افسپا ہٹانے کا مناسب فیصلہ

0

دہائیوں کے طویل عرصہ کے بعد شمال مشرق کی تین ریاستوں ناگالینڈ ، آسام اور منی پور میں آرمڈ فورسزاسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کے دائر ہ کار میں کمی کرنے کامناسب فیصلہ کیاگیا ہے۔ شورش و بدامنی پر قابو پانے کیلئے داخلی سلامتی کے نام پر مسلح افواج کو بے لگام اختیارات اور طاقت دینے والے اس خطرناک اور جابرانہ قانون کی وجہ سے شمال مشرقی ریاستوں کے درجنوں بے گناہ نوجوان فوج کی کارروائی کا شکار بنے اور وہاں کے عوام بھی خو د کو مرکزی دھارے سے کٹا ہوا محسوس کرتے تھے اس لیے اس قانون کو ہٹانے کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا تھا۔ ان مطالبات میں گزشتہ سال اس وقت مزید شدت پیدا ہوگئی تھی جب ناگالینڈ میں فوج کی ایک مہم کے دوران 14بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔اس واقعہ کے بعدسے پورے ناگالینڈ میں افسپا ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا، خاص کر راجدھانی کوہیما میں طلبا تنظیمیں سڑک پرا ترآئیں اور حالات قابو سے باہر ہوگئے تھے۔ صورتحال کی سنگینی کے مدنظر ناگالینڈ اسمبلی نے خصوصی اجلاس بلایااور ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس میں مرکز سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پورے شمال مشرق اور خاص طور پر ناگالینڈ سے افسپا کو منسوخ کرے اور ناگا برادری سے متعلق مسئلہ کا پرامن سیاسی حل نکالے۔ تاہم مرکزی حکومت نے ناگالینڈ کی اس قرارداد کومنظور کرنے کے بجائے ایک پانچ نفری کمیٹی بناکر معاملہ اس کے سپرد کردیا تھا۔مہینوں کے غور وخوض اور حالات کاجائزہ لینے کے بعد اس قانون کو ختم تو نہیں کیاگیا مگراب اس کے دائرہ کار کو محدود کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس قانون کو مرحلہ وار ہٹانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ مرکز کے مطابق اب ناگالینڈ کے7 اضلاع کے 15تھانہ علاقوں ، منی پور میں 6اضلاع کے 15 تھانہ علاقوںاور آسام میں 23 اضلاع سے افسپا کو ہٹا دیا جائے گا۔
ویسے بھی یہ قانون قبل ازآزادی کا ہے جسے انگریزوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک کو کچلنے کیلئے بنایاتھا پھر آزادی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور 1958ایکٹ کی شکل میں سے اسے نوٹیفائی کیاگیا۔یہ قانون شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر اور پنجاب میں بھی نافذ کیا جاچکا ہے۔ تاہم پنجاب سے خالصتان کی علیحدگی پسندتحریک ختم ہونے کے بعد افسپاہٹا دیا گیا تھا لیکن باقی ریاستوں کے حالات کو داخلی سلامتی اور قومی سیکورٹی کے نقطہ نظر سے حساس قرار دیتے ہوئے اسے جاری رکھاگیا۔ پھرسال1986میں میزوقبائل سے سمجھوتے کے بعد ریاست میزورم کے بیشتر علاقوں سے یہ قانون از خود ختم ہوگیا۔ 2015 میں تریپورہ سے بھی اسے ہٹا لیا گیا۔ سال2018میں میگھالیہ سے بھی اس قانون کو ختم کردیاگیا تھا لیکن ناگالینڈ، منی پور ، آسام ، اروناچل پردیش اور جموں و کشمیر میں یہ قانون تاحال لاگو ہے۔
یہ قانون ان ریاستوں یا علاقوں میں نافذ کیاجاتا ہے جہاں شورش، بدامنی اور دہشت گردی ہوتی رہتی ہے۔ شمال مشرقی ریاستو ں میں جب یہ قانون لاگو کیاگیاتھا، اس وقت وہ علاقے دہشت گردی سے متاثر تھے اور ریاستی حکومتوں کیلئے لاء اینڈ آرڈر سنبھالنا سنگین چیلنج تھا۔ علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑے ہوئے تھیں اورعلیحدگی پسند قوتوں کی بیرون ملک سے بھی سرپرستی کی جاتی تھی۔
آرمڈ فورسزاسپیشل پاور ایکٹ(افسپا) کا بنیادی مقصد علیحدگی پسند قوتوں کو ختم کرنا اور دہشت گردی کو کچلنا ہے اوراس کیلئے مسلح افواج کو بے لگام اختیارات دیے گئے ہیں۔ جن علاقوں میں افسپانافذ ہے وہاں فوج کو بغیر کسی جوازکے بھی جامہ تلاشی، خانہ تلاشی ، گرفتاری حتیٰ کہ فائرنگ تک کے اختیارات حاصل ہیں اور اس کے خلاف داد و فریاد بھی نہیں ہوسکتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ تر بے قصور شہری مسلح افواج کی زیادتی کا شکار ہوتے رہے۔ اس قانون کی آڑ میں عام شہریوں پر جو مظالم ہوئے وہ ناقابل بیان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس قانون کوہٹانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا تھا۔ اس جابرانہ قانون کے خلاف ہی منی پور کی خاتون آہن ایروم چانو شرمیلا نے 16برسوں تک مسلسل بھو ک ہڑتال کی تھی۔
شمال مشرقی ہندوستان میں جب اس قانون کو لاگو کیاگیا تھا تو اس وقت حالات دوسرے تھے، لیکن فی الحال شمال مشرقی ریاستوں میں دہشت گرد تنظیموں کا صفایا ہوچکا ہے۔حالیہ برسوں میں شمال مشرقی ریاستوں میں شورش، بدامنی اور علیحدگی پسندی کی تحریک بھی کمزورہوتے ہوتے دم توڑ گئی ہے۔آسام میں بھی الفا اور بوڈو کی سرگرمیاں قریب قریب ختم ہوگئی ہیں۔ ناگالینڈ اور منی پورکے بیشتر علاقے بھی مین اسٹریم میں شامل ہوکر سیاسی عمل میں حصہ دارہیں۔ ایسے میںان ریاستوں میں آرمڈ فورسزاسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کے نفاذ کاکوئی جواز ہی نہیں بچتا ہے۔
مرحلہ وار افسپاہٹانے کا فیصلہ مرکز کا مناسب قدم ہے۔ یہ امید کی جانی چاہیے کہ شمال مشرقی ریاستوں سے افسپاکے مکمل خاتمہ کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر اور لداخ کے غیر حساس علاقوں سے بھی اسے اٹھالیاجائے گا تاکہ وہاں کے لوگ بھی اس جابرانہ قانون سے نجات حاصل کرکے خود کو مرکزی دھارے میں جڑا محسوس کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS