عبدالسلام عاصم
جی-8 کو جی-7 میں بدلنے سے تو دنیا کو کوئی طاقت نہیں روک پائی تھی لیکن جی-20 کو جی-19 میں بدلنے سے بچا لیا گیا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اقوام عالم نے جہاں ایک سے زیادہ افسوس ناک اور تشویشناک تجربات کیے ہیں، وہیں ان تجربات سے سبق سیکھنے والے ملکوں نے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات کرنے میں شعوری پختگی کا وہ سفر بھی طے کیا ہے جس کی بدولت یوکرین کی تازہ جنگ نے اندیشوں کی تجارت کرنے والوں کو اپنی دکان چمکانے کا موقع نہیں دیا۔
ہندوستان اور چین کے تعلقات سرحدی اختلافات کی وجہ سے اگر چہ ایک دوسرے کے حق میں بہت زیادہ فائدہ مند نہیں لیکن علاقائی اور عالمی تقاضوں کو سمجھنے اور امکانات کے رُخ پر دونوں نے اپنے اپنے طریقوں سے کام لیتے ہوئے جی-20 کو اُس طرح ایکدم سے جی-19 میں بدلنے نہیں دیا جِس طرح 2014 میں کریمیا کو زبردستی ملحق کرنے کی پاداش میں روس کو جی-8 سے نکال دیا گیا تھا۔ 1997 میں روس نے جی-7 میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد اس کا نام جی-8 رکھ دیا گیا تھا۔ پچھلے ایک عشرے سے اب اس گروپ کو پھر جی-7 کہا جاتا ہے۔
بالی میں دو ماہ قبل منعقد ہونے والے جی- 20 کے سربراہوں کے اجلاس میں روس کی شرکت پر بے یقینی کے بادل ضرور چھا گئے تھے اور ایک سے زیادہ تجزیہ کاروں کو ایسا لگنے لگا تھا کہ اقتصادی طاقتیں اس محاذ پر بھی سیاسی طاقت دکھائیں گی۔ زائد از ایک شرکا چاہتے تھے کہ یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس کو اس گروپ سے نکال دیا جائے، لیکن ہندوستان، چین اور یوروپی یونین نے ایسا کچھ نہیں ہونے دیا۔ ہندوستان نے جہاں وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے ایسی کسی تجویز کی تائید نہیں کی، وہیں چین ایسی کسی بھی کوشش کا دو ٹوک مخالف تھا۔ یوروپی ممالک نے بھی حالات کا بالمقابل سامنا کرنے کے بجائے شعوری پختگی سے کام لینے کو ترجیح دی۔ حالانکہ کسی نے یوکرین پر روسی حملے کی ان دیکھی نہیں کی یا مطلق بے حسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے تو جی-20 کے سربراہوں کے سامنے یوکرین پر روسی حملے کو وحشیانہ قرار دے کر نہ صرف اس کی مذمت کی تھی بلکہ روس پر یو کرین سے نکل جانے کیلئے زور دیا تھا۔ باوجودیکہ امکانات کی راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو ایسے کسی اندیشے میں نہیں بدلنے دیا گیا جس کا نقصان کم و بیش سب کے حصے میں آتا۔
واضح رہے کہ جی-20 ان 20 ممالک یا گروپوں پر مشتمل ہے جو دنیا کی تمام معیشتوں کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 80 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ یہ گروپ ہندوستان، برطانیہ، امریکہ، روس، چین، فرانس، جرمنی، ارجنٹائنا، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی اور یوروپی یونین پر مشتمل ہے۔ اس گروپ کی بنیاد 1999 میں رکھی گئی تھی اور 2008 سے جی-20 مختلف اقتصادی مسائل اور بحرانوں پر قابو پانے کی تجاویز کے حوالے سے سال میں کم از کم ایک بار ملاقات کی بزم آراستہ کرتا ہے۔ سردست ہندوستان اس گروپ کا سربراہ ہے۔
اسی طرح جی-7 بھی اقتصادی طاقت رکھنے والوں کا ایک گروپ ہے لیکن اس میں سبھی ممالک نہایت دولت مند ہیں۔ جی-20 جہاں بنیادی طور پر ایک اقتصادی گروپ ہے، وہیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، کناڈا، جرمنی، اٹلی اور جاپان پر مشتمل جی-7 اپنی سرگرمیوں کے لحاظ سے زیادہ سیاسی گروپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ باوجودیکہ اس بزم میں سیاسی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مالی معاملات بھی دیکھے جاتے ہیں۔ روس 1997 سے 2014 تک جی-7 کا رکن تھا، اس وقت اس کا نام بدل کر جی-8 کر دیا گیا تھا لیکن جب اس نے کریمیا کا زبردستی الحاق کرلیا تو اسے اس گروپ سے نکال دیا گیا۔ فوجی مداخلتوں خصوصاً یوکرین پر جارحانہ روسی حملے کے تازہ موڑ پر ایسا کوئی سانحہ پیش نہ آنے سے زیادہ تر ترقی پسند اور پسماندہ ملکوں نے اطمینان کی سانس لی ہے کیونکہ قوموں کے درمیان اختلاف کا جب بڑی طاقتیں اپنے محدود مفادات کو سامنے رکھ کر فائدہ اٹھانے لگتی ہیں تو کمزور معیشت رکھنے والے اور انحصار پسند ممالک کو سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، حالانکہ وہ اس کیلئے راست طور پر ذمہ دار نہیں ہوتے۔
جی- 20 میں ہندوستان کی شرکت کا تعلق اس عالمی ادراک سے ہے کہ ایک بڑی ترقی پذیر معیشت کے طور پر بین الاقوامی اقتصادی اور مالیاتی نظام کے استحکام میں ہندوستان کا اب ایک اہم حصہ ہے۔ یہ انقلاب ایکدم سے نہیں آیا لیکن سابقہ دو دہائیوں کا اس میں سرگرم عمل دخل ہے۔ 20ویں صدی تک پوری دنیا جہاں امریکہ، روس، جاپان اور کچھ یوروپی ممالک کو عالمی رہنما سمجھتی رہی، وہیں21 ویں صدی میں ایشیا سے دو ممالک عالمی رہنما کے طور پر ابھرے جن میں سے ایک ہندوستان اور دوسرا چین ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس استدلال کے ساتھ ذرا عالمی رہنما کی تعریف بھی بتائی جائے تو اس کیلئے بس اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ قوموں کی قطار اس گول دنیا کے گرد چکر لگانے والی کوئی ایسی گاڑی نہیں جس میں انجن والا ڈبہ رہنمائی کا کردار ادا کر رہا ہو۔ دنیا کا ہر وہ ملک عالمی رہنما کی حیثیت رکھتاہے جو عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کر نے، تمام تر اختلافات کے ساتھ امن و سکون کو برقرار رکھنے اور آب و ہوا میں مضرت رساں تبدیلی، غذائی عدم تحفظ، بھوک اور غریبی جیسے عالمی بحران کے انسداد میں باہمی، علاقائی اور عالمی تعاون کا نظم کرنے کا متحمل ہو۔
اس پس منظر میں جی-20 کی صدارت کا آغاز ہندوستان نے جس تزک واحتشام کے ساتھ کیا ہے، وہ اس کا بجا طور پر مجاز ہے۔ آزادی کے بعد سے مسلسل سیاسی اور سماجی آزمائشوں سے عملی تجربے کے ساتھ گزرنے والے اس ملک نے اپنی معیشت کو کبھی اُس طبقاتی فرق کا حصہ نہیں بننے دیا جو سماجی اور تہذیبی زندگی کو بے حُسن بنا دیتی ہے۔ اس ملک میں طبقاتی فرق کو ہاتھ کی نابرابرانگلیوں کی طرح مربوط رکھنے میں زائد از ایک حکومتوں نے بساط بھر اپنا کردار ادا کیا۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی سابقہ غریب آبادی کا ایک بڑا حلقہ صرف دو نسلوں کے سفر میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کی پہچان کے ساتھ آج ملک کو آنے والی دہائیوں میں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کرنے کے مصمم ارادے سے لیس ہے۔
ملک گیر سطح پر جی-20 کی تقریباً 200 تقریبات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں آئندہ سال ستمبر میں ہندوستان اپنے یہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کے علاوہ دیگر ملکوں کی میزبانی کرے گا۔ خدا کرے ہندوستان کا عہد ایسے تنازعات سے پاک رہے جن کا پیش رو انڈونیشیا کو سامنا کرنا پڑا۔ نزاع کا ہونا غیر فطری نہیں لیکن جب اس میں خلل کا دائرہ مفادات کے تصادم کی وجہ سے وسیع ہوجاتا ہے تو بات بنتی کم اور بگڑتی زیادہ ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ درون ملک سیاسی حالات، معیشت اور معاشرت کے حق میں بہت سازگار نہیں تو کم از کم اتنے خطرناک نہ ہوں کہ آسانیوں کی جگہ بس مشکلیں ہی پیش آتی رہیں۔ ریاستوں اور ایم سی ڈی کے حالیہ انتخابی سفر سے ہم جس طرح گزرے ہیں اُس میں ایک دوسرے کے حق میں ناموافق نتائج کا سامنے آنا اور اُن نتائج سے دو ٹوک اتفاق کرنا ہی ہماری جمہوری سوچ کی وہ بلوغت ہے جس سے دنیا کے کئی ممالک آج بھی محروم ہیں۔ ان میں ہمارا ایک ہمسایہ بھی شامل ہے جس کا ہر منفی اور محدود جذبہ علاقائی اور عالمی امن کے تقاضوں سے متصادم رہتا ہے۔
جی-20کی صدارت کے اپنے عہد میں ہندوستان کو جن آزمائشوں سے گزرنا ہے، ان میں صرف دہشت گردی سمیت عالمی اور علاقائی تنازعات کا ہی دخل نہیں رہے گا۔ بعض ملکوں کی اقتصادی بدحالیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاوہ رہ رہ کر قابو سے پھسلتی عالمی وبا اور آب و ہوا میں ناموافق تبدیلیاں مسلسل ہمارا امتحان لیتی رہیں گی۔ کہتے ہیں گھر کا تجربہ باہر کام آتا ہے۔ گلوبلائز ماحول نے اس کا دائرہ بھی وسیع کر دیا ہے اور اب قومیں دوسروں کی غلطیوں، غفلتوں اور خامیوں کا مشاہدہ کر کے اپنا گھر ٹھیک کر لیتی ہیں۔ اس لیے امکانی رُخ پر یہ بھروسہ بھی رکھا جائے کہ جی 20 کی صدارت کا یہ عہد گھر کی حالت درست کرنے میں بھی ہندوستان کی مدد کرے گا جسے سر دست معاشی آزمائشوں اور سماجی و فرقہ وارانہ کشیدگی کا سامنا ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]