شاہد زبیری
تینوں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو 26 نومبر کو ایک سال پورا ہو گیا۔ اس عرصے میں کسان تحریک کو مختلف نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ جس بڑے مقصد کے حصول کے لیے اس تحریک نے پنجاب سے دہلی کوچ کیا تھا اور اس کادائرۂ اثر پو رے ملک میں پھیل گیا تھا، اس کی قطعی امید مودی سرکار کو نہیں تھی۔ سرکار نے پورے سال اپنے رویے میں کوئی لچک نہیں دکھائی، اس درمیان تحریک کے قائدین اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور چلے لیکن بات چیت بے نتیجہ رہی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وزیراعظم نریندر مو دی نے ڈرا مائی طور پر اچانک 19 نومبر کی صبح ٹی وی پر آکر نہ صرف تینوں متنازع زرعی قوانین پر خط تنسیخ کھینچ دیا، کسانوں سے معافی مانگ لی بلکہ یہ بھی جتا دیا کہ زرعی قوانین تو صحیح ہیں لیکن وہ کچھ کسانوں کو سمجھانے میں کامیاب نہیں رہے۔ کسان تحریک جن دو بڑے مقاصد کے لیے شروع کی گئی تھی، ان میں سے ایک متنازع زرعی قوانین کو ردّ کیے جانے کا مطالبہ تو پورا ہو گیا اور مودی کابینہ نے بھی اس پر مہر لگا دی لیکن کسان ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے کے مطالبے پر بضد ہیں۔ ان کے دیگر نصف درجن مطالبات بھی ہیں۔ وہ دہلی بارڈر پر ڈٹے ہو ئے ہیں۔ 22 نومبر کو لکھنؤ کی مہا پنچایت میں کسا نوں کے جم غفیر سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیںکہ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد بھی کسانوں کے تیور نرم نہیں ہوئے ہیں، چنانچہ وزیراعظم کی پریشانی کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ وزیراعظم نے اپنے سخت موقف کے باوجود جس بڑے مقصد کے حصول کے لیے قدم پیچھے ہٹائے تھے، کہا جا تا ہے کہ اس کے پس پشت سنگھ پریوار اور بی جے پی کا دبائو کام کر رہا تھا جو ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی وجہ تھا جس نے بی جے پی ہی کی نہیں، سنگھ پریوار کی بھی نیند اڑا رکھی ہے کہ 2022 میں یو پی، اترا کھنڈ، پنجاب ، گووا اور منی پور کے اسمبلی انتخابات میں کیا ہو گا۔ لکھیم پور جیسے واقعات سے بی جے پی اور بی جے پی سرکاروں کے خلاف کسانوں میں جو اشتعال بڑھا ہے، اس سے بی جے پی لیڈران، ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی گائوں دیہات میں گھسنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس سے جو تصویر ابھر کر سامنے آئی، اس نے اور سنگھ پریوار کے مبینہ داخلی سروے نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ڈرا دیا ہے، اس لیے وزیراعظم نریندر مودی کو چار و ناچار زرعی قوانین کے نفاذ سے قدم پیچھے ہٹانا پڑا جبکہ ان قوانین کو وہ زراعت کے لیے انقلابی بتا رہے تھے۔
26 نومبر کو کسان تحریک کا ایک سال پورا ہو چکا ہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ یہ تاریخ یوم آئین کی تاریخ ہے۔ آزاد ہندوستان میں اتنی لمبی اور پرامن تحریک کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں صبر و تحمل کے ساتھ کسانوں نے ہر رکاوٹ اور ہر پر پابندی کا مقابلہ کیا۔ سرکار کے ہمنوا میڈیا نے بھی کسان تحریک کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کا محاذ کھو ل رکھا ہے۔ کسی سرکار مخالف تحریک کے دوران 700 انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوا۔ کسان تحریک کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں خواتین کی بھی شراکت داری رہی۔ یہ تحریک بقیہ مطالبات کے حصول کے لیے ابھی بھی جا ری ہے اور’ وہ اپنی وضع نہ بد لیں گے ہم اپنی خُو نہ چھوڑیں گے‘ کے تحت کسانوں اور سرکار کے مابین کشاکش چل رہی ہے۔ کسانوں کا واضح اعلان سامنے آچکا ہے کہ جب تک ایم ایس پی کو قانونی درجہ نہیں مل جاتا، پرالی جلانے پر بنے قانون کو واپس نہیں لیا جاتا، کسانوں کو فراہم کی جا نے والی بجلی کی نئی شرح سے کسانوں کو چھوٹ نہیں دی جاتی، تحریک کے دوران شہید ہونے والے کسانوں کے پسماندگان کو مناسب معاوضہ سرکار ادا نہیں کر دیتی، کسان اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ گتھی ابھی نہیں سلجھی۔ اس کا احساس وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ہو چکا ہے۔ زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے اگلے روز سے وزیراعظم یو پی کے دورے پر ہیں اور ریلیاں کر رہے ہیں، بڑے بڑے پروجیکٹوں کا اعلان کر رہے ہیں، سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں اور کسی پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے ہیں۔ یہ ساری تگ و دو اس لیے ہے کہ بی جے پی اور وزیراعظم کو 2022 میں ہونے والے 5 صوبوں کے اسمبلی انتخابات کی فکر ہے ۔ وزیر اعظم کو سب سے زیادہ فکر اگر کسی صوبے کی ہے تو وہ یو پی ہے۔ یو پی میں کا میابی ہی 2024 کی کامیابی کی راہ ہموار کرے گی اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی مودی جی کی حسرت پوری کرے گی۔ یو پی میں بھی خاص طور پر مغربی یو پی، جہاں کی تین کمشنریوں میرٹھ ،سہارنپور اور مرادآباد کمشنری میں شامل 14 اضلاع کی کل 71 سیٹوں کی فکر ہے جہاں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں اس نے 52 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا اور بھارتیہ کسان یونین کا گڑھ ہے جو پنجاب و ہریانہ کے بعد کسان تحریک کامرکز ہے، کسان تحریک کے دوران بھارت بند کا سب سے زیادہ اثر بھی مغربی یو پی میں رہا تھا، ریلوے کو ٹرینیں منسوخ کرنی پڑی تھیں۔ اس عرصے میں راشٹریہ لوک دل نے بھی اپنی کھوئی ہوئی زمین پر پائوں جمالیے ہیں۔ جینت چودھری کی قیادت میں لوک دل کی آشیرواد ریلیوں میں آنے والی بھیڑ اور سماجوادی پارٹی سے سیاسی گٹھ جوڑ، جو قریب قریب ہو چکا ہے، کہا جا رہا ہے کہ30 سے 36 سیٹیں لوک دل کے حصے میں آسکتی ہیں۔ اس گٹھ جوڑ سے بی جے پی اعلیٰ کمان ہی نہیں سنگھ پریوار کو بھی تشویش لاحق ہے اور مبینہ طور پر سنگھ کے ذریعہ کراگئے سروے بھی بی جے پی کو خطرے کا سگنل دے رہے ہیں، کیونکہ جو جاٹ کسان 2017 اور 2019 میں بی جے پی کے پالے میں چلے گئے تھے اور اجیت سنگھ اور ان کے بیٹے جینت بھی پارلیمنٹ کی سیٹ حاصل نہیں کرسکے تھے، اپنی زندگی میں چودھری اجیت سنگھ نے راکیش ٹکیٹ کے آنسو پونچھ کر اور لوک دل کی طرف سے حمایت دینے کا بھروسہ دلاکر جاٹوں کی ناراضگی کو دور کر دیاجس کے بعد سے جاٹ برادری کی عزت نفس کی بحالی کے لیے لوک دل کے پالے میں کھڑے ہیں۔ جینت چودھری کی آشیرواد ریلیوں میں بھاری بھیڑ امڈ رہی ہے۔ ابھی تک کے جو سیاسی حالات ہیں، ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ جاٹ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد بھی بی جے پی کی طرف نہیں لوٹیں گے۔ اترا کھنڈ پر بھی یو پی کے بدلتے سیاسی منظر نامہ کارنگ چڑھتا دکھا ئی دے رہا ہے۔ اتراکھنڈ جیسے چھوٹے سے صوبے کے ترائی علاقے کی 10-11 سیٹوں پر سکھ فرقے کی مضبوط پکڑ بتا ئی جا تی ہے۔ پنجاب میں اس مرتبہ اکالی دل، بی جے پی کے ساتھ نہیں ہے۔ کانگریس سے علیحدہ ہوکر اپنی سیاسی ساکھ اور آب و تاب کھونے والے سابق وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کی حمایت پنجاب میں بی جے پی کی تقدیر نہیں بدلنے والی۔ یہاں بی جے پی کی دال تنہا گلی ہی نہیں، اکالی دل کے سہارے وہ چند سیٹیںہی حاصل کرتی رہی ہے۔ اپوزیشن کا درجہ بھی اس کو کبھی نہیں ملا۔ اگر اکالی دل پھر سے این ڈی اے سے ہاتھ ملا لیتا ہے اور بی جے پی سے اس کا تال میل بیٹھ جا تا ہے، چونکہ علیحدگی کے لیے اکالی دل نے زرعی قوانین کو ہی بہانہ بنا یا تھا اور مرکزی وزارت بھی چھوڑی تھی، اب وہ وجہ ہی ختم ہو گئی ہے، توبی جے پی کی پنجاب میں عزت بچ جائے گی۔ ایسے میں بی جے پی کی ساری امیدیں یو پی سے وابستہ ہیں۔ اگر 2022 اور 2024 میںد ستار بچ سکتی ہے تو وہ یو پی ہے۔ یو پی میں یو گی ہی نہیں، مودی کا سیاسی مستقبل بھی دائو پر ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر ہی وزیراعظم مودی نے تینوں زرعی قوانین کی واپسی کا پانسہ پھینکا ہے اور کسانوں کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں وہ کتنے کامیاب رہتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسان تحریک نے مقصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، بہت کچھ کھویا ہے اور پایا کچھ نہیں۔ جن قوانین کو واپس کیا گیا ہے، وہ ان پر تھوپے گئے گئے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسانوں نے کچھ پایا ہے تو وہ تھوپے گئے قوانین کی واپسی ہے۔ ان کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ فصل کے واجب دام ملیں اور سرکار ایم ایس پی کو قانونی درجہ دے، باقی مطالبات کی حیثیت ضمنی ہے خواہ وہ لکھیم پور سانحہ سے متعلق مطالبات ہوں یا پرالی جلائے جانے کی اجازت اور تحریک کے دوران ان پر عائدمقدمات کا خاتمہ وغیرہ ۔
[email protected]