شاہنواز احمد صدیقی
یوکرین جنگ کو بھول کر اس وقت پوری دنیا لہولہان غزہ میں انسانیت کے قتل عام کو روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصان کو روکنے کے لیے کئی سطحوں اور محاذوں پر کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ کوششیں کچھ مخلصانہ اور کچھ محض ڈرامہ بازی ہیں۔ایک طرف امریکہ اس کے حلیف، اسرائیل کی اندھی پیروی کررہے ہیں اورمذاکرات کو کھینچ کرقتل عام کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ تودوسری طرف عرب اورمسلم ممالک مختلف سطحوں پر اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سینٹرل ایشیا کے قزاخستان میں روس کے صدر ویلادیمیر پوتن، ترکے صدر طیب اردگان اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کا امکان ہے۔ یہ ملاقاتیں ایسے وقت میں ہورہی ہے جبکہ یوکرین جنگ اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت اس بلاک کا نقطہ نظر مغربی نقطہ نظر سے بالکل متضاد اور مختلف ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے صدر ایمنوئل میکروں مغرب کے دیگر ملکوں سے بالکل الگ انداز میں غزہ میں جنگ بندی کی وکالت کررہے ہیں۔پیرس میں ہونے والی اس کانفرنس میں غزہ بحران کے انسانی زاویہ پرتوجہ مرکوز کی گئی ہے۔
سعودی عرب اورایران کے درمیان نقطہ نظر اور حکمت عملی کے تضادات کے درمیان سعودی عرب میں عرب ممالک کی ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں غزہ پر 22ممالک کے ایک طاقتور بلاک نمائندوں کے علاوہ مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی نمائندہ کی شرکت ہورہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس انتہائی اہم کانفرنس میں ایران کے سربراہ مملکت کی شرکت متوقع ہے۔ عرب سربراہان مملکت کا یہ اجلاس ان معنی میں اہم ہے کہ اس سے عالم اسلام کے اتحاد اور کسی حد تک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے اور اختلافات کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔ دوروز قبل عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس ریاض میں ہواتھا، جہاں مذکورہ بالا ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں ایران کے وزیر خارجہ کی شرکت بڑی پیش قدمی کی طرف اشارہ ہے۔ 12نومبر یعنی کل کے سربراہ اجلاس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی شرکت کا قوی امکان ہے اور اس طرح عرب بلاک اور مسلم دنیاکی 57ممالک کی توجہ اور حکمت عملی پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہوگئی ہیں اور اجلاس اس لیے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ ایران سے قربت رکھنے والے ممالک اور تنظیمیں لبنان میں سرگرم حماس و یمن میں سرگرم حوثی مسلم گروپ لگاتار اسرائیل اور امریکہ اور اس کے دیگر حلیفوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ عراق اور شام کے اندر ایران سے قربت رکھنے والے گروپ بھی کافی حد تک سرگرم ہیں، جو مغربی طاقتوں کے ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔یہ صورت حال غزہ بحران کے پھیلنے اور شدید ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ دنیا میں اس خدشہ کا اظہار توکیا جارہاہے مگر مغربی ممالک مسلسل غزہ میں اسرائیلی بربریت پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ 11ہزار سے زائد معصوم شہریوں بڑے پیمانے پر اسپتالوں،عام شہریوں کی آبادیوں، شفاخانوں، مسجدوں،اسکولوں پرصیہونی اسرائیلی افواج کی وحشیانہ بمباری بلا روک ٹوک جاری ہے۔
روال سال کے مارچ میں سعودی عرب اورایران کے درمیان چین کی مصالحت سے تعلقات استوار ہوگئے تھے اور موجودہ بحران میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان کے درمیان براہ راست ٹیلی فون پر بات چیت سے اس حساس ترین ایشو پر مذاکرات کا ہونا بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے اور اب دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر تبادلہ خیال اور دورے اور لیڈرشپ کی ملاقاتیں بند دروازوں کو کھولنے والی ہیں۔ یاد رہے کہ کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرچکے ہیں اورامید کی جارہی تھی کہ اسرائیل خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بقائے باہمی کے نظریہ کے تحت رہناسیکھ جائے گا مگر ارض فلسطین ہی اس کی جارحیت اور بیت المقدس میں اس کی نمازیوں اور بوڑھوں، عورتوں کے ساتھ بربریت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ اس کی پالیسی مذاکرات نہ کرنے اور ہرمسئلہ کاحل طاقت کے زورپر کرنے کا قائل ہے۔عرب اور کئی مسلم ممالک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وابستگی کے حوالہ سے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا جس کو Abraham Accordکہا گیا مگر یہ صلہ رحمی یکطرفہ ہے اور 1993کو اوسلومعاہدے کو وہ یکسر فراموش کرچکا ہے جس میں دوریاستی سمجھوتے کا فارمولہ پردونوں فریقوں کے درمیان اتفاق ہوگیا تھا۔گزشتہ تین دہائیوں کے صیہونی ہتھکنڈے اور حیلے بہانے اس کا واضح پیغام ہے کہ وہ دوریاستی سمجھوتے کو لاگو کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اوروہ طاقت کے زور پر اپنی بربریت جاری رکھنا اور ارض مقدس پراپناغاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔اگر وہ بات چیت کرتا ہے تو اس کو 1967میں ہتھیائے گئے علاقوں کو خالی کرنا پڑے گااسی لیے وہ بات کو ٹالنے کو بہترسمجھتاہے۔
ہفتہ اتوار یعنی 11اور12نومبر کو ہونے والے اس اجلاس پر کئی حلقوں سے الگ الگ رائے سامنے آرہی ہے۔ اس سربراہ اجلاس کا واحد مقصد غزہ اور مسئلہ فلسطین کاحل تلاش کرنے کی کوشش ہے اور یہ فوکس بناتاہے کہ شاید اب عرب اور مسلم ممالک سمجھ چکے ہیں کہ بیان دینے اور قرارداد منظورکرنے سے غزہ میں معصوم جانوں کا اتلاف نہیں روکا جاسکتا ہے مگر ایسے حالات میں ان سربراہان کی حکمت عملی کیاہوگی یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کئی تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ اس اجلاس کی کامیابی کا دارومداد اس بات پر منحصر ہوگا کہ سربراہان مملکت کس طرح اپنے منصوبوں کو زمین پر اتارتے ہیں اوراس ہر عملی جامہ پہناتے ہیں۔n