آدھار، ووٹر آئی ڈی لنک لوک سبھا میں پاس

0

گزرتے وقت اور حالات کے ساتھ حکومت نئے نئے فیصلے لیتی رہتی ہے،نئے قوانین متعارف کراتی رہتی ہے اور پرانے قوانین میں ترمیم و اضافہ کرتی رہتی ہے۔ 1985 میں وزیراعظم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ حکومت عام لوگوں کے لیے جو رقم دیتی ہے، ان میں ایک روپے میں سے 15 پیسے ہی مفاد عامہ پر خرچ ہو پاتے ہیں، باقی 85 پیسے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں، چنانچہ راجیوگاندھی نے بدعنوانی کو ختم کرنے کی جدوجہد کی، ان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم نے بھی اس سلسلے میں جدوجہد جاری رکھی۔ آدھار کارڈ متعارف کرایا گیا۔ اس کے متعارف کرانے کا مقصد یہ بھی تھا کہ بدعنوانی ختم کرنے میںیہ معاون و مددگار ہوگا، یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ بدعنوانی ختم کرنے میں آج کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔ اب سبسڈی کا پیسہ براہ راست کھاتے میں آ جاتا ہے۔ اس سے بچولیوں کا رول ختم ہوا ہے۔ بینک کھاتوں سے، پین کارڈ سے آدھار کو جوڑنے کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ٹیکس چوری کو روکنے میں قابل ذکر کامیابی ملی ہے مگر دوسری طرف یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ اگر کسی کے آدھار کارڈ کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اس کے کیسے اثرات اس پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
جب آدھار کارڈ بنوانے کی ابتدا کی گئی تھی تو اس وقت لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ یہ سٹیزن شپ کارڈ ہے مگر اس وقت کی حکومت نے یہ بات واضح کی تھی کہ یہ سٹیزن شپ کارڈ نہیں ہے۔ بعد میں دھیرے دھیرے آدھار کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔ ایسا لگنے لگا کہ اگر کسی کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہے تو اس کے لیے جینا آسان نہیں ہے، کیونکہ اسکولوں میں بچوں سے آدھار مانگا جانے لگا، گیس سلنڈر پر ملنے والی سبسڈی کے لیے آدھار کی ضرورت پڑنے لگی، ایک وقت موبائل کے لیے اسے ضروری سا بنا دیا گیا، مختلف طرح کے کھاتوں سے اسے جوڑا گیا، دیگر جگہوں پر بھی اس کا استعمال ہونے لگا مگر ان باتوں کے باوجود اطمینان کی بات یہ تھی کہ یہ سٹیزن شپ کارڈ نہیں ہے، ووٹر آئی ڈی کارڈ اور آدھار کارڈ میں فرق ہے، پاسپورٹ اور آدھار کارڈ میں فرق ہے۔ جون 2017 میں وزارت داخلہ نے یہ بات واضح کی تھی کہ آدھار کارڈ نیپال اور بھوٹان جانے کے لیے شناختی دستاویز کے طور پر ویلڈ نہیں ہے ، اسے یہ اشارہ سمجھا گیا تھا کہ آدھار اس مرحلے میں ابھی نہیں پہنچا ہے کہ اسے شہریت کا کارڈ مان لیا جائے مگر حکومت کے نئے قدم کے باوجود یہ بات نہیں کہی جائے گی کہ آدھار کارڈ دھیرے دھیرے سٹیزن شپ کارڈ بننے کے قریب پہنچ گیا ہے؟ گرچہ ووٹر آئی ڈی سے آدھار کو جوڑنے کے لیے حکومت نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس سے ووٹر لسٹ میں ایک رائے دہندہ کا نام دوبار شامل نہیں ہوپائے گا اور فرضی رائے دہی کو روکنے میں بھی مدد ملے گی مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ووٹر آئی ڈی کو آدھار سے جوڑنے کے بل سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
لوک سبھا میں انتخابی قوانین (ترمیمی بل)2021 کے تحت آدھار کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ اس قانون کے تحت آدھارکارڈ کا ووٹرآئی ڈی کے ساتھ جوڑا جانا رضاکارانہ ہوگا۔ اس پر وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے، ’آدھار کارڈ کو ووٹر لسٹ کے ساتھ جوڑنا لازمی نہیں ہے۔ یہ آپ کی اپنی مرضی پر ہے۔ یہ متبادل ہے۔ اس سے ایڈریس پتہ کرنے میں مدد ملے گی، فرضی ووٹنگ کو روکنے میں مدد ملے گی۔‘البتہ اس بات کی گارنٹی وہ بھی نہیں دے سکتے کہ آنے والے وقت میں بھی یہ لازمی نہیں کیا جائے گا۔ کانگریس کی حکومت میں آدھار کارڈ جب لایا گیا تھا، اس وقت کانگریسی لیڈر اس کے محدود استعمال کی باتیں کیا کرتے تھے، ان کی باتوں سے کیا یہ لگتا تھا کہ آدھار کارڈ کا دائرہ استعمال بڑھتا چلا جائے گا اور ایسا لگنے لگے گا کہ یہ مرحلے وار سٹیزن شپ کارڈ کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اس لیے آج بھی اندیشے جنم لے رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کانگریس کے لیڈران آدھار کارڈ کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑے جانے پر اعتراض کر رہے ہیں، اسے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بتا رہے ہیں۔ ویسے حکومت کے اس قدم کی مخالفت ترنمول کانگریس، آر ایس پی، سماجوادی پارٹی نے بھی کی ہے۔ اپوزیشن کے اعتراضات سے الگ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آدھار کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑنے کی کوششوں کی ابتدا کرنے سے پہلے کیا حکومت نے یہ معلوم کیا ہے کہ وطن عزیز ہندوستان کے سبھی شہریوں کے پاس آدھار کارڈ اور ووٹر آئی ڈی ہیں؟ مردم شماری کے وقت تو ان لوگوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جن کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں ہیں، جو کہیں رات گزار کر دن میں تلاش معاش میں نکل پڑتے ہیں مگر ملک کی آبادی کی گنتی میں شامل ہونے والے ان لوگوں کو کیا ووٹر آئی ڈی یا آدھار کارڈ بڑی آسانی سے جاری کیے جاتے ہیں؟ ان باتوں کی اہمیت آج اس لیے ہے کہ کہیں بدعنوانی ختم کرنے کی کوششوں میں انسانیت نظر انداز نہ ہو جائے اور اس حوالے سے حکومت کو ہدف تنقید بنایا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS