‘اے ایم یو کی دردناک داستان:طلبا پرپولیس کی کارروائی انتہائی ظالمانہ جبکہ اسٹن گرینیڈ کا استعمال صرف جنگ کے حالات میں کیا جاتا ہے:ہرش مندر

0

علی گڑھ(ایجنسیاں) ملک کے اندر اورباہر سیکڑوں یونیورسٹیوں اورکالجوں میں طلباءکے مظاہرے ہوئے لیکن کہیں بھی پولیس کو باقاعدہ کیمپس میں آنے اورطلبا کے خلاف ظالمانہ کارروائی یا خطرناک ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے کہیں بھی ناخوشگوار واقعات رونمانہیں ہوئے لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اپنے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق حاصل نہےں کیا ۔ پولیس کو کیمپس میں بلاکر کارروائی کی کھلی چھوٹ دے کر ان ہی واقعات کو دہرانے کا موقع دے دیا جو جامعہ کے طلباکے ساتھ پیش آئے ۔مسلم یونیورسٹی کے طلبا پر پولیس کی بربریت کا سب سے افسوس ناک پہلو انتظامیہ کی طرف سے اپنے غلط اقدامات اورپولیس کی ظالمانہ کارروائی کو صحیح ٹھہرانا ہے جو ایک اعلیٰ تعلیم کے ادارے کی تعلیم یافتہ انتظامیہ کو زیب نہیں دیتا چنانچہ یونیورسٹی کے تعلق سے جتنی بھی رپورٹیں آئیں ان میں یہی پہلو غالب رہا ۔
معروف سماجی کارکن ہرش مندر اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان کی یہ رپورٹ بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔
وہ کہتے ہےں کہ ایک نوجوان ریسرچ اسکالر علی گڑھ کے اسپتال کے بیڈ پر سکون سے لیٹا ہوا تھا۔ میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکا، کیونکہ دو دن قبل ہی پولیس کے ایک مہلک میزائل حملہ کی وجہ سے ا س کا بازو اڑ گیاتھا۔ ڈاکٹر نے زندگی بچانے کےلئے اس کا ہاتھ کاٹ دیاتھا۔ اس وقت اس کےلئے سب سے پریشانی کی بات یہی تھی کہ وہ اپنی ماں کو اس کے بارے میں کیسے بتائے گا؟ اور وہ اسے برداشت کرسکیں گی۔کچھ ہی دیر قبل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک قانون کے طالب علم سے ملا جو صرف 19سال کا تھا اور جس کا ہاتھ کٹاہواتھا۔وہ ایک ڈے اسکالر (لوکل طالب علم )ہے اور 15دسمبر کی شب یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کی کارروائی کے بعد لائبریری سے اپنے گھر کی طرف بھاگ رہاتھا۔ بدقسمتی سے وہ ان طلبا میں شامل ہوگیا جن کو پولیس نے گرفتار کیاتھا، اسے ڈنڈوں سے ماراگیا اور اس کاہاتھ توڑدیاگیا۔ ٹرک میں پولیس کے اہلکار اسے فرقہ وارانہ طعنے دے رہے تھے اور اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو اور موڑدیا۔ پولیس اسٹیشن لے جاکر اسے ننگا کیاگیا اور چمڑے کے بیلٹ سے مارا گیا۔ اس نے ہمیں جسم پر چوٹ کے نشانات دکھائے۔ ان سب کے باوجود وہ پولیس کے خلاف شکایت درج نہیہں کرانا چاہتا تھا۔ بہت سے طلبا نے ہمیں بتایا کہ انہیں یونیورسٹی انتظامیہ نے وارننگ دی ہے کہ اگر کسی نے شکایت درج کرائی تو اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا اور ڈراو¿نا نےشنل سیکورٹی ایکٹ کے تحت مجرمانہ الزام لگا کر کیس درج کرلیا جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے زخمی طلبا اس خوف سے عوامی اسپتال نہیں گئے کہ ان کا نام پبلک ریکارڈ میں آجائے گا۔میں اس خیر سگالی ٹیم کا حصہ تھا جس نے پولیس کی کارروائی کے ایک دن بعد ہی 17دسمبر کو علی گڑھ کا دورہ کیا تھا۔ میرے ساتھ جان دیال، نندی سندر، نتاشا بدھور، ویمل اور بہت سے کاروان محبت کے ساتھی تھے۔ تقریباً100اساتذہ، بہت سے طلبا جن میں وہ بھی شامل تھے جو اب بھی اسپتال میں ہیں اور چند ڈاکٹروں سے ہم ملے، ہم نے رجسٹرار اور پراکٹر سے بھی ملاقات کی۔جو کہانی سامنے آئی وہ یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی کارروائی بلاوجہ تھی۔ کوئی تشدد برپا نہیں ہوا تھا جس کی وجہ سے ایسی کارروائی کی ضرورت پڑی جو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بھی زیادہ بربریت پر مبنی تھی اور حالیہ عرصے میں کسی بھی یونیورسٹی میں کارروائی سے زیادہ خطرناک تھی۔ اس میں یونیورسٹی انتظایہ کی غلطی بھی تھی،جس نے غیر ذمہ دارانہ طریقے سے اپنے طلبا کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جس کے بعد پولیس نے طلبا کا ہر جگہ پیچھا کیا، ان کو خوفزدہ کیا، آنسو گیس کے گولے چھوڑے، گرینیڈ سے حملہ کیا اور ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ گولی بھی چلائی۔ جب ڈاکٹر دس ایمبولنس کے ساتھ زخمی طلبا کی مدد کے لئے پہنچے تو پولیس نے انہیں لے جانے سے روکا اور ایک ایمبولنس ڈرائیور کی ہڈی بھی توڑ دی۔ کل ملاکر پولیس کی کارروائی انتہائی ظالمانہ تھی۔ 
علی گڑھ یونیورسٹی میں پولیس کیسے داخل ہوئی؟ اس بابت وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی پولیس بلائی تھی لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ریپڈ ایکشن فورس کے جوانوں نے یونیورسٹی کا گیٹ کیوں توڑا؟ ہوسکتا ہے کہ اس کی اجازت پہلے سے ہی ملی ہو۔ بہرحال جب ہم علی گڑھ گئے تو وہ وہاں نہیں تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اترپردیش کیڈر کے ایک افسر کو یونیورسٹی کا رجسٹرار بنایا گیا ہے۔ اس نے پولیس کی کارروائی کو صحیح بتایا اور اسٹن گرینیڈ کے استعمال کو معمول کی کارروائی بتایا۔ صحیح تعداد بتانا مشکل ہے لیکن اساتذہ اور ڈاکٹروں سے جو جانکاری ملی اس کے مطابق تقریباً 100طلبا کو پولیس نے اٹھایا اور دیگر 100زخمی ہیں۔پولیس کی کارروائی کے بعد یونیورسٹی نے فوراً ہی تعطیل کا اعلان کردیا۔ ہم پولیس کی کارروائی کے دودن بعد ہی پہنچے تھے لیکن اس وقت تک 21ہزار طلبا بزور قوت ہاسٹل سے نکالے جاچکے تھے۔ ان میں کشمیر اور شمال مشرق کے طلبا بھی شامل تھے جو اپنے گھروں کوجانے سے ڈر رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پولیس فرقہ وارانہ نفرت کے ساتھ یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور طلبا کوبری طرح مارا پیٹا جس کے لیے اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی حمایت حاصل تھی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS