اعلیٰ عدالتوں میں تقرری

0

بقول شخصے ہندوستان آزادی کے75سال بعد اب ’امرت کال ‘ سے گزررہاہے۔ ہر چہار جانب آب حیات کی برسات ہورہی ہے۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ یہ برسات تمام ہندوستانیوں کو یکساں شرابور نہیں کررہی ہے۔ اکثریت حسرت بھری نظروں سے ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے۔سماج کے دبے کچلے پسماندہ طبقات، اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کیلئے ’ امرت کال‘ کا یہ دور بھی عام دنوں جیسا ہے۔ اس حیات آفرین بارش کی دو بوند بھی ان تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ چند مخصوص طبقات اور گروہ ہی ایسے ہیں جو آب حیات کے رقص دوام کے ہم قدم ہیں۔ایسے طبقات اور گروہوں میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کا بول بالا ہے۔ عدلیہ تک پربھی یہی طبقہ حاوی و غالب ہے۔ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی ایسے ہی افراد کے لوگ جج مقرر کیے جارہے ہیں جن کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملک کے مختلف ہائی کورٹ میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مقرر کیے جانے والے فاضل جج حضرات میں سے79فیصد کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔ شیڈولڈ کاسٹ اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ججوں کی تعداد فقط دو فیصد ہے۔
یہ اعداد و شمار مرکزی وزارت قانون و انصاف نے پارلیمنٹ کی ایک قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کیے ہیں۔ اس کے مطابق سال 2018 سے دسمبر 2022 تک ہندوستان کے تمام ہائی کورٹ میں کل 537 ججوں کی تقرری کی گئی۔ اس میں 79 فیصد جج اعلیٰ ذات کے تھے جب کہ 11 فیصد او بی سی یعنی دیگر پسماندہ طبقات،2.6 فیصد اقلیتی برادری، 2.8 فیصد درج فہرست ذات(شیڈولڈ کاسٹ) اور صرف 1.3 فیصد درج فہرست قبائل(شیڈولڈ ٹرائب )سے تھے۔یہ صورتحال سماجی انصاف کے اصولوں کے سراسر برخلاف ہے۔او بی سی ملک کی آبادی کا 52 فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن ملک کے ہائی کورٹ میں اس طبقہ کے ججوں کی تعداد 11فیصد ہے یہی حال ایس سی، ایس ٹی اور اقلیتوں کا بھی ہے۔
یہ حال ایسے وقت میں ہے جب حکومت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں سماجی تنوع کا دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتی۔ گزشتہ سال کے اوائل میں ہی مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے راجیہ سبھا میں کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کیاتھا کہ مرکزی حکومت ججوں کی تقرری میں سماجی تنوع کی خواہش مند ہے اور اسے یقینی بنانے کیلئے پرعزم بھی ہے۔ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں کسی ٹھوس اقدام کے بجائے وزیر قانون نے حکومت کی اس درخواست کا ذکر کیا جو چیف جسٹس کوکی گئی تھی۔اس درخواست میں کہاگیاتھا کہ ججوں کی تقرری سے متعلق تجاویز بھیجتے وقت درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات، اقلیتوں اور خواتین سے تعلق رکھنے والے امیدواروں پر مناسب غور کیا جائے تاکہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری میں سماجی تنوع کو یقینی بنایا جاسکے۔یادرہے کہ ملک کے ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری میں کسی قسم کا کوئی ریزرویشن نہیں ہے اور یہ آئین کی دفعہ217کے تحت کی جاتی ہے لیکن1993میں ججوں کی تقرری کے سلسلے میں کالجیم کا نظام اپنایاگیاتاکہ عدلیہ میں سماج کے تمام طبقات کی نمائندگی ہوسکے۔لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ کالجیم نظام حکومت کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے اور اسے ختم کرنے کی ہر کوشش ہورہی ہے۔اپنی پہلی میعاد میں مودی حکومت نے کالجیم کے اس نظام کو نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی )سے بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کی نیت کو بھانپ لیا اور بروقت فیصلہ کرتے ہوئے اس سازش کو ہی ناکام بنادیا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ این جے اے سی کے ذریعہ حکومت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپنی مرضی کی تقرریاں چاہتی ہے جو عدلیہ میں حکومت کی مداخلت ہے۔اس کے بعد سے ہی حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنازع بڑھ گیااور اس تنازع کی کمان وزیرقانون کرن رجیجو سنبھالے ہوئے ہیں۔ابھی دو ماہ قبل ہی انہوں نے کالجیم نظام کو ہندوستانی آئین کیلئے اجنبی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے اپنے طور پر فیصلہ کیا اور کالجیم نظام بنایا۔ججوں کی تقرری کا یہ نظام شفاف اور جوابدہ بھی نہیں ہے۔اس لیے اسے ختم کرتے ہوئے عدالتوں میں تقرری کا اختیار حکومت کو ہونا چاہیے۔
اعلیٰ عدالتوں میں موجودہ سماجی تنوع کو کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں کہاجاسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس کے بہانے عدالتوں میں حکومت اپنی مرضی کی تقرری کا اختیار حاصل کرلے، اگر ایسا ہوا تونہ صرف عدلیہ کی آزادی اور بالادستی ختم ہوجائے گی بلکہ ابھی ججوں کی تقرری میں جو سماجی تنوع نظرآرہا ہے، اس کا بھی اختتامی باب لکھ دیا جائے گا۔ صورتحال کو بہتر بنانے کا بس ایک طریقہ ہے کہ قانون کی سختی سے پیروی کرتے ہوئے کالجیم کو اپنی آزادی سلب کرنے سے خود کو بچانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS