اودھیش کمار
اس میں دو رائے نہیں کہ عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کی پولیس کسٹڈی میں قتل نے پورے ملک میں سنسنی پیدا کردی ہے۔ فلموں اور سیریلوں میں ضرور پولیس کے بیچ آکر مجرموں یا دوسرے مجرم گینگ کے ذریعہ قتل کے مناظر ہم نے دیکھے ہیں۔ عام زندگی میں ایسے واقعات ہمارے آپ کے سامنے شاید ہی اس سے قبل ہندوستان میں کبھی پیش آئے ہوں۔ دہشت گردانہ حملہ کی بات الگ ہے۔ جب اس طرح کے غیرمتوقع، غیرفطری اور حیران کن واقعات ہوتے ہیں تو ان کا تجزیہ بھی اسی طریقہ سے کرنا پڑے گا۔ سیاسی ردعمل فطری اور عام ہیں۔ سبب، ہماری سیاست میں سنگین موضوعات پر سنجیدگی سے غور کرکے ردعمل ظاہر کرنے کا رویہ اپوزیشن سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے تناظر میں تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ فطری طور پر ہی سیاسی ردعمل کی روشنی میں ہم اس طرح حیرت میں ڈال کر حیران کن واردات کا تبصرہ نہیں کرسکتے۔ یہ واردات اس معنی میں بھی غیرفطری ہے کیوں کہ جن تین مجرموں نے عتیق اور اشرف کا قتل کیا، جرم کی دنیا میں ان کا بڑا نام نہیں ہے اور نہ ہی عتیق، اشرف یا اس کے گروہ سے منسلک لوگوں سے دشمنی یا مقابلہ کی معلومات ہے۔ بھاری سیکورٹی انتظام کے بیچ ہندوستان کے اتنے بڑے مافیا سرغنہ کو عام مجرم گولیوں سے بھون دینے کی جرأت کریں یہ تصور سے بالاتر ہے۔ اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے جانچ کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کردی ہے۔ 17پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جاچکا ہے۔ جانبدارانہ جانچ کے بعد جو رپورٹ ہمارے سامنے ہوگی وہی اس واردات کے حوالہ میں قابل قبول ہوگی۔ عام حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب کو جانچ رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ جو واقعات ہیں تو ان کا تجزیہ ہوگا اور جو اسباب صاف محسوس کیے جاسکتے ہیں ان کی بنیاد پر ضرور کچھ نتیجہ نکال سکتے ہیں۔
اس بڑی واردات کے ممکنہ ردعمل کا تخمینہ لگاتے ہوئے کچھ بعد کی کارروائیاں ہوئیں۔ اترپردیش کے نظم و نسق کا دھیان رکھتے ہوئے پورے صوبہ میں سیکورٹی انتظام سخت کیے گئے، سیکورٹی فورسز کا فلیگ مارچ ہورہا ہے۔ قتل کے دوسرے دن پریاگ راج سمیت کئی شہروں کی سڑکیں ویران تھیں، دکانیں بند تھیں۔ ممکنہ شرپسند عناصرکو حراست میں لینے، گرفتار کرنے، جگہ جگہ چھاپہ ماری وغیرہ بھی ہورہی ہیں۔ واردات کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود محاذ سنبھالا۔ واضح ہے کہ شرپسند اور غیرسماجی عناصر اس کا فائدہ اٹھاکر ریاست میں تشدد نہ پھیلائیں اس نقطہ نظر سے زیادہ تر احتیاطی تدابیر کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ابھی تک عام لوگوں نے جس طرح کا صبر و برداشت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے اس میں امید کرنی چاہیے کہ ریاست اور ملک میں بدامنی، شرپسندی اور تشدد پیدا کرنے والی سازشیں کرنے والی طاقتیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ لیکن ان سب میں یہ سوال لاجواب رہ جاتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ عتیق احمد کی سلطنت تقریباً منہدم کی جاچکی تھی۔ اس سمیت اس سے منسلک لوگوں کے معاشی و دیگر وسائل کو منہدم کرنے کی کارروائی کافی حد تک پوری ہوتی نظر آئی تھی۔ وزیراعلیٰ کے ذریعہ اسمبلی میں اس مافیا کو مٹی میں ملادیں گے کے اعلان کو ذہن میں رکھتے ہوئے صحافیوں نے جب سابرمتی سے پریاگ راج جانے کے راستہ میں عتیق سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مٹی میں مل چکے ہیں اب تو رگڑا جارہا ہے۔ زندگی کی چار دہائی سے زیادہ وقت تک جس شخص نے قانون کو ٹھینگے پر رکھا اور ایک خونخوار کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح کے جرم اور مافیاگیری کی وہ زندہ رہتے ہوئے بھی خود کو مردہ سمجھے تو اس سے بڑی سزا کچھ ہو نہیں سکتی۔ عدالت بھی اسے ایک معاملہ میں عمرقید کی سزا دے ہی چکی تھی۔ ایسے میں موت کی نیند سلانے کا سبب اچانک نظر نہیں آسکتا۔ لیکن بغیر وجہ کوئی حادثہ پیش نہیں آتا ہے نہ رونما کیا جاسکتا ہے۔
قتل کے طور طریقوں اور حالات کو دیکھیں تو تجربہ کار لوگوں کا پہلا نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ انتہائی منظم تھا۔ اس کے پیچھے کثیرجہتی سازش نظر آتی ہے۔ قاتلوں کے ذریعہ ایک میڈیا انسٹی ٹیوٹ کا آئی کارڈ اور لوگو والی مائک استعمال کرنے سمیت قتل میں استعمال کیے گئے ہتھیار وغیرہ عام مجرم کے ذریعہ کیے گئے جرم کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس لیے یہ تھیوری گلے نہیں اترتی کہ ان تینوں نے خود کو بڑا مجرم باورکرانے کے لیے عتیق اور اشرف کے قتل کی جرأت کی۔ تینوں الگ الگ علاقے کے ہیں۔ ساتھ مل کر کسی جرم کا ریکارڈ ان کا نہیں ہے۔ پھر تینوں اکٹھے کیوں ہوئے اور ان کے درمیان اتنا تال میل بنا تو کیسے؟ اس طرح کے عام مجرم ویسے ریوالور کا استعمال نہیں کرتے جیسا کیا گیا۔ واضح ہے کہ اس میں کافی وسائل لگے ہیں۔ انتہائی چالاک ذہن اور شاطر دماغ اس کے پیچھے ہیں۔ عتیق جیسا بڑا مافیا-مجرم صرف اپنے لیے ہی جرم نہیں کرتا۔ سیاست، انتظامیہ، معاشرہ، کاروبار وغیرہ کے بڑے بڑے لوگ بھی ایسے مافیاؤں کا استعمال اپنے مفادات کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔ یقینا عتیق نے ریاست اور ریاست کے باہر کے باہر سے معزز نظر آنے والے متعدد لوگوں کے لیے مجرمانہ وارداتیں انجام دی ہوں گی۔ اندر سے ٹوٹنے کے بعد پولیس کے سامنے وہ سارے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہتھیار کہاں سے لاتا ہے، پنجاب میں چل کر دکھا سکتا ہے۔ ایسے مافیا سرغنہ ہونے کے بعد مکمل ملک اور ملک کے باہر کے جرائم کے نظام سے بھی اس کا تعلق بنتا ہے۔ عتیق اسی پایہ کا مجرم تھا۔ چوں کہ وہ ایم ایل اے اور ممبرپارلیمنٹ بھی بنا، اس وجہ سے جرم کی دنیا میں اس کا قد بہت بڑا تھا۔ عام کاروبار یا دیگر کاموں کی طرح ہی جرم کے بھی ٹھوس بنیادی نظام ہوتے ہیں۔ یعنی ہتھیار کہاں سے آئیں گے، کہاں ان کو ڈیلیور اور کسے کیا جائے گا، کہاں کی پولیس دوستانہ ہے جہاں سے اسے نکالا جاسکتا ہے، کسے کہاں مارنا ہے، کون مارے گا، مارنے کے بعد کس راستہ سے بچ کر نکلے گا، اغوا کرنا ہے تو کہاں سے اُٹھا کر کہاں رکھا جائے گا، کیسے پولیس انتظامیہ کو پیسے یا طاقت کی بدولت اپنا دوست بنایا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس پوچھ گچھ سے ایسی طاقتوں کو اپنا راز افشاں ہونے کا خوف ستانے لگا تھا۔ ممکن ہے اس کے قتل کے پیچھے ایسے عناصر کی سازش ہو۔ ویسے بھی اتنے بڑے مجرم نے اپنے ہزاروں دشمن بنائے ہوں گے۔ کون کس درد اور بے عزتی کے سبب انتقام کے جذبہ سے کیا کیا کررہا ہوگا اس کا پتہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انتقام کی آگ میں لوگ مردے پر بھی حملہ کرتے ہیں۔ اس لیے کن کن کو اپنے راز کھلنے کا ڈر تھا یا کون کون انتقام میں اسے تباہ کرنے کی تیاری کررہے تھے ان سب کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔ ایک فریق یہ بھی بتارہا ہے کہ عتیق خود بھی چاہتا تھا کہ برا حال ہونے کے بجائے اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے، کیوں کہ پوری زندگی شان سے جیے اور آخر میں اس طرح گڑگڑاتے ہوئے وہ زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ سارے عوامل میں سے ہم آپ کسی کو تب تک خارج نہیں کرسکتے جب تک کہ اسباب کے بالکل مصدقہ ثبوت نہ آجائیں۔
بہرحال جو بھی ہو اس واردات نے اترپردیش پولیس کو اپنے پورے نظام کا گہرائی سے جائزہ لینے اور اس کے مطابق تبدیلی کا سبق دیا ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ قانون اور انتظام کے تئیں وزیراعلیٰ کے عزم کے باوجود پولیس انتظامیہ میں ایسے لوگ ہیں جو پرانے راستہ پر چل رہے ہیں۔ وہ سرکاری احکام کی جگہ ناپسندیدہ پیغامات اور سوچ کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا تو معاملہ کے اہم گواہ اور درخواست گزار امیش پال کا قتل نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی اس قتل کے بعد ہم نے عتیق اور اس سے منسلک لوگوں کی جتنی غیرقانونی املاک کو دیکھا وہ بھی سامنے نہیں ہوتا۔ آخر یہی بلڈوزر پہلے کیوں نہیں چلا جو امیش پال کے قتل کے بعد چلا؟ عوام کی اسے وسیع پیمانہ پر حمایت حاصل تھی لیکن پولیس-انتظامیہ کی اعلیٰ قیادت اس کی چھان بین کرے کہ آخر بلڈوزر سے غیرقانونی املاک کو منہدم کرنے کے احکام کے باوجود اتنی املاک کیسے بچی تھی؟ نظم و نسق کے تئیں پرعزم نظام کا مطالبہ ہے کہ ایسے عناصر کو پہچان کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔rvr