حکمت و بصیرت:گفتگو کا اہم اصول اور بنیادی اسلوب

0

مولانا ابوبکر حنفی

دور ِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ معاشرہ دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے ،جرائم کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے،انسانی اوصاف اور اسلامی اقدار سے امت کوسوں دور جا چکی ہے،باہمی رویوں میں شدت اور تلخی کا عالم یہ ہے کہ معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر دیرینہ تعلقات اور رشتہ داری کے تقدس کو پامال کر دیا جاتا ہے اور طویل تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ،ایک دوسرے کا احساس کرنے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کی روایتیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔’’ہٹو بچو ‘‘کے شور اور مادیت کی دوڑ میںبلا تفریق ہر ایک کو ہم روندتے چلے جا رہے ہیں ۔گالی گلوچ،بد زبانی ،بد گمانی ،جھوٹ،فریب ،ظلم و زیادتی ،حق تلفی اور عدم ِ برداشت جیسے اخلاق ِ رذیلہ ہمارا شعار بن چکے ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا امت میں واعظین کی کمی ہے؟کیا علم و دانش کی درسگاہیں مقفل ہو گئی ہیں ؟کیامنبر و محراب کے سب وارثین اورمسند نشیںکسی اور جزیرے میں جا کر آباد ہو گئے ہیں؟ایسا ہرگز نہیں ہے،ناصحین کی بھی بہتات ہے،مبلغین بھی بے شمار ہیں ،تلقین و ارشاد کی مسندوں پر جلوہ افروز رہبران ِ امت بھی ہر خطے اور ہر طبقے میں موجود ہیں ،پھراصل معمہ کیا ہے؟
معاشرے کی اس گرتی ہوئی ساکھ کا سبب کیا ہے؟ حقائق کی روشنی میںاور گردو پیش کے ماحول کی معروضی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ وعظ و نصیحت کے جو بنیادی اصول تھے اور سامعین سے گفتگو کی جو اسلامی ہدایات تھیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں کی تقریں اور طویل ترین لیکچرز سامعین کو متاثر کرنے میں ناکام ہیں،لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ گفتگو سے پہلے اس حوالے سے قرآنی ارشادات اور نبوی تعلیمات کو مدِ نظر رکھا جائے۔
گفتگو کا حکیمانہ اسلوب: گفتگو کا سب سے اہم اور بنیادی اصول حکمت و بصیرت ہے۔قرآن ِ کریم میں ارشاد باری تعالی ہے’’ (اے پیغمبرؐ) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیے اوران سے اس طریقے سے بحث کیجئے جو نہایت عمدہ ہے‘‘ (النحل: ۱۲۵) حکمت و بصیرت کا لفظ اپنے معنی اور مفہوم میں بہت وسعت رکھتا ہے ،اس کے عموم میں بہت سی چیزیں شامل ہیں اور اس کے بہت سے تقاضے ہیں ۔حکمت و بصیرت کے کیا تقاضے ہیں ؟ آئیے !قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر ایک واقعاتی اور مطالعاتی نگاہ ڈالتے ہیں۔
اخلاص نیت : حکمت و بصیرت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ واعظ کی نیت میں اخلاص ہونا چاہئے،اس کے پیش ِ نظر صرف یہ بات ہو کہ لوگ راہ ِ راست پر آجائیںاور اعتقادی اور عملی طور پر ان کی اصلاح ہو جائے ،اس طرح یہ عمل میرے لئے صدقہ جاریہ بن جائے،خدانخواستہ اگر اس کا ارادہ یہ ہو کہ لوگ میرے اندازِ گفتگو اور حسنِ بیان کی تعریف کرتے ہوئے واہ واہ کہیں،میرے علم و فضل کی داد دیں ،میں شہرت اور ناموری کے بامِ عروج تک پہنچ جاؤں،میرے مریدین اور متعلقین کی تعداد میں اضافہ ہو جائے اور نذرانوںکی گھٹریاں میری دہلیز تک پہنچنا شروع ہو جائیں تو یقین کیجئے ! کہ آپ کی یہ تقریریں نہ صرف یہ کہ غیر مؤثر ، بیکار اور ثواب سے خالی ثابت ہوں گی بلکہ نیت کی خرابی کی وجہ سے آپ کے لئے وبالِ جان بنیں گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں ایسے واعظ کے لئے قیامت کے دن حسرت کا مقام ہو گا کہ اس کے سامعین اس کی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے جنت کے حق دار قرار پائیں گے اور یہ خود جہنم کا ایندھن بنے گا۔
موقع کی مناسبت کا لحاظ:حکمت و بصیرت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ گفتگو موقع اور محل کی مناسبت سے ہونی چاہئے،جس بات کے کرنے میںواعظ اس بات کا اندیشہ محسوس کرے کہ اس سے لوگوں میں بحث کا ایک غیرضروری سلسلہ شروع ہو جائے گااور وہ تعمیری سوچ رکھنے کی بجائے اس کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو ایسی چیز کے بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے
مخاطب کی عزت ِ نفس کا لحاظ :حکمت و بصیرت کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اپنے وعظ و بیان میںعمومی اصلاح کی بات کی جائے اوراگر کسی معاشرتی خرابی کی اصلاح مقصود ہو تو متعین طور پر کسی شخص کا ذکر کر کے اس کے گناہ کا تذکرہ نہ کیا جائے،ورنہ آپ کا یہ طرزِ بیان اس سامع کو نصیحت سے بہرہ ور ہونے کی بجائے اس کے دل میں آپ کی نفرت پیدا کر دے گا اور وہ شخص آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات ِ مبارکہ کے مطالعہ سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اصلاح ِ احوال کے جذبے سے نصیحت تو کی جائے لیکن کسی کے عیوب کو آشکار کر کے اس کی فضیحت نہ کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اثناء وعظ میں بسا اوقات یہ جملہ ارشاد فرماتے ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسے ایسے کرنے لگ گئے ہیں‘‘۔حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک شخص زنا کا ارتکاب کر کے آیا ،آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی قلبی بصیرت نگاہِ دل سے اس کو پہچان لیا تو فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جن کی آنکھوں سے زنا ٹپکتا ہے ‘‘۔آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکیمانہ طرزِ گفتگو سے اس کو تنبیہ بھی ہو گئی اور اس کا عیب بھی صیغہ راز میں رہا۔
۴۔مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ
حکمت و بصیرت کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور عقلی سطح کے مطابق اس سے بات کی جائے،اگر وہ ایسا سادہ لوح آدمی ہے جو فنی اصطلاحات اورعلمی نکات سے واقف نہیں تو اس کے سامنے ایسی چیزوں کو بیان نہ کیا جائے ،بلکہ سادہ طرزِ تخاطب اور عام اندازِ تکلم سے اس کوسمجھایا جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھ کر ان سے سلوک کرو اور ان کی عقلوں (کی وسعت ) کے مطابق ان سے کلام کرو‘‘۔اس سلسلہ میں علاقائی زبان مرائج محاور ات اور ضرب الامثال کا استعمال بہت زیادہ مفید اور بات کی تفہیم میں معاون اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
۵۔اختلاف کے وقت شائستگی
حکمت و بصیرت کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو بیان اور دوسرے کے موقف سے اختلاف کرتے وقت تہذیب،شائستگی اور وقار کو ملحوظ رکھا جائے،اختلاف ذات سے نہیں ،بات سے اور ذلیل کر کے نہیں ،دلیل دے کرکیا جائے۔یہی نبوی طرز اور قرآنی حکم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’( اے پیغمبر ) ان (یہودیوں ) سے اچھے طریقے سے بحث کیجئے ‘‘ (النحل ) اندازہ کیجئے ! یہودی جو غیر مسلم ہیں ان سے مناظرہ اور مباحثہ کرنے کے لئے احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے تو ایک مسلمان شخص سے گفتگو میں اچھا رویہ رکھنے کی کس قدر تاکید ہو گی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS