! تشدد احتجاج کو بے سمت بنا دے گا

0

ڈاکٹرجسیم محمد:گروپ ایڈیٹر، روزنامہ راشٹریہ سہاراورعالمی سہارا
کامیاب جمہوری نظام کا مطلب ہوتا ہے ایک ساتھ مختلف سوچوں، مختلف مذاہب، مختلف ذاتوں اور مختلف زبانوں کے لوگوں کا پرامن طریقے سے رہنا۔ جمہوریت میں اسی لئے سب کو اپنی بات کہنے اور پرامن احتجاج کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ جےسے احتجاجوں اور مظاہروں کا پرتشدد ہو جانا صحیح نہیں ہے ،اسی طرح لوگوں کی آوازیں دبانے کے لئے طاقت کا استعمال بھی غلط ہے لیکن کئی بار عاقبت نااندیش لوگوں کی وجہ سے حالات بگڑ جاتے ہیں۔ پارلےمنٹ میں پیش کیے جانے سے پہلے سے لوگ شہریت ترمیمی بل پر اعتراض کر رہے تھے۔ یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ ہے بل پیش کرنا ہی تھا تو پھر آسام میں این آر سی کی ضرورت کےا تھی۔ مسلمانوں کو اس بل میں شامل نہ کیے جانے پر بھی انہیں تشویش تھی لیکن کئی پارٹیاں جو سےکولرزم، گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارے کی باتیں کرتی ہےں، موقع ملتے ہی اپنا اصلی چہرہ دکھا دیتی ہے۔ ان پارٹیوں کو اس سوال کا جواب دینا چاہے کہ آخر کیوں انہوں نے شہریت ترمیمی بل کی حمایت کی، جبکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی حمایت کے بغیر یہ بل پاس نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے بھی ےہ بل لانے میں جلدبازی کی۔ اس کا یہ  فیصلہ ویسا ہی تھا جیسے اس نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے معاملے میں فیصلہ لیا۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی شروعات شمال مشرق سے ہوئی۔ وہاں کے لوگوں کا واضح موقف تھا کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہیں، کیونکہ وہ کسی بھی غیرملکی کو اپنے علاقے میں بسانے کے لیے تیار نہیں ہیں، چاہے وہ ان کا ہم مذہب ہو یا کسی اور مذہب کا ہو۔ جو لوگ وہ سوال کر رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مسلمان کیوں احتجاج کر رہے ہیں، انہیں پہلے ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے کہ مسلمان شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہی احتجاج کرنے کے لیے کیوں سڑکوں پر اترے؟ لنچنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مسلمان گھروں سے باہر نہیں نکلے، طلاق ثلاثہ پر قانون بنانے کے بہانے شریعت میں مداخلت کی کوشش کی گئی، مسلمان مظاہرے کے لیے سڑکوں پر نہیں اترے، بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکےت معاملے میں عدالت عظمیٰ نے فےصلہ رام جنم بھومی کے حق میں سنایا لےکن مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کےا مگر شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف وہ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگ، بالخصوص نوجوان مظاہرہ کر رہے ہیں، کیونکہ اپنا ملک انہےں جان سے پیارا ہے لےکن ملک آئےن سے چلتا ہے اور آئےن کی روح انصاف ہے۔ لوگ اپنے آئےن کی روح کو بچانے کے لےے احتجاج کر رہے ہےں۔ انہےں ےہ پسند نہےں کہ ہندوستان کا آئےن امتیاز پر مبنی ہو، دنیا ہندوستان اور اس کے آئےن کا مذاق اڑائے۔ اس سوال کا جواب حکومت کو دینا چاہےے کہ افغانیوں، بنگلہ دیشیوں اور پاکستانیوں کو ہندوستان کی شہریت دےنے کے لےے دستاویزکی ضرورت نہےں ہے تو پھر ہندوستان کے لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لےے دستاوےز کی ضرورت کےوں ہے؟ پورے ملک میں ہنگامے ہو رہے ہےں، حکومت این آر سی پر لوگوں کے سوالوں کے اطمےنان بخش جواب نہیں دے پا رہی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہےں کہ آسام میں این آر سی سے باہر ہونے والے ہندووں، سکھوں، جینیوں، عیسائیوں، بدھسٹوں اور پارسیوں کی طرح کیا مسلمانوں کو بھی ہندوستان کی شہریت دی جائے گی؟ لوگوں کو کنفیوژن ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت پوچھتی ہے کہ کتنے ’گھس پیٹھئے‘ہیں تو حکومت اسے داخلی معاملہ بتاتی ہے اور ’گھس پےٹھیوں‘کو بھگانے کے لیے این آر سی شروع کرنا چاہتی ہے۔
انتظامیہ کو یہ معلوم تھا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شمال مشرق میں مظاہرے ہو رہے ہےں۔ اس کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو پولیس ان سے سختی سے پیش آئی، لائبریری اور گرلس ہوسٹل میں وہ گھسی۔ پولیس یہ کیسے بھول گئی کہ یہ طلبا ہندوستان کا مستقبل ہے۔ پولیس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تب بھی یہی طلبا اس کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ پولیس کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہر مسئلے کا حل لاٹھی سے ممکن نہں۔ اسی کے ساتھ مظاہرین کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پرتشدد واقعات ان کے مظاہروں کی سمت بگاڑ دیں گے، وہ اپنے مقصد کے حصول کے لےے اگر واقعی سنجےدہ ہےں تو خود تشدد سے گریز کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی ان کی صف میں گھس کر پرتشدد کارروائی انجام نہ دےنے پائے۔ پرامن مظاہروں کو پرتشدد مظاہرہ بنانے والوں پر وہ گہری نظر رکھیں۔ مذہبی نعروں سے گریز کریں،کیونکہ وہ آئین کے تحفظ کے لئے سڑکوں پر اترے ہیں، مذہب کے تحفظ کے لئے نہیں! 
ہم سے رابطہ کے لیے : [email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS