’غدار‘ کون؟ فیصلہ ہو جانا چاہیے!

0

اے- رحمان

مرکزی وزارت داخلہ کے ایک ذیلی محکمے ’قومی دفتر برائے اندراج جرائم‘ (NCRB ) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال میں غداری مخالف قانون کے تحت درج کیے جانے والے مقدمات میں ایک سو پینسٹھ (165) گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اسی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ دیگر سنگین جرائم میں معتد بہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس وقت پورے ملک میں کئی ہزار افراد غداری (sedition ) اور انسداد غیر قانونی سرگرمی (UAPA ) قانون کے تحت جیلوں میں قید ہیں جن میں شرجیل امام جیسے طلبا اور صدیق کپن جیسے صحافی بھی شامل ہیں۔ شرجیل امام کے خلاف ایک مبینہ ’فساد انگیز‘ تقریر کرنے کے الزام میں پانچ مختلف ریاستوں میں مقدمے درج کیے گئے تھے اور ابھی الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اس کی ضمانت منظور کی ہے۔ حالات و واقعات چغلی کھاتے ہیں کہ غداری کے قانون کو ہر صدائے احتجاج کے قتل کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ غداری کیا ہے اور قانون اس کی کیا تعریف متعین کرتا ہے۔
غداری کو دنیا کے تقریباً ہر قانون میں سنگین ترین جرم گردانتے ہوئے اس کے لیے سنگین ترین سزا یعنی سزائے موت تجویز کی گئی ہے لیکن غداری کہا کس کو جائے گا یہ سوال بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اردو میں غداری کے لغوی معنی بد عہدی یا بے وفائی لیے جاتے ہیں لیکن غداری بنیادی طور پر دو قسم کی ہوتی ہے۔ کسی شخص، موقف یا نظریے سے غداری اور ملک و قوم سے غداری۔ ان دونوں اقسام کی غداری کے لییانگریزی میں Treachery اور Treason دو الفاظ ہیں۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کو جو آپ پر مکمل بھروسہ کرتا ہو دھوکا دیں یا اس کے اعتماد کو شعوری طور پر اس طرح مجروح کریں کہ اس کو نقصان پہنچے تو ظاہر ہے غداری ہے جس کے لیے انگریزی لفظ treachery استعمال ہوتا ہے لیکن اگر آپ اپنے ملک کی حکومت یا فرما نروا کے خلاف ارادتاً کوئی ایسا کام سر انجام دیں جس سے حکومت یا فرما نروا کو نقصان پہنچے تو وہtreason ہے۔ اردو میں دونوں قسم کے افعال کے لیے غداری ہی مستعمل ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک اور اہم جرم بھی فلسفہ ٔ قانون نے درج کیا ہے اور وہ ہے فرمانروا یا حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانا جس کے لئے انگریزی لفظ Sedition استعمال ہوتا ہے اور یہی لفظ تعزیرات ہند میں استعمال کیا گیا ہے۔ (بد قسمتی سے غداری کی مختلف اقسام کے لیے مروج انگریزی الفاظ کے اردو متبادل موجود نہ ہونے پر محض ’’غداری‘‘ سے کام چلانا پڑتا ہے) لیکن یہی مسئلہ ہندی کو بھی درپیش ہے۔ ہندی میں بھی Treason اور Sedition دونوں کے لیے ’ راج دروہ‘ یا ’ دیش دروہ‘ الفاظ استعمال ہوتے ہیں جبکہ قانونی نقطۂ نظر سے بحیثیت جرائم دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر کوئی شخص ملک یا حکومت کے خلاف مسلح بغاوت پر آمادہ ہو یا اس کے لیے کوشش کرے تو جرم کی تعریف اور تعزیر دنوں پر واضح قانون موجود ہے۔ لیکن Seditionکا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ حکومت کے خلاف ایسی تحریر یا تقریر ( یا کسی دوسرے ذریعے کا استعمال) جو حکومت کے خلاف بے اطمینانی بغاوت اور نفرت کے جذبات کو انگیخت کرے Sedition یا ’ دیش دروہ‘ کی تعریف میں آئے گا۔ لیکن Sedition کے سلسلے میں رائج قانون ہمارے آئین کی تمہید (Preamble) اور آرٹیکل 19دونوں سے متصادم ہے کیونکہ حق آزادی اظہار Freedom of speech and expression کو جمہوریت کی اساس تسلیم کیا گیا ہے لہٰذا اظہار کی آزادی کی حدود کا تعین کرنا بھی لازمی ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق عالمی معاہدے (ICCPR) 1966 کی دفعہ19(3) بھی کہتی ہے کہ اظہار کی آزادی پر دوسرے کے حقوق، قومی سلامتی، امن عامہ اور بعض اخلاقی اقدار پر مبنی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے آئین ہند کی دفعہ 19 کی تشریح کرتے ہوئے حق آزادی اظہار کو جمہوریت کے لیے نہایت لازمی قرار دیتے ہوئے تقریباً لا محدود کر دیا ہے۔ آزادیٔ اظہار میں آزادیٔ تحریر و تقریر دونوں شامل ہیں اور اس زاویے سے ایسی تقاریر کا سوال سامنے آتا ہے جن سے غداری (Sedition) کا معاملہ بنتا ہو۔ آئین نے آزادیٔ اظہار پر جن موضوعات کے واسطے سے ’ مناسب‘ پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دی ہے وہ ہیں (1) قومی سلامتی (2) غیر ممالک سے دوستانہ تعلقات (3) امن عامہ (4) معاشری شائستگی اور اخلاقیات (5) توہین عدالت (6) حیثیت عرفی (7) جرم کے لیے ورغلانا اور (8) ملک کی سالمیت اور خود مختاری، لیکن1986 میں سپریم کورٹ نے بجوئے ایما نویل بنام اسٹیٹ آف کیرالہ میں یہ بھی طے کر دیا تھا کہ ان موضوعات پر کسی بھی قسم کی شرط یا پابندی باقاعدہ قانون بنا کر ہی عائد کی جا سکتی ہے محض حکومت کے کسی انتظامیہ حکم نامے کے ذریعے نہیں۔ اب غداری یا دیش دروہ (sedition) کو لیجیے۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 124-A کہتی ہے کہ تحریر، تقریر، اشاروں کنایوں یا کسی بھی دوسرے طریقے سے حکومت کے خلاف بے اطمینانی، تحقیر یا نفرت کے جذبات کو بھڑکانا جرم ہے جس کی سزا چار سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ یہ قانون ہمیشہ سے تنقید کی زد میں رہا ہے اور اسے تعزیرات ہند کے وجود میں آنے کے دس سال بعد یعنی 1970 میںایک ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ لیکن آزادی کے بعد سپریم کورٹ نے اس قانون کی تشریح و تصریح کرتے ہوئے حکومت پر ہر قسم کی نکتہ چینی اور تنقید جائز قرار دی ہے۔ اس سلسلے میں اہم ترین نظیر ہے کیدار ناتھ فیصلہ جس میں سپریم کورٹ نے124-A کو تقریباً غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی تحریر یا تقریر اس وقت تک غداری (Sedition) کے ذیل میں نہیں لائی جا سکتی جب تک اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ امن عامہ میں خلل ڈالنے کی نیت ہو بلکہ امن عامہ سنگین طریقے سے مختل ہو گیا ہو یا ہو سکتا ہو۔ 2016 میں سپریم کورٹ نے کامن کاز کے ذریعے دائر کی گئی مفاد عامہ کی ایک عرضداشت پر فیصلہ سناتے ہوئے کیدار ناتھ فیصلے کا اعادہ کیا اور ملک بھر کی پولیس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ غداری(Sedition) سے متعلق قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور 124-A تعزیرات ہند کے تحت مقدمہ درج کرنے سے پیشتران تمام رہنما خطوط کو پیش نظر رکھا جائے جو سپریم کورٹ نے کیدارناتھ فیصلے میں قائم کیے تھے۔ اہم ترین نکتہ یا اصول اس فیصلے میں یہی تھا کہ اگر کسی تحریر یا تقریر کے نتیجے میں تشدد بھڑک سکتا ہو، فساد ہو سکتا ہو تو ایسی تقریر یا تحریرSedition کے ذیل میں سمجھی جائے گی۔ 124-A کے ساتھ عموماً تعزیرات ہند کی دفعہ 295-A (جس کا ذکر اوپر ہوا) کا استعمال ہوتا ہے کیونکہ فطری بات ہے کہ اگر کسی مذہبی فرقے کے جذبات کو مجروح کیے جانے کے نتیجے میں فساد اور تشدد پھیلتا ہے (جیسا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں درج ہے) تو ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لییخطرہ پیدا ہو گا۔ جتنا زیادہ تشدد اور فساد، سالمیت کے لیے اتنا ہی خطرہ۔ منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایسی تحریر و تقریر کے ذریعے ملک کی سالمیت کو ارادتاً گزند پہنچانے والے غدار وطن سمجھے جائیں۔ قانون کا بول تو تبھی بالا سمجھا جاتا ہے جب بڑے سے بڑے مرتبے کا حامل چھوٹے سے چھوٹے جرم کے لیے قرار واقعی معتوب ہو۔اب یاد کیجئے شاہین باغ احتجاج کا زمانہ جب وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ دونوں نے اس احتجاج کو دیش دروہ یعنی غداری سے تعبیر کیا تھا۔رہی بات فساد انگیز بیانات کی تو بی جے پی کے بد کلام اور بد نہاد رہبران نے سیاسی کلامیہ کہاں تک پہنچا دیا ہے اس کی تو سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ دلی میں کپل شرما، کیلاش وجیہ ورگیہ اور یو پی میں گری راج سنگھ نے دیوبند کو دہشت گردی کی فیکٹری کہا۔اور ابھی حال ہی میں یو پی کے ریاستی وزیر داخلہ رگھو راج سنگھ نے یہاں تک کہا کہ ذرا سا موقع ملتے ہی وہ سارے اسلامی مدارس بند کرا دیں گے۔ مسلمانوں کے خلاف مستقل زہر افشانی بی جے پی نیتاؤں کا شعار بن گیا ہے۔ کیا یہ لوگ بے وقوف ہیں؟ جنونی ہیں؟ پاگل ہیں؟۔ جواب یہ ہے کہ یہ لوگ غدار ہیں۔ میں نہیں کہتا۔ ملک کا قانون کہتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS