برصغیر کی انگریزی مسلم صحافت کے دو اہم ادارے، ’ کامریڈ اور ریڈیئنس ‘ کی خدمات کا تفصیلی جائزہ : اے یو آصف

0

اے یو آصف
20ویں اور 21ویں صدیوں میں تقسیم وطن سے قبل اور بعد مسلمانوں کے اپنے انگریزی اخبار کے لیے متعدد کوششیں یقینا ہوئیں جن میں ’ کامریڈ ‘ ، ریڈیئنس‘ ، نیشن اینڈ دی ورلڈ‘ ،’ اسلامک وائس‘، ’الرسالہ‘، ’مسلم انڈیا‘، ’ مین ٹائم‘، ’ملی گزٹ‘، ’کریسنٹ‘، ’ مڈ ڈے‘، اور ’ نیوز ٹریل‘ قابل ذکر ہیں۔ ان اخبارات میں ریڈیئنس ، مڈ ڈے اور ابھی حال میں شروع ہونے والا اخبار نیوز ٹریل ہے، جو ابھی بھی شائع ہورہے ہیں۔
پرنٹ کے علاوہ ویب پر بھی ’ ٹو سرک ڈاٹ نیٹ‘ ’ امید ڈاٹ کا م‘ فانا سے آرہا ہے۔ ورچ ڈاٹ کام، ’ مسلم میرر(Muslim Mirror )کا ’ انڈیا ٹو مارو ڈاٹ کام‘ کے علاوہ فانا نے بھی اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ ان میں ریڈیئنس ویوزو یکلی واحد اخبار ہے جو کہ پابندی کے سبب ایمرجنسی (1975-77)کے زمانے کو چھوڑ کر 1963سے مستقل شائع ہورہاہے۔ ابھی حال میں 22اکتوبر 2023کو نئی دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں اس کی 60 سالہ تقریب دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس موقع پر 12ویں نائب صدر جمہوریہ ہند ودانشور محمد حامد انصاری اور بی بی سی کے شہرت یافتہ سینئر صحافی ستیش جیکب کی شرکت اور پر مغز اظہار خیال نے تین گھنٹے کی محفل کو چار چاند لگا دئیے۔ اس تقریب سے یہ خیال ہوا کہ ریڈیئنس کے لمبے سفر اور اس کے مسافروں کے بارے میں کچھ بھولی بسری اہم باتوں کو یاد کیا جائے اور اس کے پیش رو ہفتہ وار ’ کامریڈ‘ اور اس کے عظیم ایڈیٹر محمد علی جوہر کی خدمات کے تناظر میں ہندوستان کی انگریزی مسلم صحافت کے ان دونوں ترجمانوں کا علمی و تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا جائے۔
اس تعلق سے سب سے پہلی انکشافاتی بات تو یہ ہے کہ ’ کامریڈ‘ کے بانی محمد علی جوہر 1878-1931اور ’ ریڈیئنس ‘ کے بانی محمد یوسف صدیقی (1902-1976)استاد اور شاگرد تھے۔ 29اکتوبر 1920کو علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت اولین شیخ الجامعہ محمد علی جوہر کی قیادت میں اے ایم یو سے نکل کر نئی تعلیم گاہ کو جوائن کرنے والے مٹھی بھر طلبا میں محمد یوسف صدیقی شامل تھے ۔ نیز یہ بھی اہم اور چونکانے والی بات ہے کہ یوسف صدیقی نے محمد علی جوہر سے جامعہ میں صرف درس ہی نہیں لیا بلکہ ان سے کامریڈ میں 1924تا 1926بحیثیت سب ایڈیٹر صحافتی تربیت بھی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیئنس کے ٹرسٹ بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز (جی آئی پی)کے پہلے صدر وقیم جماعت محمد یوسف کے دست راست سید حسین الٰہ آبادی کہا کرتے تھے کہ ریڈیئنس کی رگوں میںکامریڈ کا خون بہتا ہے۔ یعنی یوسف صدیقی کی تحریر میں محمد علی جوہر کا علمی وقلمی رنگ پا یا جاتا ہے جو کہ کسی نہ کسی حد تک پروف ریڈر سے ڈپٹی ایڈیٹر بنے سید اوصاف سعید وصفی چند دیگر ادارتی اسٹاف کی تحریروں میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہ تو وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کے استاد اے اے کے سوز جو کہ ایک زمانے میں اپنی پرکشش تحریر اور تجزیہ کے سبب ریڈئینس کے لیے لازم وملزوم بن چکے تھے اور 1985سے مستقل طور پر غائب ہیں، کہا کرتے تھے۔
کامریڈ اور ریڈیئنس کی فائیلوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں میں کتنی یکسانیت اور مماثلت ہے۔ دونوں اخبارات میں واقعات کی ترسیل میں غیر جانبداری ، معروضیت اور مقصدیت کا بڑا اہم عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ دونوں میں سنسنی خیزی کا کوئی مقام محسوس نہیں ہوتا ہے۔ دونوں نے رجحان سازی، رائے سازی اور افراد سازی کے فروغ پر توجہ دی۔ دونوں نے عملی، تحقیقی، وتفتیشی اسٹوریز کور کیں لیکن ان دونوں اخبارات میں بہت سے کامن فیکٹرز یکساں ہونے کے باوجود کچھ فرق بھی ہے۔ تقسیم وطن سے قبل غلامی کے دور میں کامریڈ کے ایڈیٹر محمد علی جوہر میں باغبانہ تیور اور جوش وخروش بھی موجود تھا جوکہ تقسیم وطن کے بعد ان کے تربیت یافتہ ریڈیئنس کے یوسف صدیقی کے اندر قطعی نہیں تھا مگر پر عزم اور دھن کے پکے تھے۔ جب یہ کامریڈ کے دوسرے دور میں سب ایڈیٹر تھے تبھی ان کی موجودگی میں 22جنوری 1926کو کامریڈ کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ محمد علی جوہر کی شدید علالت اور مالی دشواریاں کامریڈ کے بند ہونے کی وجہ بنیں۔
یوسف صدیقی کے نزدیک کامریڈ کا بند ہوجانا اس کی ملکیت کا شاید ذاتی ہونا سمجھ میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1963میں جب انگریزی اخبار نکالنے کا انہیں خیال آیا تو انہوںنے سب سے پہلے ہم خیال افراد کو اعتماد میں لے کر بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز کے نام سے ایک ٹرسٹ بنانے کی تحریک چلائی اور پھراس کے تحت ہفتہ وار اخبار نکالا۔ شروع میں ان کے ذہن میں اخبار کا مجوزہ نام و’ کلیرین کال‘ (Clarian Call)تھا مگر دربھنگہ کے ایک دانشور حاجی عبدالکریم کے مشورہ پر ’ریڈیئنس ‘ کو ترجیح دیا اور وہی نام قرار پایا۔ اخبار کی ملکیت ذاتی نہ ہو کر ٹرسٹ کے پاس ہو نا ہی شاید ریڈیئنس کے از سر نو بحال ہونے کی بات آئی تو ایک برس قبل اس کے بانی یوسف صدیقی کے انتقال کے باوجود کوئی بڑا فرق نہیں پڑا اور ان کی ہی تربیت میں تقریباً دو برس سب ایڈیٹر کے طور پر خدمت انجام دینے والے سید امین الحسن رضوی نے زمام ادارت سنبھال لی اور پھر 1985تک اس میں اپنی پوری صلاحیت جھونک دی اور اسے نام کا نہ سہی لیکن عملاً ’ کلیرین کال‘ بنا دیا۔
بعد ازاں سید یوسف اور فضل الرحمن فریدی نے اسے زینت بخشی۔ فی الوقت اس کے چیف ایڈیٹر اعجاز احمد اسلم اور ایڈیٹر سکندر اعظم ہیں۔ علاوہ ازیں ابتدا سے لے کر اب تک اسے بڑے لائق وفائق ادارتی اسٹاف بھی ملا، ٹھیک اسی طرح جس طرح کا مریڈ کے دونوں ادوار 1911تا 1914اور 1924تا 1926میں اسے بڑا باصلاحیت افراد ملے اور اسے معروضی ومعیاری اخبار ہی نہیں بنا یا بلکہ اپنے زمانہ کا ترجمان بھی بنا دیا ۔
اب آئیے، ذرا جائزہ لیں کہ استاد کے ذریعہ 14جنوری 1911کو کولکاتا سے برصغیر میں کسی مسلمان کے پہلے انگریزی اخبار کامریڈ اور پھر ان ہی کے شاگرد عزیز کے ذریعہ آزاد ہندوستان میں کسی ٹرسٹ کے پہلے انگریزی اخبار ریڈئینس کی وہ کون سی چند منتخب اسٹوریز ہیں جو کہ مثالی اور ناقابل فراموش ہیں ۔ کامریڈ اور ریڈیئنس دونوں ہی نے ابتدا ہی سے ملک کے کچھ انگریزی داں طبقہ میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا تھا۔ ان دونوں میں مختلف نوعیت کے مضامین شائع ہوتے تھے جن کا اپنا ایک معیار ہوتاتھا۔ کامریڈ میں سفرنامہ ، کارٹون، حالات حاضرہ، عالم اسلام اور بعض مستقل کالم آتے تھے، اس کا سب سے مقبول کالم ’ گپ‘ تھا جو کہ کالم حسین انگار ولایت بمبوق لکھا کرتے تھے۔ اس میں ’لنڈن پنچ‘ کے طرز پر مزاح کے پردے میں سماجی وسیاسی موضوعات پر نشتر زنی کی جاتی تھی۔ 14جنوری 1911کے افتتاحی شمارہ میں ایڈیٹر محمد علی جوہر کا متحدہ قومی تصور اور ملک کی مشترکہ وراثت پر شائع مقالہ آج بھی اہمیت کا حامل نظرآتا ہے۔ اسی طرح 28جنوری 1911کے شمارہ میں ہندو مسلم اتحاد پر ان ہی کا مضمون ’ جداگانہ انتخاب‘ بھی زبردست تھا۔ آج بھی کامریڈ (22جولائی 1912)میں محمد علی جوہر کا معرکۃ الآرا مضمون ’ دی لنگوافرینکا آف انڈیا‘ تعلیم یافتہ طبقوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں ملک کی مشترکہ وراثت کے تحفظ اور فروغ کے لیے کشادہ دلی کی تلقین کی گئی ہے۔ آج بھی اصحاب فکر ان کے شاہکار مضمون ’ چوائس آف ترکس‘ (Choice of Turks)کا مختلف تحریروں میں حوالہ دیتے ہیں۔
محمد علی جوہر کی غیر جانبداری کایہ حال تھا کہ مشہور دانشور مائیکل ایڈوائر جن سے کامریڈ کے اجرا سے قبل محمد علی جوہر نے مشورہ لیا تھا اور انہوںنے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی، مدیر محترم نے انہیں بھی نہیں بخشا اور وہی کامریڈ کا سب سے زیادہ تختۂ مشق بنے۔ اصحاب فکر اور صاحب رائے خواہ ان کے مخالف انگریز ہوں یا ہم وطن ، اس اخبار نے سبھوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرلیا تھا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم میک ڈونلڈ اور وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ بھی کامریڈ کے قاری ہوا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو خود محمد علی جوہر کی ایک تحریر: ’’ کامریڈ نے ارباب حکومت کی ایک بڑی اور نہایت مقتدر جماعت کو اپنی طرف مبذول کرلیا تھا۔ لارڈ ہارڈنگ کے نام جو اعزازی پرچہ جاتا تھا اس کو وہ خود ہفتہ بھر ساتھ لیے پھرتے تھے۔ اس لیے بے چاری لیڈی ہارڈنگ نے خود ایک پرچہ دام دے کر اپنے نام جاری کرایا اور ان کے مہمان ولی عہد جرمنی نے بھی دام دے کر اپنے نام پرچہ جاری کرایا۔ اسی طرح رئیس احمد جعفری کی مندرجہ ذیل تحریر سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ ’’ حاکموں، محکوموں، انگریزوں، ہندوستانیوں اور سارے انگریزی داں حلقے میں اس کی دھوم مچی ہوئی تھی کیونکہ کامریڈ قوم کی خستہ حالی کی عکاسی کررہا تھا۔ اس کا اصلی مقصد یہ تھا کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں خود داری کے احساسات میں بیداری پیدا ہواور اس سے وہ انگریزوں کی گرفت سے نکلنے کا راستہ اختیار کریں۔‘‘
جہاں تک ریڈیئنس کا معاملہ ہے ، اس میں بھی ابتدا میں ہرطرح کے مضامین ، رپورٹس او رمخصوص کالم ہوا کرتے تھے ۔ ابتدا میں بانی یوسف صدیقی کا نام ٹرسٹ کے ناظم اعلیٰ اور تمل ناڈو کے اے اے رئوف کا نام اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر گیا تھا۔ پہلے شمارہ مورخہ 28جولائی 1963میں سرورق پر اے اے رئوف کا مضمون’ اینا لسٹ ‘ (Analyst)کے نام سے بعنوان ’’ نہرو مسٹ اسٹے‘‘ (Nehru Musst Stay)اور دوسرے شمارہ میں معروف صحافی محمد مسلم کا مضمون ’’شڈ نہرو اسٹے‘‘(Should Nehru Stay?)بنام ’ کریٹک ‘ (Criticـ)نے سیاست کے گلیاروں میں دھوم مچا دی تھی اور انگریزی کا یہ ہفتہ وارجریدہ موضوع بحث بن گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ’کامراج پلان‘ انہی دنوں منظر عام پر آیا تھا جس کا مطالبہ تھا کہ کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے سینئر لیڈران وزارتوں اور کلیدی عہدوں سے دست بردار ہوجائیں۔ تب اسی کو لے کر پنڈت نہرو کے استعفیٰ کی بات بھی اٹھنے لگی تھی۔ اسی پہلے شمارہ میںمشہور کالم نویس ڈاکٹر عبدالمغنی کے ’’ لیٹ اَس تھینک‘ ‘(Let us Think)پر کالم آئے تھے۔ اے اے رئوف کا مزاحیہ مضمون ’ ’آم، میں اور غالب‘‘ بھی بہت دلچسپ تھا۔ اتحاد بین المسلمین پر ریڈیئنس میں علی میاں ، ابواللیث اصلاحی ندوی ، سعید احمد اکبر آبادی ، محمد مسلم اور ڈاکٹر سید محمود کے ودیگر کے جو مضامین آئے ان سبھی نے کل ہند مسلم مجلس مشاورت اور کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی راہوں کو ہموار کیا۔ 1960کی دہائی میں بپا ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہم آہنگی اور امن پیدا کرنے نیز ریلیف ورک کاماحول بنانے میں بھی اس کا رول اہم رہا۔ ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنے میں پنڈت سندر لعل ایس پی سنہا اور جے پرکاش نرائن ودیگر شخصیات کے مضامین ریڈیئنس نے 1960اور 1970کی دہائیوں میں خوب شائع کیے۔ 1967اور 1973میں اس کے(جنگی نمائندے)شوکت عثمانی نے قاہرہ سے عرب اسرائیل جنگ کی آن دی اسپاٹ رپورٹس بھیجیں جوکہ فرنٹ ہینڈ اطلاع کا ذریعہ بنیں۔
ایمرجنسی کے بعد سید امین الحسین رضوی کی پر مغز تحریریں تعلیم یافتہ طبقے میں بہت مقبول ہوئیں۔ قرون اولیٰ میں خلیفہ ابو جعفر المنصور کے ذریعہ قائم کیے گئے اور 14ویں صدی میں خلیفہ ہارون رشید اور مامون رشید کے زمانے میں مزید ڈیولپ کیے گئے مشہور زمانہ ادارہ بیت الحکمہ، انٹر فیتھ ڈائیلاگ اور حضور اکرمؐ کی جنگی اسکیموں پر ان کے خصوصی مضامین بہت پسند کیے گئے۔ بین المذاہب ڈائیلاگ میں مختلف مذاہب کے دانشوروں اور اہل السرائے نے حصہ لیا۔ ان دنوں ہندو تو آئیڈیا لاگ کے آر ملکانی (KR Malkani)نے اسے بے حد سراہا او کہا کہ ایسے ہی ڈائیلاگ کی مسلسل ضرورت ہے۔ سید اوصاف سعید وصفی نے آدھی صدی سے زائد عرصہ تک ریڈیئنس وابستگی کے دوران متعدد معرکۃ الآرا تحریریں لکھیں جو کہ تجزیاتی لحاظ سے آج بھی بہت اہم ہیں۔
ریڈیئنس نے اپنی ہی دیگر اسٹوریز کے ذریعہ شہرت حاصل کی ہے، ان میں 1987میں ہاشم پورہ سانحہ ہے۔ عیاں رہے کہ ہاشم پورہ اور ملیانہ کے سانحات یکے بعد دیگرے ہوئے تھے۔ جب ملیانہ کے فرقہ وارانہ فساد کی خبر میڈیا میں آنے لگی ، تب یہ محسوس ہوا کہ سانحہ سے متعلق خبریں اور تفصیلات ٹھیک سے نہیں آرہی ہیں۔ اس وقت ریڈیئنس نے اسے جائے وقوع مراد نگر اور ہاشم پورہ جا کر کور کیا اور اسی مقام پر معروف لیڈران ڈاکٹر سبرا منیم سوامی او رمحمد یونس سلیم سے خصوصی انٹرویو لے کر شائع کیے۔ ڈاکٹر سوامی نے اپنے اسی انٹر ویو میں اسے’’ State – Sponsered Genocide‘‘ کہا تھا جسے ایمینٹی انٹر نیشنل نے بھی اپنی رپورٹ میں Quoteکیا۔ ریڈئینس کو ہی یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ اس نے 1936کے اوائل میں ہندوستان میں آئے پہلے روہنگیائی خاندان سے کٹیار جا کر انٹرویو لیا ۔ اسی زمانے میں دہلی کے Slumsاور پرانی دلّی کی تہذیب او رتعمیر کے نمونے تاریخی عمارات اور تجزیاتی اسٹوریز کی گئیں۔ اس زمانے میں ریڈیئنس کے ڈائریکٹر انتظارو نعیم کی ان اسٹوریزکی کوریج او رمختلف ایشوز پر خصوصی شماروں کو نکالنے میں حوصلہ افزائی محرک بنی رہی۔
ماضی قریب میں ریڈیئنس کو ہر سال قومی بجٹ کے وقت خصوصی تجزیہ کے لیے بہت مقبولیت ملی ہے۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر وقار انور کے کئی سال سے قومی بجٹ پر تبصرہ کا قارئین ودیگر افراد کو اسی طرح انتظار رہتا ہے جس طرح نینی پالکھی والا کے تجزیہ کا ملک بھر میں بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔ وقار انور کے بجٹ پر تجزیہ نے ریڈیئنس کو بڑا وقار بخشا ہے۔
ویسے ادھر حالیہ برسوں میں آن دی اسپاٹ تحقیقاتی اور تفتیشی رپورٹوں اور مضامین کا اس میں فقدان محسوس ہونے لگا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور معروضی مضامین کے ساتھ ’ ابرہ کا ڈابرہ‘ ودیگر مزاحیہ کا لمز پھر سے شروع کیے جائیں۔ ایک زمانہ تھا جب نوجوان طبقہ اس میں کشش محسوس کرتا تھا مگر اب ان کی دلچسپی کے مواد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان سب کمیوں کے باوجود ہ بہت غنیمت ہے کہ انگریزی ہفتہ وار پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ استاد محمد علی جوہر کے شاگرد عزیز محمد یوسف صدیقی کا ٹرسٹ کے ذریعہ یہ تجزیہ ملک وملت کی تعمیر میں خاص اہمیت کا حامل اور سرگرم عمل ہے۔
(مضمون نگار انگریزی اردو کے سینئر صحافی ہیں اور طویل عرصہ تک ریڈیئنس سے وابستہ رہے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS