مٹی کی اینٹوں سے بنا یہ گھر ٹھنڈا، صاف ستھرا اور پُرسکون تھا۔ شمس اللہ نامی شخص، جن کی ٹانگ سے اُن کا ننھا بیٹا لپٹا ہوا تھا، اپنے گھر آنے والوں کو اس کمرے تک لے گئے جو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس کمرے کے فرش پر بڑا سا قالین بچھایا گیا تھا اور دیواروں کے ساتھ ساتھ موٹے موٹے کشن رکھے ہوئے تھے۔ کمرے کی دیواریں لگ بھگ دو فٹ موٹی تھیں۔ ایک چھوٹی سی الماری تھی جس میں رنگ برنگے گلاس سجائے گئے تھے۔ لیکن یہ خاندان بہت غریب ہے اور ان کے پاس جو کچھ سرمایہ تھا وہ گذشتہ 20 برسوں سے جاری لڑائی کے دوران یا تو تباہ ہو گیا یا لوٹ لیا گیا۔ یہ گھر درحقیقت باہر موجود سورج کی تپش اور گرد آلود ہوا سے بچنے کی جائے پناہ تھا۔ گھر کے اِردگرد مٹی کی بلند دیواریں تھیں، بالکل ویسی دیواریں جو اس علاقے میں موجود کھیت کھلیانوں میں واقع دیگر گھروں کے اردگرد تھیں۔ اِن بلند دیواروں سے اندر جھانکیں تو کچھ افراد روئی کی مزید گانٹھیں بنانے کو تیار تھے۔ شمس اللہ پہلے ہی اپنی کپاس کی گانٹھیں کھیت میں تیار کر چکے ہیں۔
شمس اللہ اپنی والدہ گل جمعہ کے پاس گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کی عمر 65 برس ہے۔ ان کی والدہ نے ایک بڑی سے شال اوڑھ رکھی تھی، وہ چہرے پر ڈلی چادر میں سے جھانک کر بات کر رہی تھیں۔ جب گل جمعہ اپنی اداسی سے بھرپور زندگی کے بارے میں بتا رہی تھیں تو ان کی آواز بہت مضبوط تھی۔ وہ اپنی زندگی کے بارے میں بتا رہی تھیں اور اس جنگ کے بارے میں جس نے اُن سے اُن کی زندگی اور چار بیٹوں کو چھین لیا ہے۔ گل جمعہ کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے چار بڑے بیٹے مارے جا چکے ہیں جب کہ شمس اللہ اُن کے سب سے چھوٹے اور اب اکلوتے بیٹے ہیں، جن کی عمر 24 برس ہے۔ گل جمعہ کا پہلا بیٹا دس برس پہلے ہلاک ہو گیا تھا۔ وہ طالبان جنگجو تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے بیٹے نے طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ امریکہ افغانستان اور اسلام کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
اس کے بعد ان کے تین بیٹے 2014 میں چند ماہ کے وقفوں سے ہلاک ہوئے۔ قدرت اللہ نامی بیٹا ایک فضائی حملے میں مارا گیا جب کہ دیگر دو بھائیوں، ہدایت اللہ اور امین اللہ کو پولیس نے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا اور شمس اللہ کے مطابق ان کے دونوں بھائیوں کی فوج میں جبری بھرتی کی گئی۔ یہ دونوں بھائی بھی بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ اب شمس اللہ واحد ہی زندہ ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ’یہ خدا کا فیصلہ تھا‘کہ وہ خاندان کی ذمہ داری اٹھائیں۔’کیا آپ نے کبھی پانچ خربوزوں کو ایک ہاتھ پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے؟‘شمس اللہ کہنے لگا کہ ’میری زندگی کچھ ایسی ہی ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں یہ ذمہ داری بھی شامل ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی ضیا،جو کہ ایک طالب جنگجو تھا، کی بیوہ کا خیال بھی رکھیں۔‘شمس اللہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے بھائیوں کو آج بھی یاد کرتا ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’جب میرا سب سے بڑا بھائی مارا گیا تو اس کی بیوہ کی شادی میرے دوسرے نمبر کے بھائی سے کر دی گئی، جب وہ بھی مارا گیا تو پھر تیسرے بھائی کے ساتھ بھابھی کی شادی کی گئی، پھر تیسرے کے مرنے کے بعد چوتھے کے ساتھ اور پھر اس کے مرنے کے بعد میں نے بھائی کی بیوہ سے شادی کی۔‘
مارچ 2010 میں مرجا کو امریکی فوج نے اپنے پہلے آپریشن کے لیے منتخب کیا تھا اور اس محاصرے کا حکم صدر اوباما نے دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہاں پر دوبارہ قبضے سے جنگ کا رخ بدل جائے گا اور کابل حکومت امریکہ اور برطانوی فوج اور دیگر اتحادی فوجیوں کے لیے وہاں کام جاری رکھنا ممکن ہوگا۔
مرجا کے علاقے میں کپاس اور پوست کے کھیت غیر ملکی فوج کے لیے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئے۔ امریکی فوج کے کمانڈر میک کرسٹل نے مرجا کو ایک ایسے’السر‘سے تشبیہ دی جس میں سے ’خون بہہ رہا ہو‘۔ یہاں یہ جنگ اگلے دس سال میں کئی بار لڑی گئی۔ گل جمعہ نے مغربی لیڈروں کے لیے طنزیہ انداز میں کہا کہ وہ افغانستان کو لوگوں کے لیے ایک اچھی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان کے مشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ انھوں نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے‘۔ جب میں نے ان سے ان مواقعوں کے بارے میں پوچھا جو خواتین خواتین کے لیے پیدا ہو سکتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ’ان (امریکیوں) کے یہاں موجود ہونے سے ہمارے بہت سے لوگوں کا بہت نقصان ہوا۔ انھوں نے ہمارے شوہروں کو، ہمارے بھائیوں کو اور بچوں کو مار ڈالا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں طالبان کو پسند کرتی ہوں کیونکہ وہ اسلام کی تکریم کرتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ جیسی عورتیں کابل میں رہنے والی عورتوں جیسی نہیں ہیں‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے جب طالبان نے جنگ جیتی تھی تو سب خوفزدہ تھے اب سب نے سکون کا سانس لیا ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔‘
ایک خاندان جو طالبان کی آمد سے خوش ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS