مسجداقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس سے مسلمانوں کی دلی وابستگی ہے اور یہ وابستگی ایسی نہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ ختم ہوجائے، اس لیے مسجد اقصیٰ کے احاطے یا اطراف میں اگر کوئی مذموم اسرائیلی کارروائی ہوتی ہے تو اسے دنیا بھر کے مسلمان سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ ہر بار عالمگیر سطح پر احتجاج نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس سے مسئلۂ فلسطین کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ یہ مسئلہ اورالجھ جائے گا مگر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے اندرونی حالات کا اثر فلسطینیوں پر پڑ رہا ہے، ان کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کے جذبات مشتعل کرتے وقت یہ بات نظرانداز کی جا رہی ہے کہ القدس الشریف وہ سرزمین نہیں جس سے فلسطینیوں کی ہی وابستگی ہو، اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی وابستگی ہے اور اس کا اظہار 8 اپریل، 2023 کو اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی ہوا۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حملوں کے تناظر میں جدہ میں منعقدہ اجلاس میں القدس الشریف کے تشخص کو مٹانے کی اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں کو جس طرح مسترد کیا گیا، وہ حیرت انگیز ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں کی مذمت کی اور یہ بات واضح الفاظ میں کہی کہ ’القدس مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے اور فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے ۔ مسجد اقصیٰ اپنے پورے حصے کے ساتھ صرف مسلمانوں کی خالص عبادت گاہ ہے۔‘اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے القدس میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات، خاص کر مسجد اقصیٰ کی تاریخی اور قانونی حیثیت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی کوششوں پر اسرائیل کو متنبہ کیا ہے اوربجا طور پر یہ بات کہی ہے کہ اسرائیل اس خطے کی سلامتی اور استحکام کو داؤ پر لگا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اوراس کے نتائج کیا ہوں گے؟ اگر کسی انتباہ یا مذمت سے اس کی پالیسی بدل جاتی تو پھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوتیریس اور عرب لیگ کی مذمت کا بھی اس پر کچھ اثر ہوتامگر عرب ملکوں کے اتحاد سے وہ واقف ہے اور ان کی طاقت سے بھی۔ رہی بات اقوام متحدہ کی تو پشت پر امریکہ کے رہتے ہوئے اسرائیل کو کیا سوچنا ہے۔ جب تک امریکہ کا وجود ہے، اسرائیل مضبوط ہے اورمسئلۂ فلسطین کو سلجھانا بہت مشکل ہے۔ امریکہ اسے سلجھانے میں اب تک ناکام رہا ہے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ کوئی اور ملک اس مسئلے کو سلجھانے میں قائدانہ رول ادا کرے۔ امریکہ کیوں ناکام رہا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر فیصلہ اسرائیل کا خیال رکھتے ہوئے لینا چاہتا ہے اور قربانی کی امید فلسطینیوں سے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر اس نے کبھی سخت موقف ظاہر نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے قیام کی 70 ویں سالگرہ پر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے یہ اشارہ دیا تھا کہ امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت مان لیا ہے۔ ان کے فیصلے کو جو بائیڈن نے پلٹا نہیں، اس لیے اس پرکوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ ہر حال میں اسرائیل سے دوستی نبھائے گا۔ چین کی ثالثی میں سعودی-ایران مصالحت کے بعد امریکہ یہ ضرور دیکھنا چاہے گا کہ ان کا یہ اتحاد کس پیمانے کا ہے اور اگر اسرائیل کی جارحیت بڑھتی ہے تو پھر امریکہ کو مسلم ملکوں کا اتحاد دیکھنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ بات بھی طے سی ہے کہ وہ اگر اتحاد دکھائیں گے تو امریکہ ، اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا مگر دنیا کے حالات بدل گئے ہیں۔ یہ حالات 1967 والے نہیں ہیں، بات اگر بڑھی تو پھر بڑھتی ہی چلی جائے گی، مشرق وسطیٰ میں پہلی جیت نہ آخری جیت ہوگی اور نہ پہلی شکست کا مطلب یہ ہوگا کہ جیت پھر ہوگی ہی نہیں۔ روس اور امریکہ مخالف ملکوں کے لیے یہ ایک موقع ہوگا۔ اس کا فائدہ اسی طرح روس اٹھانا چاہے گا جیسے یوکرین جنگ میں اس کے خلاف امریکہ اٹھا رہا ہے۔ ادھر مسلم ممالک اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ بدلتے عالمی حالات کو وہ سمجھ گئے ہیں، یہ سمجھ گئے ہیں کہ اگرصحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہیں لیں گے تو فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں رہ جائیں گے۔ اسی لیے ایران اور سعودی عرب کی مصالحت اور پھر ترکی کے ساتھ ایران کی اسرائیل کے خلاف مسلمانوں سے اتحاد کی اپیل واقعی حیرت انگیز ہے مگر حالات بدلتے ہیں تو پھر بہت سی نئی باتیں اسی طرح ہوتی ہیں۔
[email protected]
فلسطین: حالات کے بگڑنے کا اندیشہ!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS