ایڈووکیٹ شاہد اعظمی-ایک مثالی تحریک

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

ہمارے ملک میں حق و انصاف کی لڑائی لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے والے بہادر اور ایماندار وکیل شاہد اعظمی کی شہادت کو12سال ہوگئے۔11؍فروری 2010 کو ممبئی شہر میں واقع اپنے دفتر میں حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہ شہید ہوگئے تھے، ہرسال کی طرح اس سال بھی ملک کے ہر بڑے شہر میں ان کی قربانیوں و کاوشوں کو یاد کرتے ہوئے میموریل پروگرام رکھے گئے، سوشل میڈیا پر خراج عقیدت پیش کیا گیا، ایک عام گھرانے میں پیدا ہونے والے شاہد اعظمی کوآج ایک ایسی تحریک کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے حق و انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی جان قربان کردی، ضروری ہے کہ ان کی زندگی و خدمات پر روشنی ڈالی جائے تاکہ ہم ایڈووکیٹ شاہد اعظمی اور ان کی خدمات سے واقف ہوسکیں۔ آخر وہ کیا وجوہات اور اسباب تھے کہ دہشت گردی کے مقدمات کا دفاع کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور پھر ان کو جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑگیا۔
شاہد اعظمی کی پیدائش 1977میں دیونار ممبئی میں ہوئی۔6؍دسمبر 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، اس وقت ان فسادات کا شکار ممبئی کے دیگر علاقوں کے ساتھ دیونار بھی ہوا۔ شاہد اعظمی نے ان فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی شکارمسلم آبادیاں ہوتی ہیں اور فسادات کے بعد عمومی گرفتاریاں بھی مسلم نوجوانوں کی ہی ہوتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق1992-93میں محض15سال کی عمر میں ہی شاہد اعظمی کو فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تاہم نابالغ ہونے کی وجہ سے آزاد کردیے گئے۔ فسادات اور اس کے بعد کے واقعات سے رنجیدہ ہوکر وہ کشمیرمیں علیحدگی پسند مسلح تحریک سے جڑجاتے ہیں لیکن جلد ہی وہ واپس ممبئی آجاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ امن و انصاف کا قیام پرامن و دستوری تگ و دو میں ہی ممکن ہے۔ انگریزی اخبار ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کو ایک انٹرویو کے دوران شاہد اعظمی کہتے ہیں کہ ’’میں نے پولیس کو میری قوم کا قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا، میں ان بہیمانہ قتل و تشدد کا چشم دید گواہ رہا، جس کے رنج و تکلیف نے مجھے مزاحمتی تحریک کی طرف مائل کیا۔‘‘ شاہد اعظمی حقیقت پسندی کی وجہ سے کشمیر سے واپس آگئے اور تعلیم حاصل کرنے لگے۔
دسمبر1994میں خفیہ ایجنسی و پولیس کو شاہد اعظمی کے کشمیر سفر کا علم ہوا جس کے بعد ان کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے نیز شیوسینا لیڈر بال ٹھاکرے و دیگر لیڈران کے قتل کی سازش تیار کرنے کے الزام میں ٹاڈا قانون کی سخت دفعات کے تحت گرفتار کرکے تہاڑ جیل دہلی میں قید کردیا گیا تھا، عدالت نے پہلے مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ سال کی سزا سنائی تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کردیا۔7سال تہاڑ جیل میں گزارنے کے بعد شاہد اعظمی کو جیل سے رہا کردیا گیا۔
تعلیم کا سلسلہ اگرچہ تہاڑ جیل میں بھی جاری رہا تھا لیکن جیل سے نکلنے کے بعد قانون کی ڈگری ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ شاہداعظمی نے ایجنسیوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا تھا، جیل میں رہتے ہوئے قیدی ایک دوسرے کے مقدمات اور ان کے حقائق سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں، عدالت کے طریق کار سے بخوبی واقفیت حاصل ہوجاتی ہے، شاہد اعظمی میں خاص خوبی یہ رہی کہ ان حالات اور مسائل کے سامنے انہوں نے خود کو کمزور نہیں ہونے دیا، انہوں نے نظام انصاف کو دیکھا، سمجھا اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے ملک میں ظلم و ناانصافی کے خلاف اگر کہیں سے امید کی جاسکتی ہے تو وہ نظام عدلیہ ہے۔
2003 میں شاہد اعظمی نے باقاعدہ وکالت شروع کی، کریمنل مقدمات میں دفاعی وکیل کی حیثیت سے خاص کر دہشت گردی کے الزام میں قید مسلم نوجوانوں کے مقدمات لڑے۔ اہم مقدمات میں2002کا گھاٹکوپر بلاسٹ، 2006اورنگ آباد ہتھیار برآمدگی کیس،7/11ممبئی ٹرین بلاسٹ، مالیگاؤں 2006 بلاسٹ کیس،26/11ممبئی بلاسٹ میں فہیم انصاری کا دفاع کیا، ان مقدمات کی کامیاب پیروی کے دوران بار بار جان سے مارنے کی دھمکی ملتی رہی اور بالآخر وہ شہید کردیے گئے۔ جس وقت شاہد اعظمی شہید کیے گئے ان کی عمر محض 32سال تھی۔7سال کی وکالت کے مختصر سے عرصے میں17مسلم نوجوان ان کی محنت اور کاوشوں سے باعزت بری قرار دیے گئے۔
دہشت گردی کے مقدمات میں ملزمین کا دفاع کرنے والے وکیلوں پر پہلے بھی جان لیوا حملہ ہوتا رہا تھا، اورنگ آباد، مہاراشٹر میں وکیل اکبر پٹیل پر2004میں جان لیوا حملہ ہوا اور وہ شہید ہوگئے تھے۔ 9؍اپریل2009میں منگلور کرناٹک میں معروف وکیل نوشاد قاسم جی کا بہیمانہ قتل کیا جاتا ہے، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پولیس نے ہی قاسم جی کو شہید کیا تھا، اس دوران اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور کیرالہ میں کئی ایسے وکیلوں پر جان لیوا حملے وقتاً فوقتاً ہوتے رہے جو دہشت گردی کے ملزمین کا دفاع کررہے تھے۔ اترپردیش میں لکھنؤ، فیض آباد، غازی آباد جیسے کئی شہروں میں وکیلوں و بار ایسوسی ایشن نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسے الزامات کے ملزمین کا دفاع کوئی وکیل نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی وکیل کو دفاع کرنے دیا جائے گا، یہی وجہ رہی کہ مختلف عدالتوں میں وکیلوں کے ذریعے ملزمین اور ان کے دفاع کرنے والے وکیلوں پر بارہا حملہ کرنے، کپڑے پھاڑنے، فائلیں چھیننے کے حادثات پیش آتے رہے۔
شاہد اعظمی کا قتل کرلا ممبئی میں واقع ان کے دفتر میں ہوا، قتل کے بعد بھرت نیپالی گینگ کے دیویندر بابو جگتپ، پنٹو دیورام ڈاگلے،ونود یشونت وچارے اور ہسمکھ سولنکی کو ممبئی پولیس نے مخصوص قانون مکوکا کی دفعات کے تحت گرفتار کیا، عالمی پیمانے پر احتجاجات و دباؤ میں ممبئی پولیس نے ان بدمعاشوں کو گرفتار توکرلیا لیکن تفتیش میں ایمانداری نہیں برتی گئی مثلاً برآمد ہتھیاروں کی فورنسک جانچ نہیں کی گئی، جب کہ قتل کیس میں یہ جانچ بہت ہی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
قتل کا چشم دید گواہ شاہد اعظمی کا منشی اندر سنگھ تھا، جس کو کچھ مہینوں کے بعد ہی فون پر دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں، گواہ کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔ 20؍جنوری 2011 میں عدالت نے پہلے تو مکوکا کی دفعات کو ختم کردیا کیونکہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں ایسے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جس سے مکوکا کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا جاسکے، مکوکا ہٹنے کے بعد23؍جولائی2012کو ممبئی ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کے اہم ملزم ونود ویچارے کو ضمانت پر رہا کردیا۔ شاہد اعظمی کومقدمات کے دفاع سے روکنے کے لیے پہلے جان لیوا حملوں کی دھمکیاں دی گئیں اور پھر ان کو شہید بھی کردیا گیا، لیکن ان کی شہادت کے بعد دہشت گردی کے مقدمات کا ایک اہم پہلو موضوع بحث بن گیا، ایک سوال بہت عام ہوگیا کہ آخرکیا اسباب اور وجوہات ہیں کہ پولیس چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے ملزمین کا وکیل بھی پولیس کی پسند کاہو؟ کسی بھی مقدمے میں ملزم کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ اس کا دفاع اس کی پسند کا وکیل کرے، وکیلوں یا ان کی تنظیموں کو آخر کون اور کیوں ان دفاعی وکیلوں پر حملہ کرنے کے لیے مجبور کرتا رہا ہے۔ ہمارے آزاد جمہوری ملک کا دستور یہ کہتا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بھی ملزم کو مجرم نہیں بلکہ بے گناہ سمجھا جائے گا۔ کچھ دن قبل ہی احمدآباد گجرات کی ایک عدالت نے تقریباً15 سال کے بعد 28 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے با عزت بری قرار دیا ہے، آخر ہماری عدالتوں کو15سال کیوں لگ گئے یہ دیکھنے میں کہ ان افراد کے خلاف ثبوت سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
شاہداعظمی کی پوری زندگی ایک پیغام دیتی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف صرف عدالتوں سے ہی ممکن ہے، شاہد اعظمی نے یہ عملی طور پر تجربہ کیا کہ فرقہ وارانہ فسادات میں مسلم اقلیت کے جان و مال کو دنگائی پولیس کی مدد اور پولیس کے ساتھ مل کر لوٹتے اور جلاتے ہیں اور ان فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مسلم ہی گرفتار بھی کیے جاتے ہیں، شاہد اعظمی مزاحمتی تحریک کے قریب بھی گئے لیکن ان کو یہ بہت جلدسمجھ میں آگیا کہ یہ راستہ سدھار پیدا نہیں کرسکتا ہے اور جیل میں ناحق 7سال گزارنے کے بعد بھی وہ نظام انصاف سے ناامید نہیں ہوئے اور عدلیہ سے انصاف حاصل کرکے دکھایا، اپنے لیے بھی اور دوسرے بے گناہوں کے لیے بھی۔ یہی سبب ہے کہ آج شاہداعظمی کو ایک تحریک کے طور پر شمار کیا جاتا ہے جس سے متاثر ہوکر نہ صرف ہزاروں نوجوانوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا بلکہ ہر 11فروری کو پورے ملک میں شاہد اعظمی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS