اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد!

0

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد یا تیسرامحاذ بنانے کی کوششوں کے دوران کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایک اہم بات کہی ہے ۔ ان کاکہنا ہے کہ ترنمول کانگریس ، سماجوادی پارٹی یا دیگر پارٹیوں کے لوگ ملتے رہیں گے ، تیسرامحاذ ، چوتھا محاذ بنتارہے گا ، لیکن اپوزیشن اتحادکی مضبوطی کیلئے کانگریس کاہونا ضروری ہے ۔ اگراپوزیشن کا کوئی محاذ بنتاہے تو اس میں کانگریس کا رول اہم ہوگا ۔کانگریس کے بغیرکوئی بھی محاذ ناممکن ہے ۔فی الحال ہماری ترجیح کرناٹک اسمبلی انتخابات اوراس کے بعد تلنگانہ ،مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ،راجستھان اورمیزورم اسمبلی انتخابات ہیں ۔ امسال ہم پوری طرح ریاستی اسمبلی انتخابات میں مصروف رہیں گے ۔2024کے پارلیمانی انتخابات کو بعد میں دیکھیں گے ۔ یہ تو کانگریس کی بات ہے ، ادھر مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتابنرجی سے ملاقات کے ایک دن بعد سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادونے کہا ہے کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے خلاف لڑائی میں علاقائی پارٹیوں کااہم رول ہوگا۔رہی بات مجوزہ اپوزیشن اتحاد میں کانگریس کے رول کی تومسٹر یادو کا کہنا ہے کہ کانگریس ایک قومی پارٹی ہے اورہم علاقائی پارٹی ۔اپنے رول کے بارے میں کانگریس کو ہی طے کرنا ہے ۔متعدد ریاستوں میں اس کاوجود نہیں ہے اوربی جے پی کے خلاف علاقائی پارٹیاں لڑرہی ہیں ۔2017 کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں ہم نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تو شکست ہوئی ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہم نے بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تو اتحاد سے کانگریس کو باہر رکھا ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات ہم اپنی موجودہ اتحادی پارٹیوں کے ساتھ ہی مل کرلڑیں گے ۔جب سماجوادی پارٹی کے سربراہ سے پارلیمانی انتخابات میں چہرے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
2024کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر اپوزیشن اتحاد کی کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں ۔ پہلے مغربی بنگال کی وزیراعلی ممتابنرجی سرگرم ہوئیں اور ملاقاتوں کا دور چلا ، پھر تلنگانہ کے وزیراعلی کے چندرشیکھر رائومتحرک ہوئے اورسب سے آخر میں بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے اس کی آواز اٹھائی ۔اس دوران دہلی کے وزیراعلی اروندکجری وال نے مہاراشٹر کے سابق وزیراعلی ادھوٹھاکرے سے ملاقات کی ۔اس طرح وقفہ وقفہ سے اپوزیشن اتحاد کیلئے ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں اوربیانات بھی جاری کئے جاتے ہیں ، لیکن نہ تو اتحاد کا کوئی خاکہ بن سکا اورنہ یہ طے ہوسکا کہ اتحاد کس طرح کا ہوگا ،کہاں کہاں ہوگا ،قومی سطح پر ہوگا یا علاقائی سطح پر ۔ مجوزہ اپوزیشن اتحاد میں سب سے بڑا مسئلہ اگرکوئی ہے تو وہ کانگریس کی پوزیشن کو لے کر ۔ کانگریس اپنا موقف واضح نہیں کرتی اورعلاقائی پارٹیاں اس کی پوزیشن طے نہیں کرپارہی ہیں ۔ ایک اوربات ہے کہ جن علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد یا محاذ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ ان میں وہ پارٹیاں کانگریس کا سوال آتے ہی خاموشی اختیارکرلیتی ہیں ، جن کے ساتھ ان کا اتحاد نہیں ہے ، لیکن جن علاقائی پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کا اتحاد ہے ، جیسے راشٹریہ جنتادل ، ڈی ایم کے اورشیوسیناادھوگروپ اوراین سی پی ، یہ پارٹیاں کھل کرکہتی ہیں کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن اتحاد کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ،لیکن کانگریس کی پوزیشنکے بارے میں وہ بھی کچھ نہیں کہتیں ۔ ترنمول کانگریس مغربی بنگال اوربھارت راشٹرا سمیتی تلنگانہ میں کانگریس کے خلاف برسرپیکار ہیں ، بڑا سوال یہی ہے کہ مجوزہ اپوزیشن اتحاد میں وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کیلئے تیارکیسے ہوں گی؟
ایسی بات نہیں ہے کہ کسی ایک پارٹی کے خلاف قومی سطح پر اپوزیشن پارٹیاں کبھی متحد نہیں ہوئیں ۔ نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر وی پی سنگھ سرکارمیں کانگریس کے خلاف وہ متحد ہوئی تھیں ، کانگریس نے بی جے پی کو اقتدارسے باہر رکھنے کیلئے چندرشیکھر،ایچ ڈی دیوے گوڑا اوراندرکمارگجرال سرکار وں کی حمایت کی تھی ۔پھر کانگریس کے خلاف باجپئی سرکار میں تقریبا 2درجن پارٹیاں متحدہوگئی تھیں۔بعد میں کچھ بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کرکے یوپی اے میں شامل ہوئیں یا انہوں نے یوپی اے سرکار کی حمایت کی ۔مودی سرکار میںبھی کئی پارٹیاں این ڈی اے میں شامل ہوئیں اورکئی این ڈی اے سے الگ ہوئیں ۔ کامن کاز کیلئے سیاسی پارٹیاں ہر دور میں متحد ہوتی رہی ہیں ۔اس لئے مودی سرکار میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو خارج ازامکان نہیں کہہ سکتے، لیکن اس میں کانگریس کی پوزیشن ایک ایسی ٹیڑھی کھیر ہوگئی ہے۔ جہاں بات پہنچتے ہی خاموشی چھاجاتی ہے اورجب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ بات نہ آگے بڑھے گی اورنہ ہی اتحاد کا مقصد یا فائدہ حاصل ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS