پروفیسر اخترالواسع
اس ہفتے کے شروع میں دارالعلوم دیوبند میں مسجد رشید میں اربابِ مدارس کا ایک غیرمعمولی اجتماع ہوا جس میں تقریباً ہندوستان بھر سے ساڑھے چار ہزار اربابِ مدارس نے شرکت کی اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ اجتماع اس اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ ایسے وقت میں ہوا جب اترپردیش کی حکومت مدرسوں کا سروے کرا رہی تھی اور آسام کی حکومت مدرسوں کی عمارتوں کو یا تو منہدم کرکے یا بحق سرکار ضبط کرکے اسکولوں کی بنیادی تعلیمی پالیسی کو بھی منہدم کر رہی تھی۔
دارالعلوم دیوبند کے اس اجتماع میں ایک بات بالکل صاف کر دی گئی کہ خود کفیل مدارس سرکار سے کوئی امداد لینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور جس طرح ہندوستان کی امت مسلمہ ان کی مقدور بھر اعانت کرتی رہی ہے، مدارس اسی پر اکتفا کریں گے۔ ساتھ ہی مدارس کے نصاب میں بھی کسی تبدیلی سے واضح طور پر انکار کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ مدارس کے طلبا دسویں جماعت کی تعلیم حاصل کریں تاکہ اگر وہ چاہیں تو جدید تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر کھل سکیں۔
مدارس آج جس نصاب تعلیم پر اصرار کر رہے ہیں، وہ کوئی بری بات نہیںہے۔ مسلمانوں کو اپنی مذہبی زندگی میں رہنمائی کے لیے مفسر بھی چاہئیں اور محدث بھی، فقیہ بھی چاہئیں اور متکلم بھی، امام بھی چاہئیں اور قاضی بھی اور حافظ و مؤذن بھی۔ظاہر ہے کہ یہ سب مدرسوں ہی کی دین ہوں گے۔ پھر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1857 میں جب مغلیہ حکومت کا چراغ انگریزوں نے بجھا دیا تو اس وقت ہمارے بزرگوں نے یہی سوچا کہ اگر وہ ملک کو سامراجی استبداد سے نہیں بچاسکتے تو کم سے کم اپنی آنے والی نسلوں کے دین و ایمان کو تو بچانے کا سامان کر لیں۔ یہ وہ علماء تھے جو ایک طرف دین کی گہری سمجھ رکھتے تھے اور ساتھ ہی انگریزی استعماریت کے خلاف جنگ میں حصہ لے چکے تھے اور ان کے بزرگوں اور ہم عمروں میں نہ جانے کتنے علمائے دین انگریزوں کے قہر و غضب کا نشانہ بن کر لقمہ اجل بنا دیے گئے۔ انہیں کالے پانی کی سزا دی گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب 30 مئی 1866کو دیوبند کے قصبے میں چھتہ والی مسجد کے اندر انار کے درخت کے نیچے وہ سعی محمود روبہ عمل لائی گئی جس کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند وجود میں آیا۔ ایک استاد اور ایک طالب علم سے جس کوشش کا آغاز ہوا، اسی نے آگے چل کر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی شکل اختیار کی اور جس کے فارغین کی ایک بڑی اکثریت نے دین کی سربلندی، مسلمانوں کے مذہبی تشخص، انگریزوں کی مخالفت اور غریب مسلمانوں کے بچوں کو روٹی، کپڑا اور چھت کی فراہمی کے ساتھ تعلیم کے حصول کو ممکن بنایا۔
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نے جب دارالعلوم دیوبند کے چلانے کے لیے اصول ہشت گانہ تیار کیے اور نصابِ تعلیم کو وضع کیا تو اس میں ایک بات یہ رکھی کہ دارالعلوم سرکار و دربار سے کوئی معاونت قبول نہیں کرے گا اور عام مسلمانوں کے معمولی عطیات جو چاہے ایک مٹھی اناج پر ہی کیوں نہ مشتمل ہوں، وہ چاہے اکنّی اور دونّی والے حقیر چندے پر محمول ہوں، کو ہی قبول کرکے دارالعلوم کے ضروری اخراجات کی کفالت کی جائے گی۔ دارالعلوم دیوبند نے اپنے فاضلین کے لیے یہ پروگرام بھی بنایا کہ وہ یہاں سے فارغ ہوکر اپنے گاؤں، قصبے اور شہروں میں اسی طرز کے مکتب اور مدرسے قائم کریں۔ ان بوریا نشینوں نے غریبوں کے گھروں میں علم کا نور پھیلانے کے لیے اپنے گھروں اور خاندانوں میں نیم تاریکی کو بھی گوارا کیا۔ یہ ہمارے مدارس ہی تھے جن کے ذریعے اردو زبان کا تحفظ ممکن ہو سکا۔ اردو میں اگر آج قاری پائے جاتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں مدرسوں کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ چاہے انہوں نے بھلے ہی اردو کو اپنے نصاب کا حصہ نہ بنایا ہو لیکن اردو کو ذریعہ تعلیم بناکر اس کو باقی رکھا۔ سرکار نے 26جنوری 1950کو دستور کے نفاذ کے وقت قوم سے جو وعدہ کیا تھا کہ 6 سال سے 14 سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی، سرکار نے تو 2009 تک ایسا کچھ نہیں بھی کیا لیکن یہ ہمارے اکابرین ہی تھے جنہوں نے مکتب اور مدرسے قائم کرکے غریبوں کے گھروں تک علم کی شمع کو روشن کی۔15؍ اگست 1947 تک اربابِ مدارس نے انگریزوں کے خلاف بھی لڑائی لڑی اور فرقہ پرستی اور جداگانہ قومیت کے تصورات کے خلاف بھی جنگ کی۔لیکن یہ کیسا ستم ہے کہ آج ان ہی مدرسوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے اترپردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید کا کہ جنہوں نے انتہائی ہمت اور جرأت سے کام لیتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ اترپردیش میں واقع بڑے دینی مدارس جو خود مدرسوں کو الحاق دیتے یا تسلیم کرتے ہیں، کسی طرح بھی نہیں چھیڑا جائے گا۔
لیکن آسام میں ابھی برسراقتدار جماعت کی صفوں میں کوئی ڈاکٹر افتخار احمد جاوید پیدا نہیں ہوا ہے جو کہ وہاں کی سرکار کو یہ بتائے کہ میاں ہو یا مدرسہ، دونوں کی حب الوطنی پر کوئی شبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں ضروری سنوائی کرکے نوٹس جاری کر دیے ہیں تو سرکاروں کو اپنا موقف واضح کرنا پڑے گا اور اس شر کی کوکھ سے کسی خیر کے جنم لینے کا امکان نظر آتا ہے:
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی نے جو یہ کہا ہے کہ مدارس کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، اس سے ہمیں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن سوال موجودہ مروجہ نصاب میں تبدیلی کا نہیں بلکہ اضافے کا ہے۔ اگر دارالعلوم دیوبند انگریزی اور کمپیوٹر کو اپنے نصاب میں شامل کر سکتا ہے اور آج نہیں بلکہ اپنے قیام کے وقت اس نے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ہاتھوں علوم عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ علوم حرفہ کو بھی نصاب کا حصہ بنایا تھا تو کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے مدارس ایک ایسا نصاب وضع نہیں کرسکتے جس میں موجودہ نصاب میں کسی تبدیلی کے بغیر ایسے مضامین کا اضافہ کیا جائے جس سے کہ مدرسوں کا 1857 سے پہلے کا شمولیت پسند نظام تعلیم پھر سے بحال ہوسکے؟ ایک ایسا شمولیت پسند نظامِ تعلیم جس میں ایک ہی مدرسے سے امام رباّنی مجدد الف ثانی، تاج محل کا معمار احمد لاہوری اور مغل عہد کا بڑا مدبر اور وزیر سعد اللہ نکلتے ہیں اور اپنے اپنے میدانوں میں اختصاص کے لیے جانے جاتے ہیں۔
صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ بغداد کے جامعہ نظامیہ سے بھی اگر ایک طرف امام غزالی نکلتے ہیں تو دوسری طرف نظام الملک طوسی اور عمر خیام بھی وہیں سے فارغ ہوکر دنیا میں اپنے علم و فضل، سیاسی تدبر اور دانشمندی، علم ریاضی اور فارسی شاعری میں اپنی پہچان بناتے ہیں۔
ہمارے محترم و معظم مہتمم صاحب، دارالعلوم دیوبند کیا اس بات سے انکار کریں گے کہ جن لوگوں نے اس ملک کو قطب مینار کی بلندی، تاج محل کا حسن، لال قلعہ کی پختگی اور شاہجہانی مسجد کا تقدس عطا کیا تھا، وہ آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ اور کسی ایم آئی ٹی یا اسکول آف آرکیٹیکچر سے نکل کر نہیں آئے تھے کیوں کہ اس وقت تک ان اداروں کا وجود تو بڑی بات ہے، تصور بھی نہیں تھا بلکہ مدرسوں ہی سے نکل کر آئے تھے۔ اگر ہمارے مدارس کل ایسے لوگ پیدا کر سکتے تھے تو آج کیوں نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس آج امام اعظم ابوحنیفہؒ جیسے صاحب عظمت و عزیمت لوگ پیدا نہیں کر سکتے جن کی جتنی گہری نگاہ قرآن و سنت پر تھی اتنی ہی مضبوط پکڑ بازار پر بھی تھی؟ آج یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہمارے علماء اور اکابر کو دینا ہے اور مدارس کے مہتم بالشان ماضی کی بازیافت کرنی ہے۔کیا ایسا ہوگا؟ کیا ایسا ہونا چاہیے؟اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے اور اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو اس کے لیے ضروری اور حتی المقدور کوششیںکیجیے کیوں کہ امت مسلمہ آج بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ ہی اس کے مستقبل کے تعین میں اہم رول ادا کریں گے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]