’کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل ‘

0

عزیز قریشی
سابق گورنر اتراکھنڈ ، اتر پردیش، میزورم
سالارِ قوم، مفکرِ ملت ، ایک لاثانی محدث و مقرر، عظمتِ ہند، حکمتِ ہند، طہارتِ ہند اور تقدسِ ہند حضرت مولانا رابع ندوی صاحب کا پردہ کر لینا ساری ملتِ اسلامیہ کو یتیم کر گیا ہے اور یہ ہمارا ایک ایسا مذہبی ، سمای ، ادبی اور دانشوری کا نقصان ہے جو آنے والے کئی سالوں تک پورا نہیں ہو پائے گا۔ حضرت مولانا رابع ندوی مرحوم نے جس طرح سالارِ اعظم کی حیثیت سے مسلم پرنسل لا بورڈ کی قیادت کی اور ملت کی رہنمائی کی اس کا نعم البدل مل جانا آسان کام نہیں ہے ۔۔۔ ان کی بے پناہ خداد د صلاحیت، ان کا علم و دانش اور ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں کا ایسا سحر تھا جس نے ساری ملت اسلامیہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور بھرپور اندھیر ی راتوں میں جب مایوسی کے بادل اپنی گھن گرج کے ساتھ ساری قوم کو مایوس کر دیا کرتے تھے اس وقت ان کی قیادت چاروں طرف پھیلے ہوئے اندھیرے میں بجلی کی ایک کرن کی طرح تھی جو گہرے اندھیروں کا سینا چیر کر ایک نئے سورج کو طلوع کرلایا کرتی تھی اور ساری قوم کو صحیح راستہ مل جاتا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سر جھکا کر زمین پر ٹکّریں مارنے کے بعد بھی ایسا نہیں لگتا کہ کوئی دوسری ہستی اس نقصان کی تلافی کر دے ۔
حضرت مولانا رابع صاحب مرحوم نے جس طرح مشکل ترین لمحات میں مسلم پرنسل لا بورڈ کی قیادت کی ہے اور اس کی یکجہتی کو قائم رکھا ہے اس کے لئے مستقبل کے مؤرخ جب اپنا قلم اٹھائے گا اور ان کے کارناموںکو صفحۂ قرطاس پر ناموس کرے گا، تو اس کی اپنی پیشانی جگمگانے لگے گی ۔ حضرت مولانا رابع صاحب مرحوم جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے اور جتنے بھی وقت تک وہ اپنی برکت، دانشوری ، قیادت اور مذہبی رہنمائی سے دنیا کے اندھیرے کونوں میں روشنی کی کرنیں بکھیرتی ہیں وہ تاریخ کا قابلِ فخر سرمایہ بن جاتے ہیں اور سالہا سال تک ملت کی رہنمائی کرتے ہیں یہ ہم سب کا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے کہ حضرت مولانا رابع صاحب مرحوم کے بتائے ہوئے راستے پر اور ان کے اصولوں پر ہم قائم رہیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی یکجہتی اور اتفاق کو حضرت مولانا رابع صاحب کی امیدوں کے مطابق قائم رکھیں اسی میں ساری ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود منحصر ہوگی ۔ کچھ مہینے پہلے میں شدیدبیمار ہو گیا تھا اور دہلی کے ویدانتہ ہسپتال میں تقریباً دو ہفتے زیر علاج رہا تھا جب میں آئی سی یو میں نازک حالت میں تھا اس وقت حضرت مولانا رابع صاحب کا ٹیلی فون آیاا ور انہوں نے میری صحت اور زندگی کی دعا کی ، اس کے فوراً بعد ہی مولانا ارشد مدنی صاحب کا بھی ٹیلی فون آیا اور انہوں نے بھی میری صحت و زندگی کی دعا کی حالانکہ آئی سی یو میں مجھے فون رپر بات نہیں کر نے دی گئی لیکن ان کے پیغامات مجھ تک پہنچا دیئے گئے ۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ میری بے مصرف اور بے کار زندگی اور ان عمرِ رواں کے رائیگاں ماہ و سال دنیا میں کچھ بھی نہیں کر سکے اور ساری زندگی بے کار گئی اس لئے اب جو بھی زندگی کے سال بچے ہوئے ہیںتو انہیں حضرت مولانا رابع ندوی اور حضرت مولانا ارشد مدنی جیسے ملت کے قائدین کو بخش دے تاکہ میری بے کار زندگی کسی کام آ سکے ۔
حضرت مولانا رابع ندوی کی رحلت ساری قوم کا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے اور آج ہندوستان میں مسلمانوں پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں اورموجودہ حکمرانوں کی جماعت اور قیادت ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہب ، تاریخ ، ثقافت، سیاست اور عظیم ا لشان ماضی کو مٹا کر چاہتی ہے کہ اسپین کی طرح مسلمانوں کا نام و نشان ہندوستان سے مٹا دیا جائے اور ان پر ہر طرف زندگی کے ہر شعبے میں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور انہیں سیاسی ، تعلیمی ، سماجی اور معاشی طور پر ایک مردہ قوم بنانے کی تیاری کی جاری ہی ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اپنے ایمان کی روشنی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر امتحان کا بہادری سے مقابلہ کرنے کو ہمیشہ تیار رہنا ہے مسلمانوں سے زیادہ ملک کی وفادار ہندوستان میں دوسری قوم نہیں ہو سکتی اور مادرِ وطن کی پکار پر ملک کا ہر ایک مسلمان اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دے گا اور اپنی آخری سانس تک ملک کی سا لمیت ، جمہوریت اور سارینٹی کی حفاظت کرے گاور ہر حملہ آور کو چاہے و ہ پاکستان ہو، چین ہو اور کوئی ملک ہو اپنے ملک میں قدم نہیں رکھنے دے گا۔
حضرت مولانا رابع ندوی مرحوم کے بتائے راستے پر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں خود سے نہ کوئی شر انگیزی کریں نہ اشتعال انگیز تقریریں کریں اور نہ ہی بھڑکانے والی کوئی تحریریا بیان دیں اگر شر انگیز اور فسادی افراد ان پر حملہ کریں ، ان کی مسجدوں اور دوسرے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچائیں ،ان کے کاروبار اور جائیداد کو آگ لگائیں یا ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ ظلم کریں اور بے حرمتی کریں تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس شر انگیزی کا جواب نہیں دے اور اسے ٹالنے کی کوشش کرے لیکن اس کے بعد بھی پانی سر سے گزر جائے اور مسلمانوں کے قرآن ِ پاک ایمان اور مذہب کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ، ان کا کاروبار اور گھروں کو آگ لگا دی جائے ان کی خواتین کی بے حرمتی کی جائے اور ان کے بچوں کو قتل کر دیا جائے تو پھر مجبوراً ساری ہی مسلم آبادی کومتحد ہو کر اسی زبان میں حملہ آوروں اور آتنک وادیوں کو جواب دینا چاہئے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے ۔۔۔۔ سالارِ اعظم حضرت ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘ اس لئے جب پانی حد سے گزر جائے تو مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہننا چاہئے بلکہ اس ظلم اور غارت گری کا مقابلہ کرنے کے لئے تلوار ہاتھ میں اٹھانا چاہئے ۔۔۔۔ کیا ہوا اگر بائیس کروڑ کی آبادی میں سے دو چار کروڑ لوگ اپنی ملت کی عزت و ناموس کے لئے شہید بھی ہو گئے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو آج بڑے سخت امتحان کا سامنا ہے اور وہ تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہوئے اِ ک نئی تاریخ کو مرتب کرنے کے لئے کمر کس چکے ہیں ۔ نہرو کا ہندوستان اب بھی انکا آئیڈیل ہے اور جواہر لال نہرو دائمی طور پر انکے ہیرو ہیں اور رہیں گے ۔ا ور انھیں کے دکھائے ہوئے راستہ پر چل کر ہندوستان کے مسلمانوں نے ملک کی وفاداری کی قسم کھائی ہے اور اسکی سا لمیت ،جمہوریت اور حفاظت کے لئے اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہا دینے کو اور آخری سانس تک مادرِ وطن کی سرحدوں کی حفاطت کا حلف اٹھایا ہے ۔ اور عہد کیا ہے کہ وہ نہرو کے خوابوں میں رنگ بھر کر اسکی تعبیر تلاش کریں گے اور ہندوستان کی تاریخ کے اوراق پر اپنے خون پسینہ، آنسوئوں اور محنت کی ایک نئی تاریخ لکھ دینگے ۔
لیکن افسوس کی بات یہ کہ نہرو کے جانشین اور ملک کی دوسری سیکولر طاقتیں جواہر لال نہرو کے عزائم آہنی اداروں اور فرقہ پرست طاقتوں کو شکست فاش دینے کے تمام اعلانات کو بھول گئے ہیں اور سافٹ ’’ہندوتو‘‘ کے ایجنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں یا دماغی طور پر اس سے ڈر گئے ہیں ۔ مسلمانوں کو خاص طور پر کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور اسی طرح کی تمام سیکولر پارٹیوں سے شکایت ہے جو جائز ہے ۔ یہ تمام پارٹیاں اور ان کے لیڈر اور قائد آج فرقہ پرست طاقتوں کے ڈر سے اپنا منھ ہند کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کی جائز مانگو ںاور انکے تحفظ کے لئے اپنی آواز اٹھانا بند کر دیا ہے ۔ لیکن ایسی تمام پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو یقینی طور پر یہ جان لینا چاہئے کہ ہندوستان کا مسلمان ان کا غلام نہیں ہے ۔ نا بندھوا مزدور ہے اور نہ ہی پیٹھے کا مزدور جو ان کی غلامی کرتا رہے ۔ ہندوستان کا مسلمان اور خاص طور سے نوجوان راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی ور اکھلیش یادو جیسے لیڈران سے خاص طور سے مایوس اور دلبرداشتہ ہیں کہ ان کی طاقتور آوازیں آخرمسلمانوں کا تحفظ کرنے میں کیوں خاموش ہیں ۔ میں ان تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو یہ وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اسی طرح اپنا منھ بند رکھا اور ’’ہندوتو‘‘ کے ڈر سے اپنی آواز دبائے رکھی تو ممکن ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دے ۔ کیونکہ عملی طور پر زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں میں آج زیادہ فرق نہیں دکھتا ہے ۔ مسلمان ایک وفادار اور پر امن ہندوستانی کے روپ میں اپنی تقدیر اور مستقبل کی آخری لڑائی لڑنے کو تیار ہے چاہے اس کے لئے اسے اپنے خون سے مادرِ وطن کی نئی تاریخ مرتب کرنے کے لئے اپنے خون سے تاریخ کے اوراق کو کیوں نہ آراستہ کرنا پڑے ۔
ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے ملک سے وفاداری ، خود داری، یقین محکم ، عمل پیہم اور جان و مال و عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے اگر بچے بچے کو شہید ہونا پڑے تو اس کے لئے تیار رہنا چاہئے اوراس قربانی کا خیر مقدم کرنا چاہئے ۔ میں قائدِ ملت حضرت مولانا رابع ندوی صاحب مرحوم کے قدموں میں سر جھکا کر اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ ان کے بتائے ہوئے راستے کو اپنائے اور اسے اپنی زندگی کا عمل بنا لے ۔ آمین

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS