک ہفتہ دمشق میں قیام کے بعد اہل حرم کا قافلہ بشیر بن جزلم کے ہمراہ مدینہ کے لئے روانہ ہوا۔ اس وقت جناب زینب سلام اللہ علیھا نے امام زین العابدین سے فرمایا کہ بشیر سے کہو کہ ہم کو کربلا کے راستے مدینہ لے جائے۔ ادھر جب قتل حسینؑ کی خبر مدینہ پہنچی تھی تو مدینہ میں قیامت برپا ہوگئی تھی۔ صحابی رسول حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے مگر نابینا ہوچکے تھے تقریباً ایک سال تک کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح کربلا پہنچ کر قبر امام حسین ؑکی زیارت کرسکیں مگر کامیابی نہ ہوئی۔آخر کار ایک سال بعد کسی قافلے کے ساتھ کربلا کے قریب پہنچ گئے۔ اپنے غلام سے کہا کہ جب کربلا آجائے تو مجھے بتادینا۔ کربلا پہنچنے پر غلام نے ایک کسان سے پوچھا کہ اس مقام کا کیا نام ہے۔ اس نے بتایا کربلا ہے۔ حضرت جابر نے کہا کہ اونٹ کو یہیں بٹھادے تاکہ میں یہاں سے پاپیادہ قبر حسین ؑ تک جائوں۔ غلام نے حضرت جابر کا ہاتھ پکڑا اور وہ پاپیادہ مقتل میں پہنچے۔ یہ 20 صفر کا دن تھا جو یوم اربعین تھا۔ رسول کریم کے عظیم صحابی کی تاسی میں ہی اب زائرین پاپیادہ اپنے امام کی قبر کی زیارت کرنا باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ حضرت جابر کے کربلا پہنچنے کے بعد 20 صفر سنہ 62 ھجری کو ہی اہل حرم کا قافلہ بھی وارد کربلاہوا تھا۔ یہی وہ دن تھا جب اہل حرم اور صحابی رسول حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری نے اربعین حسینی کی ابتدا کی۔ صحابی رسول اور امام زین العابدین ؑ کا زیارت کربلا کا وہ روح پرور سلسلہ اب ایک پرامن اتحاد انسانیت کا آفاقی مشن بن چکا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS