عرب سربراہ کانفرنس: نشستن،گفتن و برخاستن

0

22دولت مند وطاقتور عربوں ملکوں کی سرراہ کانفرنس الجیریا میں بغیر کسی مثبت نتیجے کے ختم ہوگئی۔ تقریباً تین سال کے بعد ہونے والی اس کانفرنس کے انعقادکولے کر پہلے ہی اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے۔ میزبان ملک الجیریا اپنے پڑوسی تیونس کے ساتھ بدترین ٹکرائو کا سامنا کر رہے ہیں۔ الجیریا نے کسی طرح مناکر زیادہ تر عرب ملکوںکو اس کانفرنس میں شامل بھلے ہی کرا لیا مگر عربوںکے آپسی اختلافات خطوں پر بالادستی کی کشمکش اور باہمی مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ عرب اور مسلم دنیا کے سب سے طاقتورملک سعودی عرب کے لیڈر اورجانشین محمد بن سلمان جوپوری دنیا میں اپنے ملک کا پرچم بلند کئے ، نئی صف بندی کی جستجو میں ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ کانفرنس اس وقت ہورہی تھی جب ایک طرف اسرائیل میں انتخابات کے نتائج کسی حد تک ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے اور سمجھ میں آنے لگا تھا کہ سخت گیر نسل پرست یہودی پارٹیاں کامیاب ہوجائیںگی۔ یہ ملک جو گزشتہ چار سالوں میں پانچ مرتبہ انتخابات کرا چکا ہے آج مغربی ایشیا میں قیام امن کے لئے ایک اور بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔ ارض فلسطین میں اس کے ظلم واستبداد کی کہانیاں ہر روز میڈیا، سوشل میڈیا پر نئے نئے زاویوں سے سامنے آرہی ہیں۔ بدترین اندرونی عدم استحکام کے باوجود اس ملک کا انتظام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ ان انتخابات اوراس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے فلسطینیوں کے خلاف مظالم میں تخفیف نہیںہوئی بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ دوران اانتخابات برسراقتدار رہنے والے کارگزار وزیراعظم یاییر لیپڈ اور ان کے حریف بنجامن نیتن یاہو کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے اور دونوںیہ ثابت کرنے پر آمادہ ہیں کہ فلسطینیوں پر مظالم کے معاملے میں کون زیادہ سفاک ہے۔ ان ا نتخابات میں بنجامن نیتن یاہو کی قیادت والے سیاسی محاذ نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ اب فلسطین میں تھوڑی بہت قیام امن کی جو امید تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ بنجامن نیتن یاہو انتہائی سخت اورظالم حکمراں ثابت ہوچکے ہیں اگرچہ ان کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ مگر جس انداز سے وہ دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ مغربی ایشیا ایک بار پھر کسی بڑے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ ان تمام نکات اورپیچیدگیوںکے باوجود عرب ملکوںمیں قیام امن اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی متفقہ یا نیم متفقہ حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ کئی ملک اسرائیل کے ساتھ اتحاد کرچکے ہیں۔کچھ ملکوںنے تو اسرائیل کے ساتھ دفاعی سمجھوتے کرکے اپنے پڑوسی حریف مسلم ملکوں پر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ دوستی کے معاملے میں مراقش اور بحرین صف اول کے ممالک میں ہیں۔ اس عرب کانفرنس میں اگرچہ تمام ملکوںنے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا مگر آپسی اختلافات کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لیبیا، ایتھوپیا، مراقش اور الجیریا کے ایشوز پر آپسی اختلافات اتنا شدید ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ باہمی مذاکرات تک کے لئے تیار نہیں تھے۔ حد تویہ ہے کہ باہری طاقتیں خاص طورپر خطہ کے باہر کی فوجی طاقتیں امریکہ دوست اور ترکی کی فوجی مداخلت لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ کئی مرتبہ توایسا لگتا ہے کہ عرب افریقی مسلم ممالک عالمی طاقتوں کی بالادستی کی جنگ کا اکھاڑہ بنتے جارہے ہیں۔ لیبیا میں بدترین خانہ جنگی حالات کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔ لیبیا کے حالات پڑوسی ممالک کو متاثر کر رہے ہیں۔ لیبیا میں کون کس کی سپورٹ کررہا ہے اور کب تک کر رہا ہے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے۔ شام میں خانہ جنگی میں تخفیف کا فی الحال کوئی امکان نظرنہیںآرہا ہے۔ عراق کی خانہ جنگی پورے خطے کو عدم استحکام کے شکنجے میں پھنسائے ہوئے ہے۔ یمن میں اگرچہ جنگ میں اتنی شدت نہیں ہے مگر وہاں پر چنگاری کب شعلہ بن جائے کسی کوپتہ نہیں۔ پچھلے دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے عرب ملکوںکے ایک طاقتور گروپ جی سی سی کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ان کی حکومت عربوں کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتی ہے۔ مگر چند روز بعد اوپیک کے ذریعہ تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کے فیصلے سے امریکہ اپنے سب سے قدیم اور بھروسے مند حلیف سعودی عرب سے ناراض ہوگیا ہے۔ یہ ناراضگی اتنی شدید ہے کہ دونوں ممالک میں تعلقات کو استوار کرنے کی پرانی پالیسی پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں جب ارض فلسطین مغربی ایشیا میں اقتصادی اور سماجی بحران مستقل جاری ہے بلکہ شدید تر ہورہا ہے۔ اس سے پہلے تو امریکہ اوراسرائیل دونوںاس بات کی کوشش کررہے تھے کہ مغربی ایشیا میں ایران کو الگ تھلگ کرنے کے لئے حلیف عرب ممالک ایک جامع حکمت عملی اختیار کریں اور ناٹو کی طرز کا ایک دفاعی سمجھوتہ کرلیں مگر حالات کچھ دوسری طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS