جلد تلاش کرنا ہوگا علاج

0

انیردھ گوڑ
موسم تبدیل ہوا تو تمام بچے، بزرگ ہوں یا نوجوان ہر کوئی سردی، کھانسی ، زکام، سردرد اور بخار وغیرہ امراض کی زد میں آرہے ہیں۔ اس کے پیچھے ایچ این وائرس کی وبا بتائی جارہی ہے۔ اب ہندوستانی سارس-کوو-2جینومکس کنسٹورٹیم(آئی این ایس اے سی او جی) کے اعداد و شمار میں یہی دعویٰ کرنا کہ ملک میں 76نمونوں میں کورونا وائرس کی نئی شکل ایکس بی بی 1.16سے لوگ متاثر ہیں۔ یہ تھوڑی تشویش کی بات تو ضرور ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وجہ سے بھی ملک میں کورونا کے معاملات میں اضافہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ گزشتہ 126دنوں کے بعد گزشتہ ہفتہ کو ایک دن میں سب سے زیادہ 843معاملات سامنے آئے ہیں۔
مرکزی وزارت صحتIntegrated Disease Surveillance Programme(آئی ڈی ایس پی) نیٹ ورک کے ذریعہ سے ملک میں بڑھ رہے کورونا اور ایچ3این2وائرس کے سبب ہریانہ اور کرناٹک میں دو لوگوں کی موت کی تصدیق نے بھی لوگوں کو زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت کے تئیں الرٹ کیا ہے۔ حالاں کہ یہ موسمی انفلوئنزا وائرس کی ہی ایک شکل ہے۔ لیکن پھر بھی جب معاملات میں اضافہ ہوتا ہے تو تشویش کی باتیں تو واجب ہی ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں پورا عالم کووڈ وائرس سے اُبھرا ہے اور اب آہستہ آہستہ لوگ اس وائرس سے نجات محسوس کررہے ہیں۔ لیکن دسمبر میں سردی کے بعد موسم کیا تبدیل ہوا کہ اچانک سردی زکام، کھانسی، گلے میں خراش، ناک بہنا، بدن درد اور بخار جیسی علامات والے امراض نے لوگوں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب موسم کا جوائنٹ آتا ہے یعنی جب سردی سے گرمی یا گرمی سے سردی میں موسم بدلتا ہے تو لوگوں کی تھوڑی سی لاپروائی سے سردی، زکام، گلاخراب، چھوٹا موٹا سردرد، ناک بہنا اور بخار جیسی بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ لیکن کچھ ہی دن میں عام دواؤں سے تھوڑی سی احتیاط برت کر لوگ ٹھیک ہوجایا کرتے ہیں، لیکن اس بار موسم بدلا تو لوگ سردی، زکام، کھانسی، گلا خراب، بخار جیسی موسمی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ تشویش کی بات تب ہوئی جب تمام کوششوں کے باوجود لوگوں میں یہ مرض کافی دن تک چل رہے ہیں۔ کسی کو کووڈ جیسی علامات بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن راحت کی بات ہے کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر) نے تصدیق کی ہے کہ انفلوئنزا سب ٹائپ ایچ3این2کی وجہ سے یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ وزارت صحت کے موسم انفلوئنزا اپ ڈیٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمی انفلوئنزا ایک شدید سانس کا انفیکشن ہے۔ جو انفلوئنزا وائرس کے سبب ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہر سال یہ دو مرتبہ سب سے زیادہ درج ہوتے ہیں۔ پہلا جنوری سے مارچ اور دوسرا مانسون کے بعد کے موسم میں۔ مارچ کے بعد موسمی انفلوئنزا کے معاملات میں کمی آنے کی امید مرکزی وزارت صحت بھی الرٹ ہوگیا ہے اور موسمی انفلوئنزا ایچ3این2 سب ٹائپ کے معاملات کی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔ روک تھام کے لیے احتیاط پر آئی سی ایم آر کے ذریعہ ایڈوائزری بھی جاری کی گئی ہے۔ حال ہی میں جاری آئی سی ایم آر نیٹ ورک کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سال 2023کے پہلے 9ہفتہ کی مدت کے دوران معاملے بڑھے ہیں۔ داخل مریضوں میں ایچ3این2وائرس کی وجہ سے 92فیصد کو بخار، 86فیصد کو کھانسی، 27فیصد کو سانس لینے میں تکلیف، 16فیصد کو سانس میں گھرگھراہٹ اور 6فیصد کو نمونیہ وغیرہ کی علامات ملیں۔ ہندوستان میں انسانی انفلوئنزا وائرس اور سارس-سی او وی وائرس کا پتہ لگانے کے لیے انفلوئنزا جیسے مرض (آئی ایل آئی) اور سنگین تیز سانس کی بیماری (ایس اے آر آئی) کی ایک مربوط نگرانی 28مقامات سے تشکیل آئی ایل آئی یا نگرانی نیٹ ورک کے توسط سے ہورہی ہے۔ اس وائرس کے تئیں ایڈوائزری بھی جاری کی گئی ہے۔ ایمس دہلی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ ان دنوں انفلوئنزا کے کیس بڑھ رہے ہیں۔ اس میں بخار آنا، کھانسی، کف، بدن درد اور ناک بہنے کی شکایت رہتی ہے۔
ایچ3این2انفلوئنزا وائرس کی ہی ایک قسم ہے۔ ہر سال ان دنوں ابھرتی ہے۔ یہ وائرس اپنی شکل بھی بدلتا رہتا ہے، جسے اینٹی جنک بہاؤ بھی کہتے ہیں۔ کووڈ کی طرح ڈراپ لیٹس سے پھیلتا ہے۔ وہیں کورونا کے معاملات میں اضافہ کی وجہ کورونا کی نئی شکل ایکس بی بی 1.16بھی ہوسکتی ہے۔ بھیڑ میں ہم کووڈ پروٹوکول پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ اس وجہ سے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ زیادہ گھبرائیں نہیں۔ وزارت صحت کے مطابق Integrated Disease Surveillance Programme(آئی ڈی ایس پی)کے انٹیگریٹڈ ہیلتھ انفارمیشن پلیٹ فارم(آئی ایچ آئی پی) پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ریاستوں کے ذریعہ مارچ 2023تک ایچ3این2سمیت انفلوئنزا کے مختلف سب ٹائپ کے 3038معاملات کی تصدیق کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں لیکن احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS