مغربی بنگال اسمبلی انتخاب کیلئے ریاست میں حکمراں ترنمول کانگریس نے اپنے 291امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ دارجلنگ کی تین سیٹیں اپنے حلیف بمل گورنگ کی پارٹی کیلئے خالی چھوڑی ہیں۔ جمعہ کی دوپہر کو ترنمول سپریمو ممتابنرجی نے امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اسمبلی انتخاب 2021 میں واحد ایشو بھارتیہ جنتاپارٹی کو بنگال کے اقتدار سے دور رکھنا ہے۔ اگر یہاں بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وہ بنگال کی تباہی ہوگی جب کہ ترنمول کی واپسی بنگال میں صبح نو کا آغاز ہوگی۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیر ونی اور اندرونی کا بھی راگ الاپا اور کہا کہ مغربی بنگال پروہ کسی حال میں بیرونی حکمرانی قبول نہیں کریں گی۔ یہاں حکمرانی کا حق صرف یہیں کے لوگوں کا ہے۔اس اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اپنے سابقہ چیلنج کے مطابق ترنمول چھوڑ کر جانے والے شوبھندو ادھیکاری کے حلقہ نندی گرام سے انتخاب لڑیں گی اور ا نہیں ہرائیں گی۔ موجودہ حلقہ انتخاب بھوانی پور انہوں نے پارٹی کے معمر لیڈر شوبھن دیب چٹوپادھیائے کو دے دیا ہے۔وزیراعلیٰ اپنے موجودہ حلقہ انتخاب بھوانی پور سے 2011 سے کامیاب ہوتی آرہی ہیں لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں اس حلقہ میں ترنمول کانگریس کو سخت مقابلہ درپیش تھا اور اسے فقط 3ہزار ووٹوں کی سبقت حاصل ہوئی تھی۔ اس سخت مقابلہ کے پیش نظر ہی وزیراعلیٰ نے نندی گرام کو اپنے لیے محفوظ سیٹ سمجھ کر اس کا انتخاب کیا ہے کیوں کہ یہیں سے انہوں نے 2009میں اپنی تحریک شروع کی تھی۔
291 امیدوراوں کی فہرست میں 50 خواتین کو جگہ دی گئی ہے جن میں بی جے پی لیڈر شوبھن چٹرجی کی اہلیہ رتنا چٹرجی بھی شامل ہیں۔79سیٹو ںپر درج فہرست ذات اور 17سیٹوں پر درج فہرست قبائل کو نمائندگی دی گئی ہے جب کہ مسلم امیدواروں کی تعداد فقط 42 ہے۔ کئی سینئر لیڈروں ،وزرا اور موجودہ مسلم ارکان کو اس فہرست میں جگہ نہیں ملی ہے، اس کے برخلاف درجنوں نئے چہرے متعارف کرائے گئے ہیں۔ان چہروں میں فلمی دنیا ٹالی ووڈ کے جھلملاتے ستاروں کی کثرت ہے۔
291امیدواروں کی فہرست کا اگر غو ر سے جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پارٹی کے نزدیک نظریات اورسیاسی وفاداری کی حیثیت ثانوی رہ گئی ہے۔ وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح سے بھی اکثریت کا جادوئی ہندسہ اسے حاصل ہوجائے۔ ساری محنت اسی جادوئی ہندسہ کے حصول کیلئے ہے۔کارکنوں اور لیڈروں کی وابستگی، وفاداری، طویل عوامی خدمات اور بے داغ ریکارڈ بھی پس پشت ڈال کر ایسے جھلمل ستاروں کو میدان میں اتاراگیا ہے جنہیں سیاست اور عوامی خدمات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ ترنمول کانگریس نے یہی حربہ پارلیمانی انتخاب 2019 میں بھی آزمایا تھااور کئی فلمی ستاروں کو پارلیمنٹ پہنچادیا، یہ الگ بات ہے کہ اس کے نتیجہ میں بنگال کی 18پارلیمانی سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں چلی گئیں۔اس بار بھی ترنمول کانگریس نے سیاسی وفاداری کو نظرانداز کرتے ہوئے ٹالی ووڈ کے ان تمام ستاروں کو اسمبلی انتخاب میں امیدوار بنایا ہے جو ایک دو روزقبل ہی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ جمعرات کی شام کو ترنمول کانگریس کا جھنڈا تھامنے والی گلوکارہ ادیتی منشی کو جمعہ کی دوپہر جاری ہونے والی امیدواروں کی فہرست میں جگہ مل گئی ہے، اسی طرح ادارکارہ سیانتیکا گھوش، کنچن ملک، ہدایتکار راج چکرورتی اور کولکاتا کی فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری کے متعدد اداکارامیدوار بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف دو دو بار جیت درج کرنے والے درجنوں امیدواروں کو محروم کردیاگیا ہے۔ ٹکٹ سے محروم یہ امیدوار کھلے عام پارٹی کے اس فیصلہ پر تنقید کررہے ہیں۔
125سے زیادہ سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے مسلم ووٹروںا ور27فیصد سے زیادہ مسلم آبادی کے تناسب میں فقط 42 مسلم امیدوار دیے جانے پر بھی سوال کھڑے کیے جارہے ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ترنمول کے مسلم امیدواروں کی تعداد53تھی۔ جنوبی24پرگنہ ضلع کے ہیوی ویٹ لیڈر اعراب الاسلام اور بیربھوم کے نل ہاٹی سے معین الدین شمس نے تو اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف پارٹی چھوڑدینے کا اعلان کیا ہے بلکہ ترنمول کانگریس کو بھارتیہ جنتاپارٹی کی بی ٹیم بتاتے ہوئے معین الدین شمس تو یہ تک کہہ گئے ہیں کہ اب ترنمول کانگریس کو ٹوپی پہننے والا امیدوار پسند نہیں ہے، انہیں پارٹی لیڈروں کی جانب سے کئی بار کہاگیا تھا کہ وہ ٹوپی پہننا چھوڑ دیں لیکن انہوں نے ایسانہیں کیا جس کی پاداش میں انہیں ٹکٹ سے محروم کردیاگیا ہے۔ڈاکٹر نورالزماں، رفیق الرحمن، جیسے سینئر لیڈربھی امیدواروں کی فہرست میں جگہ نہیں پاسکے ہیں۔اس کی وجہ جو بھی رہی ہے ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بار ترنمول کانگریس نے مسلم امیدواری میں کمی کرکے اپنے اوپرلگنے والے نام نہاد مسلم خوشنودی کا داغ دھونے کی کوشش کی ہے۔
[email protected]
مسلم خوشنودی کا ’ داغ‘ دھونے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS