آج ہندوستان کا ایک غریب بھی لکھ پتی ہونے کا مزہ لوٹ رہا ہے، رہنے کیلئے اس کے پاس شاندار گھرہے جس میں مفت کی بجلی کے قمقموں سے پھیلنے والی روشنی اس کی زندگی کومنور وتاباں کررہی ہے۔ مفت میں ملنے والی رسوئی گیس نے غریبوں کو دھویں سے پاک باورچی خانہ دیا ہے جہاں وہ نت نئے پکوان پکاکر اپنے دسترخوان کی زینت بڑھارہے ہیںا ور لذت کام و دہن کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ سحر طاری کردینے والا کوئی خواب یا لفظوں کی میناکاری نہیں بلکہ دعویٰ ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حکمراں وزیر اعظم نریندر مودی نے جمہوریت کے ’ مقدس ترین مقام‘ پارلیمنٹ میں کیا ہے۔ صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے پیرا ور منگل کے روز راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں یہ باتیں کہی ہیں۔ان کے علاوہ بھی دعووں کی ایک طویل فہرست ہے جو ایوان میں کی گئی وزیراعظم کی تقریر میں شامل ہے۔
حقائق کیا ہیں یہ اہل وطن سے پوشیدہ نہیں۔دو یوم قبل ہی اسی ایوان میں کانگریس لیڈرا ور پارٹی کے سابق قومی صدر راہل گاندھی نے پہلی اپنی غیرمعمولی تقریر میں ان روح فرساحقائق کی نقاب کشائی کی تھی اور حکومت کے سامنے کئی ایسے سوال رکھے تھے جن کا جواب دیاجانا حکومت کا آئینی فریضہ تھا لیکن وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے علاوہ تاریخ کی غلط تشریح، زمینی حقائق میں جھوٹ، فریب اور خوابوں کی آمیزش کے ساتھ ایوان کے سامنے جو منظر نامہ پیش کیا گیا اسے سادہ لفظوں میں جمہوریت کی توہین اورغریبوں کا مذاق ہی کہاجائے گا۔
یہ جمہوریت کا وہی مقدس ترین مقام تھاجہاں وزیراعظم نے 2014 میں اپنی پہلی آمد کے موقع پر سجدہ ریز ہوکر ہندوستان کے عوام سے کئی وعدے کیے تھے اور پورے ہندوستان کو اپنی باتوں سے سحر زدہ کرکے اپنا حلقہ بگوش بنالیاتھا لیکن برسوں بیت جانے کے باوجود وہ وعدے وفانہیں ہوسکے، اس کے برخلاف ملک ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سب کچھ دائوپر لگا ہوا ہے، جمہوریت سے لے کر معیشت تک ترقی معکوس کی آخری منزل پر ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کی ہولناکیاںدھیرے دھیرے کرکے ملک کو نگل رہی ہیں۔لیکن حکومت اس پر اٹھنے والے کسی سوال کا جواب دینے کی روادار نہیں ہے اور نہ ہی وزیراعظم اسے کوئی مسئلہ سمجھتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ تک کہہ دیا کہ ملک میں بے روزگاری یا مہنگائی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مہنگائی ماضی کی بات ہے، مہنگائی یوپی اے کے دور میں ہوا کرتی تھی اب تو ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہاہے۔ انہوں نے ملک بھر میں کورونا کے بڑھنے کیلئے بھی کانگریس سمیت حزب اختلاف کو ہی موردالزام ٹھہرایا ہے۔
ایوان کے تقدس اور وقارکا تقاضا تویہ ہے کہ اس میں کیے جانے والے سوالوں کا نکتہ وار جواب دیاجائے، سائل کو مطمئن کیا جائے اور اس کے اشکالات دور کیے جائیں لیکن گزشتہ 8،9 برسوں سے ایوان میں یہ سب نہیں ہورہاہے، اس فورم سے جس سطح کی بات چیت ہورہی ہے، اسے ایوان کی بے توقیری کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔اس بے توقیری میں حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف بھی شامل ہے۔ مقدس ایوان کے معزز ارکان دوران اجلاس جس طرح کی حرکتیں اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں، اس سے قبل اس کی مثال معدوم ہے۔ ایوان کا بار بار بائیکاٹ کیاجانا،اجلاس سے واک آئوٹ ہونا، بحث و مباحثہ کی سنہری جمہوری روایت کو پرے دھکیلتے ہوئے عددی قوت کے سہارے اپنی مرضی کی قانون سازی کرنا، یہ سب ایوان کے تقدس کے منافی ہی کہا جائے گا۔بجٹ اجلاس کے دوران بھی یہی سب کچھ ہوا۔اسی فورم سے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو کبھی یوراج کہاگیا تو کبھی پپو کہہ کر توہین کی گئی۔ معزز اراکین کو چھیڑنے والے انداز میںریمارکس بھی اسی ایوان میں پاس کیے جاتے رہے ہیں۔
مرکزسے کانگریس کو رخصت ہوئے 8برسوں کا عرصہ گزرجانے کے باوجودلگتا ہے کہ حکومت پر کانگریس کا ہی خوف طاری ہے۔حزب اختلاف کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے حکمراں جماعت نے ایوان کو کانگریس سے اپنی نفرت کے اظہار کا فورم بنادیا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میںکانگریس اوراس کے آنجہانی لیڈروں پر سب وشتم کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ کانگریس کن ریاستوں میں کتنی مدتوں سے اقتدار سے باہر ہے۔ سوال یہ ہے اور یہ سوال کانگریس اور راہل گاندھی کو پوچھنا چاہیے کہ وزیراعظم کو کانگریس کی اتنی فکر کیوں ہے، انہیں اس بات کی فکر کیوں نہیں ہے کہ بے روزگاری،مہنگائی اور بھوک نئے نئے ریکارڈ کیوں بنارہی ہے۔ ہندوستان جنت نشان اب دو ہندوستان کیوں ہوتاجارہاہے۔ ملک کی دولت اور وسائل دو ہاتھوں تک ہی کیوں سمٹ رہے ہیں؟ ایوان کوان اور ان جیسے دوسرے درجنوں سوالات کے جواب ملنے چاہیے تھے نہ کہ حقائق اور جھوٹ کی آمیزش سے بنا ہوا خواب ایوان کو سنایا جاتا۔
[email protected]
حقائق اور جھوٹ کی آمیزش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS