محمد حنیف خان
ریاست عوام کی ذمہ دار ہوتی ہے،کھانے کپڑے سے لے کر روزگار اور پر امن ماحول تک مہیا کرانا حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ان پر ہونے والے اخراجات وہ ٹیکس کی صورت میں عوام سے حاصل کرتی ہے۔کتنی رقم و ہ کہاں خرچ کرے گی، اس کا فیصلہ بھی حکومت ہی کرتی ہے۔ اسی فیصلے سے حکومت اور حکومت کرنے والے افراد کی سوچ، فکر اور طریق کار کا نہ صرف اندازہ ہوتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمراں ملک کو کس سمت میں لے جارہے ہیں اور اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔ حکومت کی ایک بہت اہم اسکیم ’ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘(بی بی بی پی)ہے۔اس اسکیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اس کو اپنی ترقیاتی اسکیموں میں سرفہرست رکھا ہے۔ اس اسکیم کے نفاذ کو وہ خواتین کو بااختیار بنانے، بچیوں کو محفوظ کرنے اور ان کو تعلیم یافتہ بنانے میں کلیدی حیثیت حامل مانتی ہے۔جب بھی جنس کی بنیاد پر ترقیات و اختیارات کی بات ہوتی ہے، اس اسکیم کو پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت نے بی بی بی پی جیسی اسکیم کا نفاذ کیا ہے۔مرکز میں این ڈی اے کی حکومت 2014سے ہے۔یہ اسکیم بھی اسی وقت شروع ہوئی اس طرح اس اسکیم کے نفاذ کو تقریباً چھ برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس مدت میں ایک اچھی اور اہم اسکیم کے فائدے بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔ ایسے میں امید یہ کی جانی چاہیے کہ بچیاں پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگئی ہوں گی اور تعلیم کے میدان میں بھی اچھی خاصی ترقی ہوئی ہوگی۔لیکن کیا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس اسکیم اور حکومت سے عوام کی امیدیں تھیں؟
اس سوال کا جواب خود سر کاری اداروں کی رپورٹ اور پارلیمنٹ میں پیش رپورٹ کے تناظر میں اگر ملے تو کم از کم اس سے انکار نہیں کیا جا سکے گا۔خود حکومت کے اداروں نے اس اسکیم اور خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں،ان سے حکومت کے قول و فعل اور اس کی منشا پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
پارلیمنٹری کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ایک بہت اہم اسکیم ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘(بی بی بی پی)کے تحت 2016سے 2019کے مابین جو رقم جاری ہوئی، اس کا 78.91فیصد 447کروڑ روپے صرف اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو دیے گئے اشتہارات پر خرچ کردیا گیا۔خود بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ ہینا وجے کمار گاؤتی کی صدارت والی کمیٹی نے پارلیمنٹ میں پیش اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومت نے 447کروڑ روپے صرف ان اشتہارات پر خرچ کیے ہیں جن کے ذریعہ بچیوں سے متعلق معاشرے میں بیداری لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ حکومت کو ان اشتہارات پر رقم خرچ کرنے کے بجائے یہ رقم زمینی سطح پر تبدیلیوں والی اسکیموں پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ اس سے بچیوں کو فائدہ مل سکے اور ان کے تئیں سماج میں بیداری آسکے۔ رپورٹ میں تعلیم اور صحت خدمات کی جانب خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔کمیٹی نے مزید بتایا ہے کہ 2014 سے 2020تک اس اسکیم کے لیے 848کروڑ روپے مختص کیے تھے جس میں سے 622.48کروڑ روپے ریاستوں کو جاری کیے گئے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ریاستوں نے اس میں سے صرف 25.13فیصد 156.46کروڑ روپے ہی خرچ کیے ہیں۔واضح رہے کہ سی اے جی(کیگ)نے 2016-17کی اپنی رپورٹ میں اس اسکیم کے عملی نفاذ اور رقم مختص ہونے کے باوجود اس کے استعمال نہ کیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
نیشنل کمیشن فار ویمن کی ایک رپورٹ ستمبر 2021میں آئی تھی جس میں اس قومی کمیشن نے کہا تھا کہ خواتین (جس میں بچیاں بھی شامل ہیں) کے خلاف معاملات میں 46فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اس نے ریاست کی درجہ بندی کے ساتھ اعداد و شمار بھی پیش کیے تھے،جس کے مطابق اترپردیش اس فہرست میں پہلے مقام پر تھا،یہ وہ ریاست ہے جس کے بارے میں مرکزی وزیر داخلہ نے ایک عوامی جلسے میں دعویٰ کیا تھا کہ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت کے بعد نظم و نسق اتنا چاق چوبند ہوچکا ہے کہ رات کے بارہ بجے بھی ایک لڑکی گہنے پہن کر تنہا سفر کرسکتی ہے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے متعدد بار یہاں کے لاء اینڈ آرڈر کو مثالی قرار دیا ہے،اس کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم میں یہ ریاست ستمبر 2021میں سر فہرست تھی۔اعداد و شمار کے مطابق 10084معاملات اترپردیش سے آئے جبکہ قومی راجدھانی دوسرے مقام پر تھی جہاں 2147معاملات درج کیے گئے،یہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے لیکن نظم و نسق مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہے اور پولیس محکمہ داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔تیسرا نمبر ہریانہ995 کا تھا جہاں بی جے پی کی حکمرانی ہے اورچوتھے مقام پر مہاراشٹر ہے جہاں شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کی حکومت ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف جنوری سے اگست کے درمیان کے تھے۔ یہ معاملات عزت، وقار،گھریلو تشدد،خواتین کو خوف زدہ کرکے مقصد بر آوری کی کوشش، چھیڑچھاڑ، عصمت دری اور سائبر جرائم سے متعلق ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019میں 2018کے مقابلے خواتین کے خلاف جرائم میں 7فیصد کا اضافہ ہوا تھا،اس کے مطابق ہر روز 87خواتین کسی نہ کسی طرح کے جرائم کا نشانہ بنیں۔ستمبر 2020میں اسی ادارے کی جاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس،کی اسی مدت کے مقابلے خواتین کے خلاف جرائم میں 7فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔اس وقت نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو نے بتایا تھا کہ 371503معاملات درج کیے گئے تھے جبکہ 2019میں یہی تعداد 405326 تھی۔2018میں 378236 تھے۔’دی ہندو‘ کی جولائی 2021کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021میں صرف دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم میں 63فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔چھیڑ چھاڑ کے معاملات میں 39فیصداضافہ ہوا،لڑکیوں اور خواتین کے اغوا کے معاملات بھی گزشتہ برس کی اس مدت میں1026کے مقابلے 1580ہوگئے۔ستمبر 2021کی رپورٹ میںدہلی کو خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ شہر بھی مانا گیا تھا۔
پارلیمنٹری کمیٹی،کیگ،نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو اور نیشنل کمیشن فار ویمنس سرکاری ادارے ہیں،ان اداروں کی ذمہ داریاں جن کے پاس ہیں ان کا تعلق حزب اختلاف سے بھی نہیں ہے بلکہ یہ سب حکومت کے پسندیدہ افراد ہیں، اس کے باوجود اگر وہ منفی رپورٹ دے رہے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اسکیم کتنی بدتر حالت میں ہے۔یقینا حکومت کو اپنے کاموں اور اسکیموں کی تشہیر کرنی چاہیے لیکن اگر حکومت کسی منصوبے کی 80فیصد رقم صرف تشہیر پر ہی خرچ کردے تو اس حکومت اور اس کے منصوبے کو کس زمرے میں رکھاجا نا چاہیے؟در اصل حکومت کے اکثر و بیشتر منصوبے زمینی سطح پر ہونے کے بجائے کاغذی ہیںاور جتنا زمین پر ہے اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ نئی سڑک کے افتتاح کے وقت ناریل توڑتے ہوئے ناریل کے بجائے سڑک ٹوٹ جائے یا پھر ایک دو برس کے اندر پل منہدم ہوجائے یا پھر اترپردیش جیسی ریاست میں سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے سوئٹر، جوتے، موزے، مخصوص ڈریس اور بیگ کے لیے محض 1100 روپے مختص کیے جاتے ہیں،جس پر دکاندار کہتے ہیں کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اتنی رقم میں یہ چیزیں نہیں مل سکتی ہیں،یا پھر دھان خریداری کی اسکیم کہ حکومت متعینہ مقدار تو خرید چکی ہے مگر کسان پوچھ رہے ہیں کس سے یہ دھان خریدا گیا ہے کیونکہ ان کا دھان تو ایم ایس پی پر خریدا ہی نہیں گیا۔حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب اسکیمیں اور منصوبے صرف کاغذ پر ہوتے ہیں یا ان میں بد عنوانی اور غبن ہوتا ہے تو صرف افسران،سفید پوش،ان کے حواری اور دلالوں کا فائدہ ہوتا ہے لیکن یہی اسکیم جب زمین پر اترتی ہے تو اس سے عوام کا فائدہ ہوتا ہے۔اس لیے اس کو بی بی بی پی جیسی اہم اسکیم کی رقم اشتہارات کے بجائے ٹھوس منصوبے پر خرچ کرکے بچیوں کی تعلیم و صحت اور ان کے روزگار پر خرچ کرنا چاہیے۔
[email protected]