عبدالسلام عاصم: ٹرام نقل و حمل میں خلل نہیں ماحولیاتی آلودگی کا حل ہے

0

عبدالسلام عاصم

تاریخ کے ایک نئے عہد کی شروعات ہمیشہ کسی ایسی پہل کے عمل دخل سے ہوتی ہے جو پہلے دیکھنے والوں کو چونکاتی ہے، پھر لوگ اسے اپناتے ہیں اور پھر اُس سے استفادہ کرنے والی نسلیں مرحلہ وار اُس کی عادی ہوجاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کہانی گھوڑے سے کھینچی جانے والی اُس ٹرام گاڑی کی بھی ہے جس کے ساتھ ہمارے یہاں نقل و حمل کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا۔ عام سڑکوں پر اسٹیئرنگ از خود سنبھال کر موٹر گاڑیاں چلانے والوں کو ٹرام کی پٹریوں سے کبھی کوئی خلل نہیں پڑتا تھا۔ گھوڑوں کی جگہ کسی ماحول دشمن ایندھن کا سہارا لینے کے بجائے براہ راست برقی نظم اپنانے والی اس سواری کی تیز رفتار کبھی کسی ایسے حادثے کا سبب نہیں بنی جس میں ایک دوسرے کی لاپروائی سے ہٹ کر کسی ایسی خرابی کا دخل رہا ہو جس کا سارا الزام ٹرام کے نظم پر آتا ہو۔ آزاد ہندوستان میں کولکاتہ تک محدود رہ جانے والی نقل و حمل کی یہ سہولت عام سڑکوں پر اُس وقت تک موجبِ پریشانی نہیں رہی جب تک لوگ نقل و حمل کے نظم کی پابندی پولیس یا کسی قانونی ضابطے کے خوف سے نہیں بلکہ ’’رُغبت‘‘کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ زمانے کی رفتار سے ہماری موجودہ بے ہنگم وابستگی سے پہلے یہ رُغبت تقریباً ہر بالغ ذہن کا اٹوٹ حصہ ہوا کرتی تھی۔
بدقسمتی سے ہمارے بزرگوں نے ہم پر سیاسی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی دُھن کچھ اس قدر شدت کے ساتھ سوار کرنا شروع کی تھی کہ جانے انجانے میں وہ یہ بھول گئے تھے کہ نئی نسل کو اُن اقدار کی پاسداری بھی سکھائی جانی چاہیے جو ذہن، دل یا کندھوں پربوجھ نہیں ہوتیں۔ یہ اقدار بلوغت کی دہلیز پار کرنے والوں کو امکانات کی راہ اندیشوں سے پاک رکھنے کے تعلق سے ہمیشہ حساس بنائے رکھتی ہیں۔ پٹنہ، دہلی، کوچی، کانپور، چنئی، ناسک اور ممبئی میں تو بظاہر ٹریفک کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرنے میں ناکام لال بجھکڑوں نے ٹرام گاڑیوں سے نجات کو ہی اولین ترجیح دی۔ کولکاتہ میں ٹراموں کا سفر محدود کرنے کی دوہری چال چلی گئی۔ ایک غیر ذمہ دارانہ اور دوسری سیانی چال۔ دونوں چالوں میں انہی سیاسی مجبوریوں کا دخل تھا جس کی قیمت آج ہم دیگر محاذوں پر بھی چکا رہے ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے، تعمیرات اور تجاوزات کے مٹتے ہوئے فرق اور بڑھتی ہوئی انسانی ضرورتوں کا دائرہ جب شہر کی مصروف ترین اہم سڑکوں تک پھیلنے لگا تو ذمہ داران نے سنجیدگی اختیار کرنے کے بجائے اپنے اوپر بوکھلاہٹ طاری کرلی۔ دوسری طرف حکومت نے بھی اپنی ذمہ داریوں پر سیاسی مجبوریوں کے کاروبار کو ترجیح دینا شروع کر دیا جس کا نشانہ بے زبان یعنی غیر پُرشور سواری ٹرام کو بننا پڑا۔ حکمرانوں کو چونکہ تابناک ماضی کو دفن کرنے کے الزام سے بچنا بھی تھا سواِس کا ڈھونگ بھی رچایا گیا۔ یعنی ٹرام کو کچھ روٹوں پر بچا کر نیک نامی کا سودا کرنے میں بھی اہل سیاست کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
مضافات اور دیہی علاقوں میں آبادی سے زیادہ غریبی میں اضافے کو ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کے نعرے سے ختم کرنے کی کوشش ماضی قریب میں بالکل اُسی طرح کی گئی جس طرح آج قومی سطح پر اجتماعی مشکل کشائی کیلئے بدلے ہوئے الفاظ کے مرکبات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ووٹوں کی سیاست کرنے والوں نے مقامی، مضافاتی اور متصل اضلاع کے روٹی روزی کے حاجتمندوں سے کولکاتہ میں اُن فٹ پاتھوں کو آباد کردیاجو کم فاصلہ پیدل طے کرنے والوں اور آخری میل کے مسافروں کیلئے مخصوص تھے۔ اس طرح پیدل چلنے والے جب سڑکوں پر چلے آئے تو چوڑی سے چوڑی سڑکوں پر بھی گاڑیوں، بسوں اور ٹرکوں کے لیے زمین تنگ پڑنے لگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس زمانے میں بھی اسکولوں میں طالب علموں کو نقل و حمل کے ایک باب میں یہ پڑھایا جاتا تھا کہ چونکہ کوئی آزادی ضابطے کی قید سے آزاد نہیں، اس لیے ہر شہری کیلئے سڑک پر چلنے کی آزادی بھی مشروط ہے۔ یعنی اُسے فٹ پاتھ پر چلنا ہوگا، سڑکیں گاڑیوں کیلئے مخصوص ہیں۔
1977 میں مغربی بنگال میں جو انقلاب آیا، اس انقلاب نے موقع اور مجبوری کی سیاست کو کچھ اس طرح سے بام عروج پر پہنچایا کہ مزدوروں کو صرف اپنا حق یاد رہ گیا، وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو خوش کن نعروں میں بھول بیٹھے۔ اسی طرح تعلیم کو بھی انسانی ضرورتوں کے محاذ پر صرف اور صرف سہولتوں سے جوڑ دیا گیا۔ درمیان سے اخلاقی ضابطوں کی وہ گنجائش ہی ختم کردی گئی جن کے بغیر کسی بھی بھیڑ پر صرف لاٹھی سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس طرح مفہوم سے عاری بے لگام آزادی نے کولکاتہ کی بیشتر حیات افروز سڑکوں کے فٹ پاتھوں کو ناجائز قبضے یعنی عام نقل و حمل میں اصل خلل سے نجات دلانے کے بجائے ٹراموں سے ہی نجات دلا دی۔
کہتے ہیں کچھ پانے اور بچانے کی بنگال کی سوچ باقی ہندوستان سے آج بھی آگے ہے۔ تو شاید ٹرام کو قصہ پارینہ بننے سے بچانے کیلئے یہ سوچ بدستور کچھ لوگوں/حلقوں میں زندہ ہے۔ بصورت دیگر زیر مطالعہ مضمون میں آپ ہندوستان میں ٹرام کے سفر کی بار بار دہرائی جانے والی تاریخ پڑھ رہے ہوتے اور آپ کو یہ بتا یا جا رہا ہوتا کہ ہمارے دادا اور پردادا دفتری اور کاروباری ضرورت کے علاوہ سیر و تفریح کیلئے بھی ترجیحاً ٹرام میں سفر کیا کرتے تھے۔ واقعہ ہے کہ گھوڑوں سے بجلی تک تبدیلیوں اور تزئین و آرائش کے سلسلے نے ٹرام کو کبھی ایسی کسی آلودگی کا سبب نہیں بننے دیا جس سے ماحول کو بچانے کیلئے آج قومی، علاقائی اور عالمی کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔غالباً پورے ایشیا میں صرف کولکاتہ میں نقل و حمل کی یہ بے نظیر سواری اُن لوگوں کو میسر ہے جو مقامی ہیں تو قدردان ہیں اور غیر مقامی ہیں تو سڑک پر ریل اور اُس پر گاڑی دیکھ کر حیران ہیں۔ بدقسمتی سے رہ گزار کو روزگار کی بھینٹ چڑھانے اور سرسبز و شاداب ہریالی کو ختم کرنے والے عناصر سے اٹے شہرِ نشاط میں ماحول دوست ٹیگ کے ساتھ بدستور بندھی ٹرام گاڑیاں اب پہلے کی طرح بے ہنگم ہجوم اور جام ٹریفک کے درمیان آسانی سے گھومتی پھرتی نظر نہیں آتیں۔ یہ افسوسناک صورتحال کسی راست بدنیتی کا نہیں لیکن صریح غیر دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔
کولکاتہ کی سڑکوں پر نقل و حمل کی ناقص منصوبہ بندی سے پیدا ہونے والے انتہائی حیات کُش ماحول میں کولکاتہ کی ٹرام اپنی تیسری صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ نقل و حمل کے نظام اور شہری زندگی کو آسان بنانے کے ذمہ داران کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اگر کلکتہ ٹرام ویز کمپنی اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے تو اس کا سہرا اُن جیالوں کے سر بندھتا ہے جنہوں نے ہمیشہ حکومتوں کو اس رُخ پر من مانے فیصلے کے ساتھ آگے بڑھنے سے روکا ہے۔ ان جیالوں نے اب اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ کلکتہ ٹرام یوزرس ایسوسی ایشن نے اس رُخ پر کامیاب محاذ سنبھال رکھا ہے۔
کل تک جسے بوڑھوں کی سواری تک کہنے سے کچھ غیر ذمہ دار قسم کے لوگ گریز نہیں کیا کرتے تھے، آج اُسی ٹرام کی موجودگی پر نئی نسل کے تعلیم یافتہ حلقے کو ناز ہے۔ چند ماہ قبل مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے ایک صحافتی سمینار میں کولکاتہ جانا ہوا تھا۔ ایئر کنڈیشنڈ ٹرام کی کشش اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب رہی۔ رفیع احمد قدوائی روڈ سے گزرتی اے سی ٹرام نے انتہائی نمی والی گرمی میں انتہائی مطلوب راحت فراہم کی۔ نئی نسل کو اس بات کا علم شاید کم ہو کہ ٹرام کاریں شاعری کو بھی جنم دیتی ہیں۔ کولکاتہ میں اردو اور بنگالی زبانوں کے کئی شاعر ٹرام ڈرائیور / کنڈکٹر رہے۔ میں نے اپنی اسکولی تعلیم کے زمانے میں شہود عالم آفاقی اور خرد جونپوری کو اسٹیج سے زیادہ ٹراموں میں دیکھا تھا۔ ٹراموں کیلئے وہ زمانہ بعض روٹوں پر قابل دید تیز رفتاری کا تھا۔ کلکتہ میدان کی رونقوں میں بھی ٹراموں کا اہم عمل دخل تھا۔
واقعی، ٹرام کی وجہ سے کولکاتہ کو آج بھی وہ دلکشی حاصل ہے جو آب و ہوا میں خطرناک تبدیلی کا سبب بننے والے انسانی تجربوں سے پاک ہے۔ ٹرام سے شہر کے رومانوی عنصر میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ تنگ اور ہجوم والی سڑکوں پر یہ(دوسروں کے اعمال کی وجہ سے سست رفتار) رینگنے والا برقی جانور کولکاتہ کی آخری کشش کو مکمل کرتا ہے۔ اہل کولکاتہ پر لازم ہے کہ وہ ٹرام کی قدر کریں جو نقل و حمل میں خلل نہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کاحل ہے۔ خدا کرے اس حل کا دائرہ پھر پٹنہ،دہلی، کوچی، کانپور، چنئی، ناسک اور ممبئی تک وسیع ہو۔
یوروپ بشمول مشرقی یوروپ میں ٹرام کا سفر بہت خوشگوار ہے جس کا ناچیز نے از خود مشاہدہ کیا ہے۔ بہت سے یوروپی شہر ٹرام یا لائٹ ریل ٹرانزٹ نیٹ ورک سے لیس ہیں۔ وہاں بھی آبادی بڑھی ہے اور سڑکیں پرائیویٹ گاڑیوں سے بھری پڑی ہیں لیکن اس سواری کی خوبصورتی دن بدن نکھرتی جارہی ہے۔ پورے یوروپ میں سب سے زیادہ پرائیویٹ کاریں جرمن لوگوں کے پاس ہیں۔ باوجودیکہ برلن میں اب بھی انتہائی جدید لائٹ ریل ٹرانزٹ نیٹ ورک موجود ہے۔ کولکاتہ میں جن لوگوں کا خیال ہے کہ پبلک یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بسیں ٹرام کی جگہ لے سکتی ہیں، وہ محدود سوچ رکھتے ہیں اور عوامی زندگی کیلئے محدود سوچ موت ہے۔ ٹرام کی ضرورت ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS