اور کتنے امتحان سے گزرنا پڑے گا؟

0
اور کتنے امتحان سے گزرنا پڑے گا؟

صبیح احمد

دنیا بھر میں آزادی پر روز بروز بڑھتے قدغنوں کے باوجود لوگ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے اپنے عزائم پر قائم ہیں اور جمہوریت مسلسل اپنی قابل ذکر لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ کافی بڑی تعداد میں ممالک میں کامیابی کے ساتھ انتخابات ہو رہے ہیں، آزاد عدالتیں منتظمہ کے ذریعہ کیے جانے والے تجاوزات پر سخت نگرانی رکھ رہی ہیں،یہاں تک کہ انتہائی جابرانہ ماحول میں بھی صحافی سرکاری سرکشیوں کی بخیہ ادھیڑنے سے گریز نہیںکر تے اور سماجی و سیاسی کارکنان غیر جمہوری اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے سے قطعی نہیں ہچکچاتے۔ جمہوری انحطاط اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب جمہوریت کے لازمی اجزا کو خطرہ لاحق ہو تا ہے۔ ایسے حالات میں اظہار رائے کی آزادی، پریس اور افراد کا اجتماع رو بہ زوال ہوتا ہے، حکومت کو چیلنج دینے کی سیاسی اپوزیشن کی اہلیت ختم ہونے لگتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کمزور ہو جاتی ہے، عدلیہ کی آزادی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے، جمہوریت اس کے ذرے ذرے میں بسی ہوئی ہے۔ حالانکہ وقت کے تھپیڑوں سے متاثر ہو کر کبھی کبھار یہ متزلزل ضرور ہوئی ہے لیکن ہماری کشتی ہچکولے کھا کر پھر اپنی منزل کی جانب ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ اس درمیان باہر سے حملے بھی ہوئے، سامراجیت کا دور بھی دیکھنا پڑا، محکومی کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں لیکن تمام مد و جزر کے باوجود کشتی ہمیشہ کنارے لگتی رہی ہے۔ ابھی کچھ برسوں سے جمہوریت کی کشتی کو ایک بار پھر ڈگمگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں جمہوری اقدار پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ جمہوری اداروں کو مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ آخر ہمیں بار بار اس امتحان سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ کیا اس بار بھی ہم تمام آزمائشوں کا کامیابی کے ساتھ سامنا کر لیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی اور مستحکم جمہوریت ہیں لیکن 70 کی دہائی میں ہمیں ایمرجنسی کا وہ دور بھی دیکھنا پڑا جس میں ہمارے بنیادی حقوق تک چھین لیے گئے۔ تعلیم کے شعبہ میں ہماری شرح خواندگی بلا شبہ پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے لیکن تعلیم کا جو اصل مقصد ہے وہ ابھی تک ہم سے دور ہے۔ صرف دستخط کر لینے سے شرح خواندگی میں اضافہ تو ہو سکتا ہے لیکن تعلیم کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو پاتا۔ ہم نے ’چندریان‘ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں نصب کر دیا اور ایک ساتھ 100 سے زائد سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں چھوڑ کر ایک ریکارڈ تو قائم کر لیا ہے لیکن ہم اب بھی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہتے ہیں جبکہ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔‘ ایمس اور اس جیسے دیگر اداروں نے صحت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں لیکن موجودہ عالمی وبا کووڈ19- نے ہمارے طبی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ آج بھی ہمیں پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ رفع حاجت کے لیے آج بھی ہم کھلے میدان کا استعمال کرتے ہیں۔ زراعت کے شعبہ میں ویسے تو ہم خود کفیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسانوں کی خود کشی کے واقعات اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ غربت اور بھکمری کی وبا سے اب بھی ہمیں نجات نہیں ہے۔ سماجیات ہمارے ملک میں سب سے غیر توجہ یافتہ شعبہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی و معاشرتی پسماندگی دور کرنے میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے اور اس کا راست اثر قومی یکجہتی اور اتحاد پر پڑ رہاہے۔
حالانکہ ہم نے ابھی تک جو بھی کامیابی حاصل کی ہے اس میں سماج کے ہر طبقہ و فرد کا اہم کردار رہا ہے لیکن اس کے باوجود احساس اجتماعیت کا جو جذبہ لوگوں میں ہونا چاہیے، اس کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔ آزادی کے بعد سے حکومتی سطح پر برداشت، رواداری، سیکولرزم اور قومی اتحاد و سالمیت کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رہیں۔ ملک کے آئین میں تمام لوگوں کو بلا تفریق مذہب، ذات، نسل اور جائے پیدائش یکساں مواقع فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بہت ’غور وفکر‘ کے بعد ہندی کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک سماج میں ایک خلا برقرار ہے اور اتحاد کا جذبہ تیزی سے مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ مادر وطن پر مر مٹنے کے جذبہ کے بجائے مذہب اور زبان سے وابستگی کو فوقیت حاصل ہے۔ ابھی قومی اتحاد کو سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت، علاقائیت اور لسانی اختلافات سے لاحق ہے۔ عدم برداشت اور ذاتی مفاد پرستی جیسے ایشوز نے سماج کو تقسیم کی راہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ بد قسمتی سے آج حکومتی سطح پر آپسی بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں کوششیں کیے جانے کے بجائے ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں اور ایسے فیصلے لیے جارہے ہیں کہ لوگوں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حب الوطنی ہر گز تھوپی نہیں جا سکتی۔ یہ ایک داخلی کیفیت اور احساس ہے جو انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ چیز کسی فارمولہ یا قانون سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ، رواداری اور خیر سگالی کا خوشگوار ماحول، جس میں ہر آدمی کو یہ احساس ہو کہ یہ ملک اسی طرح اس کا بھی ہے جس طرح کہ دوسروں کا۔ تبھی قومی اتحاد ممکن ہو سکے گا۔ اس مقصد کو پانے کے لیے ملک کے ہر شہری کو سب سے پہلے خود کی شناخت ایک ہندوستانی کے طور پر کرنی ہوگی، بنگالی پنجابی، ساؤتھ انڈین یا نارتھ انڈین کے طورپر نہیں۔ آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ شناخت ملک کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاست، زبان، مذہب، ذات اور کلچر کی بنیاد پر ہونے لگی ہے۔ بحیثیت ہندوستانی ہماری مشترکہ شناخت ہونی چاہیے اور اپنی اس شناخت پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔آج فرقہ پرستی سب سے بڑا چیلنج ہے جو ہمارے سماج میں دراڑ پیدا کر رہا ہے، اس لیے قومی اتحاد و سالمیت کے فروغ کے لیے ہمیں فرقہ پرستی کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ زبان ما فی الضمیر کی ادائیگی اور ترسیل کا صرف ایک ذریعہ ہے ، یہ کسی کی شناخت کا وسیلہ نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذہب اور زبان کا ہر حال میں احترام کرنا ہوگا۔ ہمارے آئین میں کئی زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ہم بحیثیت فرد صرف ایک ہی زبان کو تسلیم کرتے ہیں جسے ہم بولتے ہیںجبکہ دیگر تمام کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم ان تمام زبانوں کا احترام کریں جو ملک میں بولی جاتی ہیں۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہندوستان مختلف مذاہب، زبان، پوشاک، خوراک وغیرہ والا ایک کثیر جہتی ملک ہے، اس لیے ملک میں قومی اتحاد کے فروغ کے لیے اس تکثیریت کا احترام بے حد ضروری ہے۔ان تمام چیزوں کا دار و مدار لوگوں کی ذہنیت پر ہے۔ ہم لوگ اسی طرح سوچتے اور کام کرتے ہیں جس طرح ہمارا سماج ہم سے سوچنے اور کام کرنے کی توقع کرتا ہے۔ تمام سماجی توہمات کی چھان بین اور انہیں ختم کرنے ضرورت ہے تاکہ ہم صحیح راستے پر چل سکیں۔ لوگوںکی ذہنیت کو بدلنے میں تعلیم اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS