ڈاکٹر سیّد احمد قادری
عالمی یوم وراثت گزشتہ ہفتہ آیا اور گزر گیا، لیکن افسوس کہ اس حوالے سے ملک میں کہیں بھی کسی طرح کی تحریر یا تحریک دیکھنے کو نہیں ملی۔ ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس وقت سے ملک میں حکومت وقت کی شہہ پر متعصب اور مذہبی منافرت پھیلانے والے لوگوں کی جانب سے ہر طرف، نہ صرف بدلاؤ کا نعرہ دیا جا رہا ہے ، بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کی بھی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
اس امر سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ گنگا جمنی تہذیب، اعلیٰ قدریں، مختلف رسم و رواج، مذہبی رواداری، اخوت، بھائی چارگی نیز مختلف زبانوں اور مذاہب کی بہترین روایات سے پوری دنیا میںہندوستان کی ایک خاص پہچان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک میں فنون لطیفہ کی یادگار اور شاندار وراثتیں بھی قائم ہیں ،جو کہ ہمارے ماضی کی یادگار ہیں۔ اگر ہم تعصب کی عینک اتار کر اپنے ملک کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک کے اندر ہندو راجاؤں نے مسلمانوں کے مذہبی احساسات وجذبات کا احترام کرتے ہوئے جہاں کئی مساجد اور خانقاہوں کی تعمیر کرائی، وہیں مسلم بادشاہوں نے بہت سارے مندروں اور مٹھوں کے لئے اپنے خزانے کھول دئے تھے۔ اورنگ زیب جیسے مشہور کٹّر مسلم بادشاہ تک نے دو گاؤں، سمیشور مندر کی دیکھ بھال اور دیوتا کے بھوگ کے لئے جاگیر منظور کئے تھے ۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں ، بلکہ سابق گورنر اورمشہور تاریخ داں بی این پانڈے نے اپنے ایک مضمون میں لکھی ہے ۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایسی شاندار تاریخ پر وقت کی دھول جمتی جا رہی ہے اور دوسری جانب ایسے تمام تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر، پوری طرح مسخ کرکے نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے ، بلکہ اس کے لئے خفیہ طور پر ایک شعبہ بھی قائم کیا گیا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک ہفتہ قبل گزر جانے والا 18؍ اپریل کا دن اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل تھا کہ اس دن کویونیسکویعنی United Nations Educational Scientific and Cultural Organization نے نومبر 1983 میں اپنے 22 ویں سیشن میں International Monuments and Sites day کے طور پر منائے جانے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا ۔ یہ در اصل ICOMOS یعنی International Council for Monuments Sites کی کوششوں کا نتیجہ رہا ہے ۔ جس نے 18 اپریل1982 کو ٹیونیشیا میں اس موضوع پر ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا اور یونیسکو سے اس دن یہ مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پر International Monuments and Sites day منانے کا فیصلہ کرے ۔ اس مطالبہ کو یونیسکو نے نہ صرف فیصلہ میں بدلا ، بلکہ اس دن کو جشن وراثت کا نام دیتے ہوئے اس دن بطور خاص ایسی قدیم عمارتوں اور یادگار جگہوں پر جانے ، ان کی تاریخی اہمیت بتانے اور ان کے تحفظ پر توجہ دینے کی بات کی اور اسے عالمی یوم وراثت کا نام دیا۔ چناچہ اس فیصلہ کے بعد سے ہر سال 18 اپریل کو مختلف ممالک میں مختلف قدیم اور یادگار عمارتوں کے لئے کوئی نئی تھیم کے ساتھ سمینار ، سمپوزیم، بحث ومباحثہ کے انعقاد پر بھی زور دیا جاتاہے ۔ اگر دیکھا جائے تو 18 ؍اپریل کا یہ دن اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اپنے اپنے ملک کی قدیم عمارتوں اور یادگار کے سلسلے میں نہ صرف معلومات حاصل کریں ، بلکہ ان کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان وراثتوں کی ہر ممکن طور پر حفاضت کو یقینی بنائیں ۔ اس لئے کہ یہ ہماری وراثت صرف قدیم عمارتیں نہیں ہیں ، بلکہ ان میں ہماری پرانی اور قدیم روایات، تہذیبیں ، تمدن کی جھلک پوشیدہ ہیں اوران میں اپنے اپنے ادوار اور عہد کی جیتی جاگتی تاریخ جھانک رہی ہے۔ ان کا تعمیری حسن، ان کی دیواروں، دروازوں، کلسوں، گنبدوں، محرابوں اور میناروں سے عیاں ہیں ۔ ان عمارتوں میں کیسے کیسے نادر پتھروں کو سجایا گیا ہے ، کس کس طرح سے تراش خراش کیا گیا ہے۔ ان کی حسن کاری میں، کس طرح کا تعمیری مزاج وشعور کار فرما رہا ہے، اس کا بھی بھرپور اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حالانکہ اس زمانے میں جب ایسے وسائل موجود نہیں تھے ، جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ، پھر بھی فن تعمیر کا اس قدر اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا۔
لیکن افسوس کہ ہم اپنے ملک کی ایسی شاندار اور یادگار قدیم وراثت کی اہمیت و افادیت سے غافل ہیں ۔ حکومت وقت بھی ایسی قدیم عمارتوں کے استحکام سے لا پروا ہے۔ جس کی ایک مثال اس وقت میں پیش کرنا چاہوں گا ۔ وہ ہے بہار کے تاریخی شہر سہسرام میں واقع شیر شاہ کا روضہ ۔ جسے محکمہ سیاحت نے اپنے تحویل میں لے تو لیا ، لیکن اس تاریخی عمارت اور اس کے آس پاس پھیلے باغات و تالاب کی حفاظت کی جانب کوئی توجہ نہ ہونے کے باعث آس پاس کے باغات اور تالابوںپر بڑے پیمانے پر قبضہ کر لیا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ کچھ ذمّہ دار افراد اور تنظیمو ں نے حکومت کی توجہ اس بہت حساس معاملے پر کئی بار دلائی، لیکن ہر صدا ، صدا بہ صحرا ثابت ہو ئی۔ ایسی بہت ساری ہماری وراثت ہیں، جن پر ہمیںاورحکومت وقت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اب جہاں تک ملک میں موجود وراثت یا میراث کا تعلق ہے تو ایسی ہزاروں قدیم عمارتیں اور یادگاریں ہیں ، جن کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن 2014 میں یونیسکونے ہندوستان میں ایسی 32 وراثتوں کی نشاندہی کی ہے۔ جن میں دس سر فہرست جو یادگار میراث شامل ہیں ، ان میں سب سے پہلے تاج محل کا نام ہے ، جس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں بھی ہو۔ دوسرے نمبر پر قطب مینار ہے ، تیسرا سوریہ مندر ، چوتھا مونومینٹس آف کھجوراہو ، پانچواں مہابودھی مندر(گیا)، چھٹا، کازیرنگا نیشنل پارک (آسام) ساتواں چولا ٹیمپل(تمل ناڈو)، آٹھواں، اجنتا کیوس (مہاراشٹر)، نوواں ماؤنٹین ریلویز ان انڈیا (دارجلنگ سے ہمالین ریلوے، مغربی بنگال، نیل گری ماؤنٹین ریلوے، تمل ناڈو اور کالکا سے شملہ ریلوے، ہماچل پردیش) اور دسواں ، فتح پور سکری (آگرہ) کا نام شامل ہے۔ یہ دسوں ہماری ایسی وراثتیں ہیں ، جو ہمارے لئے بلا شبہ قابل فخر ہیں۔ ان میں ایک طرف جہاں منفرد نقش و نگار، فن تعمیر، سنگ تراشی اور فنکارانہ حسن کے اعلیٰ نمونے ہیں، تو دوسری جانب اپنے وقت اور عہد کی تاریخی حیثیت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں، لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے ان قابل فخر اور قابل قدر تاریخی وراثت کی حفاظت کیا کریں گے ، انھیں مسمار کرنے میں بھی ہمیں کوئی تامل نہیں ہے۔ ذرا ایک نظر ڈالئے منہدم ہونے سے قبل کی تاریخی بابری مسجد پر۔ کس قدر شاندار پتھروں سے اس کے گنبدوں ، میناروں، محرابوں سے مزین اور فن خطاطی کے نادر نمونے موجود تھے۔ جسے ہم نے مذہبی منافرت اور تعصب کے ہتھوڑوں سے بڑی بے دردی کے ساتھ تاریخ کے اس اہم باب کو منہدم کرکے خوش ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح ملک کی کئی مایہ ناز تاریخی وراثتوں کو ختم کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اب بعض نام نہاد اور ناعاقبت اندیش تاریخ داں ایسے بھی سامنے آ رہے ہیں ، جو بڑی بے شرمی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قطب مینار، لال قلعہ ، قلعہ آگرہ اور تاج محل وغیرہ ہندوؤں کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں ۔ جن پر قرانی آیات کندہ کرکے مسلمانوں نے اپنا نام دے دیا ہے ۔ یہ نام نہاد تاریخ داں تعصب میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ انھیں ان عمارتوں کے تعلق سے مستند موجودثبوت وشواہد کی بھی پرواہ نہیں ۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے لئے شاہجہاں نے کہاں کہاں سے لال پتھر اور سنگ مرمر منگوائے تھے اور اس ضمن میں مختلف ممالک سے جو خط و کتابت ہوئی تھی ، وہ آج بھی آرکا ئیو میںموجود ہیں ۔ ابھی ابھی تاج محل کا قضیہ اتر پردیش کی عدالت تک پہنچا تھا کہ یہ دراصل ایک مندر تھا ، جسے مسلم حکمراں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ وہ تو کہئے کہ عدالت میں ان لوگوں کو منھ کی کھانی پڑی ، ورنہ ایسے لوگوں کے حوصلے اوربڑھ جاتے ۔ ان حالات میں 18 اپریل کے اس یادگار دن کو قومی سطح پر منائے جانے اور اس موقع پر سمینار ، سمپوزیم اور ڈیبیٹ وغیرہ کا انعقاد کر نے کی سخت ضرورت ہے۔ اس دن کو یونیسکو نے اسی لئے عالمی یوم وراثت کے طور پر منانے اور اپنی وراثت کو یاد کرنے کا دن مقرر کیا ہے۔ اس دن ہمارے سیکولر تاریخ داں ، اساتذہ، مضمون نگار و کالم نگار اپنے ملک میں قائم وراثتوں کی تاریخ بیان کریں ۔ اس سے نہ صرف تاریخی حقائق سامنے آتے رہیں گے بلکہ نئی نسل ان حقائق سے روبرو بھی ہوگی، ساتھ ہی جھوٹی تاریخ اور تھوتھی دلائل کو مسترد کریںگے ۔
اس وقت ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اور جس تیزی سے منافرت ، تنگ نظری، عصبیت اور ہٹ دھرمی فروغ پا رہی ہے اور پورے ملک میںجس طرح مسموم فضا قائم ہو رہی ہے، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہماری ذمّہ داریوں اور فرائض کے تقاضے یقینی طور پر بڑھ جاتے ہیں۔ اگر اس جانب ہم نے بہت سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ، تو وہ دن دور نہیں جب ’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں اور اسی داستاں کو مٹانے کی منظم کوشش کی ایک اہم کڑی نصاب سے ملک کے مغلیہ دور کی تاریخ کو ختم کرنا ہے، نصاب سے تاریخ کے ایسے اہم باب کو تو نکال دوگے ، لیکن ان وراثتوں کا کیا ہوگا جو پوری دنیا کے لئے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔
[email protected]