ہماری جمہوریت کی حقیقی روح کو سمیٹنے کا ’امرت مہوتسو‘

0

صبیح احمد

’ہم بھارت کے لوگ‘پورے جوش و خروش کے ساتھ 76 ویں یوم آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ پورا ملک حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ ہر طرف قومی پرچم ترنگا لہرا رہا ہے اور قومی نغمہ کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ہر ہندوستانی کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور سر فخر سے اونچا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ بڑی قربانیاں دے کر حاصل ہونے والی آزادی کو ہم نے اب تک سنبھال کر جو رکھا ہے۔ ان 75 برسوں میں ہم نے صرف اپنی آزادی کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ تمام شعبوں میں قابل فخر ترقی بھی کی ہے۔
اس یادگار موقع پر ہم بڑی دھوم دھام سے آزادی کا امرت مہوتسو بھی منا رہے ہیں جس کا مقصد ترقی پسند ہندوستان کے 75 سال اور اس کے لوگوں کی شاندار تاریخ، ثقافت اور کامیابیوں کا جشن منانا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو ہندوستان کی سماجی و ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی شناخت کے بارے میں ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو کا سرکاری سفر 12 مارچ 2021 کو شروع ہوا ہے اور یہ 15 اگست 2023 کو اختتام پذیر ہوگا۔ یہ پروگرام ملک کے نوجوانوں کو آگے آنے اور ہماری جمہوریت کی حقیقی روح کو سمیٹنے اور ہندوستان کی آزادی کے 75 سال پورے جوش و خروش کے ساتھ منانے کی ترغیب دینے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔
دراصل یوم آزادی منانے کا ہمارا بنیادی مقصد ہی ہماری نوجوان نسل کو ہمارے عظیم مجاہدین آزادی کی قابل فخر جرأت اور بہادری کے بارے میں آگاہ کرنا ہے جنہوں نے ہمارے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنے ثقافتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اورسچے ہندوستانیوں کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی بیداری انتہائی ضروری ہے کیونکہ قوم کا مستقبل انہی پر منحصر ہے۔ یہ دن ملک کے تنوع میں ہمارے یقین اور یکجہتی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان تمام مذاہب کے لوگوں کی سرزمین ہے جو ایک متنوع معاشرے میں ایک شاندار ثقافت اور ورثے کے ساتھ ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہ ہمیں ملک کے وقار اور خودمختاری پر کسی بھی حملے کے خلاف اپنی مادر وطن کا دفاع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی اجتماعیت کے سبب ہی ہمیں دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ہم نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، زراعت، اقتصادیات اور فن و ثقافت یعنی تمام شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ اور یہ سب بحیثیت قوم ہماری اجتماعی کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ ہے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے یہ سب بلاتفریق کندھے سے کندھا ملا کرمشترکہ طور پر قومی جذبہ کے تحت حاصل کیا ہے۔
بہرحال یہ بیرونی طاقتوں سے ملک کی آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے نئی نسل کو آگاہ کرنے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے غور کرنے کا موقع ہے۔ خصوصاًتاریخی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کے دوران سیاسی موضوعات کے تذکرہ کو کسی بھی صورت میں درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں ’جے انوسندھان‘ کا نعرہ اور ’پنچ پرن‘ کا جو منتر دیا ہے انہیں مستقبل کا لائحہ عمل قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن اقربا پروری اور بدعنوانی خالصتاً سیاسی موضوعات ہیں۔ ایسے موقع پر ان موضوعات سے جتنا پرہیز کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ سب تو انتخابی پلیٹ فارم کے ایشوز ہیں۔ یوم آزادی پر لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کو ہرگز سیاسی شکل نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ موقع جہاں ایک طرف اپنی حصولیابیوں پر فخر کرنے کا ہے، وہیں اپنا محاسبہ کرنے کا بھی یہ ایک بہترین موقع ہے۔ بد قسمتی سے آج کل آپسی بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں کو شش کرنے کے بجائے ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں اور ایسے فیصلے لیے جاتے ہیں کہ لوگوں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حب الوطنی ہر گز تھوپی نہیں جا سکتی۔ یہ ایک داخلی کیفیت اور احساس ہے جو انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ چیز کسی فارمولہ یا قانون سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ساز گار ماحول اور حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تحفظ، رواداری اور خیر سگالی کا خوشگوار ماحول، جس میں ہر آدمی کو یہ احساس ہو کہ یہ ملک اسی طرح اس کا بھی ہے جس طرح دوسروں کاہے۔ تبھی قومی اتحاد ممکن ہوسکے گا۔ اس مقصد کو پانے کے لیے ملک کے ہر شہری کو سب سے پہلے خود کی شناخت ایک ہندوستانی کے طور پر کرنی ہوگی، بنگالی، پنجابی، ساؤتھ انڈین یا نارتھ انڈین کے طورپر نہیں۔ آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ شناخت ملک کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاست، زبان، مذہب، ذات اور کلچر کی بنیاد پر ہونے لگی ہے۔ بحیثیت ہندوستانی ہماری مشترکہ شناخت ہونی چاہیے اور اپنی اس شناخت پر ہمیں فخر بھی ہونا چاہیے۔
ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں۔ 1947 میں آزادی ملنے کے بعد ہندوستان نے بتدریج ترقی کے مراحل طے کیے اور اس وقت اس کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ترقی کے منازل طے کرنے کے اس نازک مرحلہ پر اب یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ کیا تقریباً 1.4 بلین افراد کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پسپائی اختیارکررہی ہے اوراس کی جمہوری بنیادیں کمزور پڑرہی ہیں؟ 15 اگست 1947 کو پنڈت جواہرلعل نہرو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اس کے بعد سے ملک میں جمہوریت پروان چڑھتی رہی۔ 1975 میں ایک تھوڑا سا وقفہ آیا جب کانگریس پارٹی نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کیا مگر جلد ہی جمہوریت کی طرف واپسی ہوگئی۔ ہندوستان اپنے جمہوری عقائد کے ساتھ سختی کے ساتھ منسلک رہا۔ متواتر ہونے والے آزادانہ انتخابات، ایک آزاد عدلیہ جس نے انتظامیہ کا مقابلہ کیا، ایک فروغ پذیرمیڈیا، مضبوط اپوزیشن اوراقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل جاری رہا، لیکن اب ایسا لگنے َلگا ہے کہ ملک اپنی جمہوری ڈگر سے بتدریج ہٹ رہا ہے۔ حکومت پر جمہوری آزادیوں کو مجروح کرنے کے لیے بے لگام سیاسی طاقت کے استعمال کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ سویڈن میں صحت مند جمہوریتوں کی درجہ بندی کے تحقیقی مرکز وی ڈیم انسٹیٹیوٹ جیسے عالمی اداروںتک کو ’ایسا لگتا ہے کہ زوال کئی بنیادی اہم جمہوری اقدار میں آیا ہے، جیسا کہ آزادیٔ اظہار اورمعلومات کے متبادل ذرائع اور اجتماع کی آزادی وغیرہ۔‘ امریکہ میں قائم غیر منافع بخش ادارہ فریڈم ہاؤس نے اس سال کے شروع میں ہندوستان کو مکمل آزاد جمہوریت کے درجے سے گھٹا کر ’جزوی طور پر آزاد جمہوریت‘ کی فہرست میں شامل کر دیا۔ وی ڈیم انسٹیٹیوٹ نے ہندوستان کو روسی طرز کی ’انتخابی مطلق العنانی‘ کے درجے میں رکھا اور اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس نے ہندوستان کو ’ناقص جمہوریت‘ قرار دیا۔
حالانکہ ہندوستان نے ان درجہ بندیوں کو ’غلط‘، ’مسخ شدہ‘ اور ’اندرونی معاملات‘ میں مداخلت قرار دیا ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان جمہوریت کی پرزور حمایت کرتا رہا ہے۔ امریکہ میں منعقدہ افتتاحی سمٹ برائے جمہوریت کے دوران خود وزیراعظم مودی نے زور دے کر کہا تھا کہ ’جمہوری اقدارہندوستان کی ’’مہذب اخلاقی اقدار‘‘ کا لازمی جزہے۔‘یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن صرف دعوے سے کچھ نہیں ہوتا، عملاً اسے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ آج تک ہندوستان یہ ثابت کرتا آیا ہے اور مکمل اعتماد ہے کہ آگے بھی ایسا کرتا رہے گا، خود کو کبھی ناکام ثابت نہیں ہونے دے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS