ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس
ٹین ایج یعنی وہ عمر جسے لڑکپن ، نوعمری یا عنفوان شباب بھی کہا جاتا ہے، اس عمر میں بچوں کے مسائل بچپن اور بالیدگی (Maturity) کے بعد کی عمر سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔بچے بچپن سے بلوغت کی طرف سفر کرتے ہوئے کئی مسائل سے گزررہےہوتے ہیں، انہیں والدین کی جانب سے خصوصی توجہ اور سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔خود بچوں کے لیے بھی یہ مراحل ان کے قوی ٰکو کمزور کردیتے ہیں، کیونکہ وہ مختلف جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی الجھنوں، جذباتی و سماجی رویوں کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ۔اس دوران والدین اور بچوں کے درمیان کے تعلقات کمزور ہوجاتےہیں،بات بات پر الجھنے لگتے ہیں، اپنی الجھن اور جذباتیت کو برداشت کرنا بچوں کے لیے بھی مشکل ہوتا ہے ۔ان کے اس تکلیف دہ وقت کو والدین اپنی جانب سے آسان بنا سکتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی اس عمر کے عمومی مسائل کو جاننا چاہیے ،تاکہ وہ اپنا رویہ ترتیب دے سکیں ۔
ابتدائی بلوغت کے مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟ اس پر لکھتے ہوئےڈاکٹر تھیوڈور کریمر ، سینٹ لوئس، مسوری کے ایک بورڈ سے تصدیق شدہ ماہر اطفال کہتے ہیں:’’ بہت سے عوامل ہیں جو نوعمروں کو متاثر کرتے ہیں، بشمول جسمانی، جذباتی، علمی، اور سماجی تبدیلیاں جو بلوغت کے دوران ہوتی ہیں۔ جسمانی تبدیلیاں اکثر تجسس اور اضطراب کا باعث بنتی ہیں اور خود اعتمادی کو متاثر کرتی ہیں۔ سماجی عوامل ان کی آزادی کی جستجو میں اضافہ کرتے ہیں۔ دماغ کے فرنٹل لاب میں تبدیلیاں نوجوانوں کی زیادہ تجریدی سوچ اور پیچیدہ فیصلوں کا سبب بنتی ہیں۔ بلوغت کے دوران ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے نوجوان اکثر جذباتی ہوتے ہیں۔ ‘‘
بچوں کا یہ دورانیہ بچوں اور والدین دونوں کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس عمر کے مسائل سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ والدین بچوں کی اس عمر کے مسائل کو سمجھیں ،اور بہت صبر کے ساتھ اس عمر کے نکلنے کا انتظار کریں ۔اگر والدین بچوں کی نو عمری کے اس دورانیہ سے پہلے بچے کے ارتقاء کو جان لیں تو وہ بہتر طریقے سے ان کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ہارمونز کی سطح کی تبدیلی کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں ہوتی ہیں، بچے اسے سمجھ نہیں پاتے اور الجھن محسوس کرتےہیں۔ ایسی حالت میں وہ اپنے ہم جماعت اورہم عمر بچوں کی صحبت میں یا تو احساس کمتری کے شکار ہوتےہیں یا احساس برتری کے۔اس دور میں جسمانی تبدیلیاں بہت تیزی کے ساتھ ہر دو صنف میں ہوتی ہیں۔لڑکوں کو بات بے بات غصہ آتاہے ،وہ چاہتےہیں کہ بڑوں کے درمیان بیٹھ کر بالکل بڑوں کی طرح گفتگو کریں، اپنے آپ کو منوائیں، ان کی بات سنی جائے ،اور والدین کے نزدیک ابھی وہ ناتجربہ کار بچے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں میں جلدی رونا آنا یا اپنی بات منوانے کی کوشش کرنا ،اپنی مرضی سے کچھ کرنے کی خواہش ہوتی ہے، وہ اپنی مرضی سے دوست بناتی ہیں، ہم عمر ساتھیوں کی نقالی ہر دو صنف کا خاص وصف ہے ۔اسی لیے اس وقت ہم عمر بچوں کا ایک ہم مزاج گروہ وجود میں آتا ہے ۔
طرز عمل میں تبدیلی:اس عمر میں بچوں کے طرز عمل میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ والدین ان کے بدلتے رویے کو دیکھ کریہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بچہ وقت کے ساتھ بگڑ رہا ہے، یا یہ محسوس کرتے ہیں کہ بچے کی صحبت اچھی نہیں ہے، اس تبدیلی کو وہ صحبت کا اثر کہتے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے مصنفہ شوبھا بھاگوت ‘جوبچوں کی نفسیات کی ماہر ہیں- لکھتی ہیں کہ’طالب علمی کے دور میں کالج کی ایک لڑکی سے میری دوستی ہوگئی ، اس لڑکی کے متعلق لوگوں کے خیالات اور تاثرات کچھ اچھے نہیں تھے، میری والدہ کی سہیلیاں انہیں کہا کرتی تھیںکہ تم اپنی بیٹی کو سنبھالو، اس لڑکی سے دوستی ختم کرنے کے لیے کہو۔ وہ بھی غلط راہ روی کا شکار ہو جائے گی ، میری والدہ نے انہیں جواب دیا تھاکہ مجھے اپنی بیٹی پر اعتماد ہے، وہ اپنی سہیلی کی اصلاح کرے گی اور خود غلط راہ پر جائے گی بھی نہیں، یعنی کہ انجانے میں ہی انہوں نے مجھ پر اپنی خود اعتمادی جتا کر ایک ذمہ داری سونپ دی تھی۔‘‘
نوعمری میں بچوں کے طرز عمل اور رویے کی تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قبول کریں اور ان کو احساس دلائیں کہ وہ انہیں ایک ذمہ دار انسان سمجھتے ہیں ۔ بچوں کو یہ احساس رہنا چاہیے کہ ان کے والدین کی نگاہ میں ان کی بڑی قدر ہے ۔یہی احساس بچے کو اپنی الجھنوں کے اس دور میں مددگار بنتا ہے ۔
نشہ کی عادت:ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ڈی سی کے مطابق : الکحل ، چرس ، تمباکو ، سگریٹ ، عام طور پر نوعمروں کے ذریعہ استعمال ہونے والے مادے ہیں ۔یہ عادتیں بھی اپنے ساتھیوں کی نقالی میں اختیارکی جاتی ہیں یا ہلکی پھلکی الجھن کو بھی وہ مینیج کرنا نہیں سیکھ پاتے اور فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے سگریٹ پینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔نوعمروں کی ان عادات کی سب سے بڑی وجہ ذہنی دباؤ ہے ۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحبتوں پر توجہ دیں ، ان بچوں کی بدلتی عادات پر توجہ دیں ۔اکثر والدین بچوں کا ویڈیوگیم کھیلتے گھنٹوں گزارنا بہت نارمل سمجھتے ہیں ،جبکہ ایک جگہ بیٹھنے اور فزیکل کام کم کرنے سے ذہنی دباؤبڑھتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ دباؤ بچے کواینگزائٹی اور مایوسی کا شکار بناتا ہے۔
والدین کی پہلی کوشش یہ ہو کہ بچے پر غیر محسوس طریقے سے نظر رکھیں، اس خیال سے کہ آیا بچے کو آپ کی ضرورت تو نہیں ہے ۔اگر بچہ اس عمر میں منشیات کا عادی ہوچکا ہے تو اسے مار کرتنبیہ کے بجائے کوشش کی جائے کہ اسے کسی ڈاکٹر یا نشہ مکتی کیندر کی مدد سے عادت سے باز رکھا جائے۔یاد رکھیں! بچے کی کسی بھی کمزوری پر اس کی تذلیل کرنا یا اس کے ساتھ سخت رویہ روا رکھنا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔اس کی عادت چھڑوانے کی خاطر خواہ کوشش بھی ہو، اور اس کو آپ اعتماد بھی بخشیں ۔وہ عادت چھوڑ دے تو اس کے عزت نفس کا احترام اتنا ہوکہ اسے غلط عادت کا کبھی طعنہ نہ دیا جائے ۔
نفسیاتی مسائل:نوعمری میں بچوں کےنفسیاتی مسائل کا تناسب عمر کےدیگر مراحل کے مقابل زیادہ ہے۔ نفسیات کے عارضوں میں سے تقریباً 50 فیصد، 14 سال کی عمر میں شروع ہوتے ہیں۔ درحقیقت، نوعمروں میں ہونے والی اموات میں سے ایک تہائی خودکشیاں ہوتی ہیں، جو ڈپریشن کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ اگر آپ کا بچہ بہت زیادہ موڈی ہے اور بالکل نہیں کھا رہا ہے اور نہ ہی سو رہا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ آپ اس کے لیے کسی کاؤنسلر کی باضابطہ مدد لیں۔جوانی کے دوران دیکھے جانے والے سب سے زیادہ عام ذہنی صحت کے عارضے میں بے چینی اور موڈ کی خرابی ہیں۔ سماجی فوبیا اور گھبراہٹ کے عوارض اس عمر کے گروپ میں عام ہیں۔ لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں ڈپریشن کے عوارض کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ رکھتی ہیں۔
نوعمروں کو خود اعتمادی یا اعتماد کے مسائل ہوسکتے ہیں۔ کمتری یا برتری کے جذبات اکثر ان کی ظاہری شکل اور قبول صورت نہ ہونے سے ہوسکتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ ملنے سے برتری کا شکار ہونا اور لوگوں کے نظر انداز اور قابل اعتناء نہ جاننے سے کم تری کا شکار ہونا، نوعمری کے عام مسائل ہیں ۔جلد کی رنگت، خوبصورتی اور شخصیت کا تاثر؛ یہ ظاہری طور پر اعتماد کو متاثر کرسکتے ہیں۔
ڈپریشن:یہ نوجوانی سے منسلک عام نفسیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔والدین اس سلسلے میں اپنے بچوں کے اعتماد کو بڑھانے والے عوامل پر غور کریں۔ رہنمائی میں اپنی بیٹی کے ساتھ یا بیٹے ساتھ وقت گزاریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ میں ذہانت ہے، آپ حاضر جواب اور صاف گو ہیں ، آپ کی سچ بولنے کی عادت آپ کو پسند ہے۔ فلاں نے آپ کی خوبیوں کا ذکر کیا ، آپ کے ذمہ دارانہ رویے کی ٹیچر نے تعریف کی ہے ۔آپ کے والد نے آپ سے متعلق کہا کہ ان کے دوست آپ کی شرافت کی تعریف کررہے تھے۔ آپ احترام سے پیش آتے ہیں ۔
یہ خوش کن جملے ان کی سماعت میں دیر تک انہیں لطف دیتے ہیں۔ باہر کے ماحول میں موجود ان کی بے وقعتی زائل ہونے لگتی ہے ۔دوسروں کے ذریعہ کسے گئے فقرے ان کی توجہ ظاہر شکل و صورت، قد کاٹھ اور رنگ سے ہٹا کر باطنی خوبیوں پر مرکوزکرواتےہیں ۔
جنس مخالف کی طرف جھکاؤ:جنس مخالف کی طرف جھکاؤ بھی بہت فطری ہے۔ جس طرح بچے کو بھوک لگے تو چھوٹا بچہ کھانے کی چیز منہ میں ڈالتا ہے، کبھی کبھی اپنے کھلونے بھی منہ میں ڈال لیتا ہے، ماں اسے رفتہ رفتہ کھانے کی مینجمنٹ سکھاتی ہے،’ بیٹا یہ نہیں کھاتے‘،’ ہاتھ دھوتے ہیں‘،’ بسم اللہ پڑھتے ہیں ‘۔بھوک ایک جبلت ہے ۔اسی طرح نوعمری میں جنس جذبات اور صنف مخالف کی جانب کشش بھی جبلت سے تعبیر ہے۔ اسلامی رو سے اس کی مینجمنٹ سکھانے کا سلسلہ سات سال کی عمر سے بہن بھائی کے بستر الگ کرکے احترام پیدا کرنے کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے۔ وقت پر نہ سکھائیں تو رفتہ رفتہ بچے کے ذہن سے جنس مخالف سے فری ہونے کی قباحت چلی جاتی ہے۔ سات سال کی عمر سے احترام سکھانا لازم ہے۔جیسےوالدین بچیوں کو اسکارف پہناتے ہیں،ویسے ہی لڑکوں کو بھی سکھائیں کہ بیٹا! احترام ملحوظ رکھیں ، کسی خاتون کو نہ تاکیں نگاہیں ،نیچی رکھیں ۔اسی طرح نوعمر اگر ماحول کی وجہ سے متاثر ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ سخت رویہ نہ رکھیں ۔ سولہ سال کی اسکول جانے والی ایک کم عمر بچی نے کاؤنسلنگ کے دوران بتایا کہ میرا گناہ ایسا ہے کہ سن کر آپ مجھ سے نفرت کریں گی ۔اسے جواب دیاکہ ایسا بالکل نہیں ہوگا ،ابھی بتائے بغیر ہی مجھے آپ پر بہت سارا دلار آرہا ہے ۔ بتاؤں کیوں؟اس لیے کہ آپ میں گناہ کا احساس زندہ ہے، آپ اس سے نکلنے کے لیے یہاں آئی ہیں، آپ کو گناہ پر انسانوں کی نفرت کا احساس ہے، سوشل بائیکاٹ کا مطلب آپ سمجھتی ہیں، والدین کی شرمندگی کا احساس آپ کو رلارہا ہے ،یہ زندہ ضمیری کی علامت ہے، اور آپ شرمندہ بھی ہیں ؛محبت کرنے کے لیے اتنا کافی ہے ۔اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔وہ نفرتیں جھیل جھیل کر خودکشی کا ارادہ بناچکی تھی ۔وہ بولتی چلی گئی ۔یہ بات جاننے کے بعد میںآپ سے اور زیادہ قریب ہوگئی ہوں، جانتی ہو کیوں؟ اس لیے کہ چھوٹے بچے کو ہم بہت کم عمری میں سکھادیتے ہیں کہ بیٹا !یہ آگ ہے ، اس سےہاتھ جل جاتا ہے، گرم ہے، اسے نہ چھونا ۔ سارے بچے بڑوں کی مان لیتے ہیں۔ گرم استری یا گرم برتن یا چمکتے ہوئے آگ کے شعلے کو نہیں چھوتے ،لیکن کچھ بچے گرم کا تجربہ کرتے ہیں، ہاتھ جل جائے تو چیختے ہیں، رونے لگتے ہیں ۔
کیا ہم اس کے ہاتھ جل جانے کے بعد اس سے دور بھاگتے ہیں یا اس کے علاج کے لیے نزدیک آتے ہیں؟ ہم مرہم لگاتے ہیں، پھر تاکید کر کے سمجھاتے ہیں کہ بیٹا کہا تھا ناں ہاتھ جل جاتا ہے ،آئندہ ہماری بات سنو گے۔ٹھیک! ؟
ماحول کی بے راہ روی نے ٹین ایج بچوں کو اس دہلیز پر پہنچادیا کہ وہ کسی کمزور لمحے کا شکار ہوگئے، یا کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو جان لیجیے کہ ہم انہیں آگ سے بچنے کی تاکید ویسے نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ ہم بحیثیت والدین انہیں اس کی تپش کا احساس دلانے میں کہیں نہ کہیں ناکام رہے ہیں۔ اِن کیس بہت سمجھانے کے بعد بھی وہ لوٹ آئیں تو وہ نفرت کے، سوشل بائیکاٹ کے مستحق نہیں ہیں ۔ان پر والدین کا ظلم، رشتے داروں کا سوشل بائیکاٹ ،تربیت کا حصہ نہیں ہے ۔ بات بات پر والدین کے طنزو تشنیع کے تیر، ان کی ذہنی حالت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ۔
والدین سماج کی عزت کو خدا سمجھنے لگیں تو حقیقی خدا کے خوف کے بجائے سماج میں سر اٹھانے کا خوف دلاتے ہیں ۔ غلطی کرنے کے بعد والدین تھکے ہارے شرمندہ شرمندہ سماج کے سامنے ناک کٹ جانے پر جسمانی سزا دیتے ہیں ۔ بچوں پر کیے گئے احسانات گنوانے لگتے ہیں ۔انہیں اللہ سے توبہ کرنا سکھائیے ۔بچپن سے کبائر اور کبائر کاارتکاب نہ کرنے کی تلقین بچپن میں ٹین ایج سے پہلے ہی کروائیے۔ بتائیے کہ بیٹا! آگ سے ہاتھ جل جائے تو تکلیف تو ہوتی ہی ہے ،ساتھ ہی ساری زندگی جلد کا داغ نہیں جاتا ،حسن ختم ہوجاتا ہے ۔ماحول سے بچانے میں پہلے حساسیت کی کمی والدین میں پائی جاتی ہے ۔ پابندی لگانے سے بچے پابند نہیں ہوتے۔
بعض سرپرست فخریہ بتاتے ہیںکہ ہم نے بچوں پر پابندی لگائی ہے، آزادی نہیں دی ۔نہیں بھئی! آزادی دیجیے، لیکن آپ کی زبان پر ہر لمحہ گفتگو جاری رہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے، بیٹا کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں، کسی اجنبی کےساتھ چیٹنگ نہ کریں ۔ ان سے کہیں کہ ہر جگہ اللہ موجود ہوتا ہے ،وہ جس سے روکے، رک جانا اورنہ رکنے والوں کو وہ دیکھ رہاہے ۔اصول بنائیں کہ گھر کی ہر چیز ملے گی لیکن اللہ کے ان حدود کو توڑنے پر کوئی کمپرومائزنہیں ۔تب بھی خطا ہوجائے تو والدین کی جانب نفرت نہیں ہونی چاہیے، یہ اسلام کا مطمح نظر نہیں ہے ۔ راہ راست پر آنے کی رمق بھی باقی ہوتو اسلام اسے گلے لگانے کا حکم دیتا ہے ۔اس پہلو پر والدین کو سوچنا چاہیے کہ ان کی برائی ہمارے اپنے رویے کے سبب ہے ،ایسے بچوں کو ہینڈل کرنے کے لیے کاؤنسلر کی مدد لینی چاہیے ۔
نو عمر بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS