تاریخ نویسی کو اپنے خلاف ہتھیار بننے کی اجازت نہ دیں !

0

عمیر انس

ویسے تو علم تاریخ ماضی کا تحقیقی مطالعہ ہے جو گزشتہ ایک صدی میں بڑی ترقی کر چکا ہے۔لیکن جب تاریخ ماضی کے مطالعے کے ایک فن کے بجائے سیاسی اور سماجی تسلط حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے تو یہ ایک خطرناک ہتھیار بن سکتا ہے،جیسے آج کل ہندوستانی تاریخ کے پانچ ہزار کے طویل عرصے میں محض چار پانچ سو سالوں کو اس طرح سے پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے باقی چار ہزار پانچ سو سال کی تاریخ فرشتوں کی ہو۔تاریخ ہند کے اس مختصر سے حصے کو مصنوعی طور پر اس قدر حساس کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک بالکل کم پڑھے لکھ ووٹر اور پارٹی کارکن کے لیے اپنے مخالفین کے لیے نفرت کی دیوار بنانے میں استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے سامنے موجودہ مباحثے سے دور رہنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ خواہی نخواہی یہ بحث آپ پر مسلط کی جائے گی،اس لیے آپ کو اس بحث میں یہ طے کرنا ہے کہ آپ کون سا کردار ادا کریں، ایک مظلوم کا، ایک ظالم کایا ایک غیر جانب دار ناصح اور امین کا جو تاریخ کو نفرت اور تشدد کا ہتھیار بننے کے امکان کو ہی کالعدم کر دے۔اس سلسلے میں چند باتوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں میں تاریخ کا مطالعہ ایسے ہی کیا جاتا ہے جیسے وہ مذہبی مقدس کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔تاریخ کے مطالعے کو مذہبی عقیدت اور مسلم قوم پرستی کے تفاخر کے لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مسلم حکمران علوم اسلامی کے نمائندہ تھے نہ ہندوستانی مسلمان مغلیہ اشرافیہ کے باقیات ہیں۔مسلم حکمرانوں پر تنقید کا مطلب اسلام اور اسلامی تاریخ پر تنقید ہرگز نہیں ہے۔اس بات پر پڑھے لکھے مسلمان عموماً اتفاق کرتے ہیں۔لیکن مسلمانوں کی ہندوستانی تاریخ سے متعلق دوسری کوتاہی یہ ہے کہ ہندوستان کی وہ تاریخ جس میں مسلمان نہیں ہیں، خواہ وہ ماقبل اسلام کی تاریخ ہو یا غیر مسلم حکمرانوں کی تاریخ ہو، وہ اس حصے کا مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے،بلکہ انہیں اس حصے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے اور نہ اس کی اہمیت کا احساس ہے اور شاید یہ احساس بھی نہیں ہے کہ جس ملک میں آپ کو اللہ پاک نے پیدا کیا ہے، اس ملک کی ساری تاریخ کا آپ حصہ ہیں۔ اگر مصر کے مسلمان فراعنہ مصر کے ماہرین ہیں، اگر ترک مسلمان ماقبل اسلام ترک قوم کی تاریخ کو اپنی تاریخ سمجھ کر مطالعہ اور تحقیق کرتے ہیں، ایرانی مسلمان بھی ما قابل اسلام ایرانی تاریخ کا پوری توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں تو پھر صرف ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں یہ احساس کیوں کر ہے کہ وہ صرف مسلمان تاریخ کے لیے خود کو محدود رکھیں گے۔ میرے کئی پاکستانی ساتھیوں نے ماقابل اسلام تاریخی مقامات اور آثار کی بدحالی کے دلخراش واقعات سنائے ہیں اور اندازہ ہوا کہ یہ رویہ اصلاً تقسیم ہند کی مصنوعی اسلامی اور غیر اسلامی سیاسی شناخت کی بدولت ہوا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس ذہنیت سے باہر آکر بر صغیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو اپنی انسانی تاریخ کا ایک حصہ مانتے ہوئے اس کے مطالعہ، تحقیق اور تنقید کا اہتمام کرتے رہنا ہوگا۔
تاریخ کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ معلوم ہے اور یہ وجہ ابھی پچاسوں سال تک باقی رہ سکتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مطالعہ تاریخ کے ایک ایسے نقطہ نظر کی تلاش کی جائے جو نہ صرف اپنے فنی اصولوں پر قائم ہو اور اس کو سیاسی انتہا پسندی کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ پانچ ہزار سال پرانی تاریخ میں ایک جغرافیہ سیکڑوں سیاسی علاقوں میں بنتا اور بدلتا ہے۔جو ملک ہندوستان کے نام سے آج ہمیں ملا ہے، وہ پانچ ہزار سال میں سیکڑوں بار اپنی داخلی اور خارجی سرحدیں بدلنے کے بعد ملا ہے جس کی ابتدا محض چند ہزار انسانوں سے ہی ہوئی تھی اور آج ایک بلین سے بھی زائد انسان اس میں آباد ہیں۔ یوروپ سے ہندوستان کی طرف ہونے والے حملے آج سیاسی اعتبار سے غیر اہم ہیں، شمالی ہند کا ہندوستان کا حصہ بننے سے پہلے سینٹرل ایشیا کی سیاست کا متحرک بلکہ مرکزی کردار ہونا، ایک الگ سیاسی تاریخ ہے۔ کیا کوشان امپائر صرف اس لیے پوری طرح ہندوستانی نہیں مانا جائے گا کیونکہ وہ سینٹرل ایشیا پر مرکوز سیاسی خطہ پر مشتمل تھا؟ ماقبل بودھ، ماقبل اسلام، مابعد اسلام، سیکڑوں واقعات اور حقائق ہیں جو ہندوستان میں اسلام کی آمد کی فطری وجہ بنے ہیں اگرچہ تاریخ کا اسلامی کرن کرنے کے لیے بہت سارے مسلم مورخین نے اسے محض ایک مذہبی توسیع کی تاریخ بنا کر پیش کرنے کی غلطی کی ہے اور اس میں انسانی محرکات کو نظر انداز کیا ہے تاکہ وہ غلبہ اسلام اور باطل کی شکست جیسے تصور کے خاکے میں ضرورت اور حقیقت سے زیادہ گہرا رنگ بھر سکیں۔ انسانی تاریخ کو نظریاتی تاریخ میں تبدیل کرنے کی اس مہم کی خواہش صرف مسلمانوں میں محدود نہیں ہے، ہر طبقہ فکر اور مذہب یہ چاہتا ہے اور آج کل تو پسماندہ ہندو، دراوڑ اور بہت سارے برہمن اپنی خصوصی تاریخ بنانے میں مصروف ہیں۔ ہندوتو تنظیمیں اس معاملے سب سے زیادہ کامیاب ہیں اور انہوں نے ہندوستان کی پانچ ہزار کی تاریخ میں صرف ایک مرکزی ویلن پیدا کر لیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کی چار پانچ سو سالہ تاریخ کے علاوہ بھی سیکڑوں ویلن ہیں لیکن آج کی سیاسی ضرورت میں ان کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ اتفاق سے مسلمان اس طرح سے ویلن بنائے جانے کی اُمید نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے مطالعہ تاریخ کو بھی اپنی سیاست کی طرح کرائے پر سیکولر خیر خواہان کو دے رکھی تھی جو آج مسلمانوں کے ساتھ یا تو ڈوب رہے ہیں یا سیکولرزم کی کشتی سے کود کر جان بچا رہے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کے درمیان تاریخ کا مطالعہ اول تو عددی اعتبار سے انتہائی محدود ہے اور منہجی اعتبار سے بھی ناقص۔ مثال کے طور پر اردو کی بیشتر تاریخ اسلام کی کتابوں میں شمالی ہند اور سینٹرل ایشیا کے بودھوں اور ہندوؤں کے درمیان قبول اسلام کے محرکات پر زیادہ معلومات نہیں ہے۔ بودھ اور ویدک ہندوؤں کے درمیان جاری محاذ آرائی نے اسلام کے لیے کیسے ایک خلا پیدا کیا اور محمد بن قاسم کی مہم سے کافی پہلے عربوں اور بودھوں کے درمیان سیاسی تعلقات کیسے استوار ہوئے، یہاں تک کہ خود محمد بن قاسم کی مہم محض مذہبی نہیں تھی، خود محمود غزنوی کی مہمات کو جس طرح سے فتح اسلام کی مہم قرار دیا گیا اور اس کے پس منظر میں خطے کے سیاسی مقابلوں کو نظر انداز کیا گیا، اس نے غزنوی کے حملے کو محض ایک مذہبی جنون کی تاریخ بنا کے پیش کیا ہے حالانکہ غزنوی اپنی مہمات کے پہلے بھی اور بعد میں بھی شمالی ہند کے حکمرانوں سے قریبی سیاسی تعلقات رکھتا تھا۔ مسلمانوں کو اس خطے کی تاریخ کو بیان کرنے میں بہت حساس بھی ہونا چاہیے تھا اور بہت فعال بھی کیونکہ اقتدار آپ کے ہاتھوں میں تھا تو مستقبل کے احتساب میں آپ ہی نشانے پر ہوں گے اور یہ آزمائش کسی بھی جماعت کے حکومت میں آنے اور بدلنے سے رکنے والی نہیں ہے کیونکہ تاریخ بیانی انسانوں کی سیاسی ضرورت ہے اور کئی اعتبار سے نظریاتی خوراک بھی۔جس نظریہ پر اقتدار حاصل ہو سکتا ہے، اس کو تاریخ بیانی میں استعمال کیا جائے گا، مسلمان گزشتہ سو سالوں سے اقتدار کی دوڑ میں مسلسل پیچھے رہ جا رہے ہیں، اس لیے انہیں ہندوستان کی تاریخ کو ایک جمہوری سیاست میں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔
تاریخ بیانی صرف علمی کام نہیں بلکہ پاپولر ادب اور تفریح کا بھی موضوع ہوچکا ہے جیسے آج کل بالی ووڈ نے انتہائی بدمزہ فلمیں بنا کر شروع کیا ہے، مسلمان چاہیں تو اس کو زیادہ خوش مزہ اور زیادہ انسانی نقطہ نظر والا عوامی ادب اور انٹرٹینمنٹ تخلیق کرسکتے تھے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہندوستانی صوفیاء میں سے کسی ایک پر بھی ایک تفصیلی فلم یا ڈراما نہیں ہے، اسلامی ناولوں کے نام پر نظریہ پاکستان کو مستحکم بنانے والے ناول ہندوستانی مسلمانوں کو گمراہ کرتے رہیں، حالانکہ سیکڑوں واقعات ایسے ہوسکتے ہیں جو اسلام اور غیر مسلموں کے درمیان انسانی محرکات کو بھی ایمانداری سے پیش کر سکتے ہیں، مسلمان ادیب اور مؤرخین چاہیں تو تاریخ کو اپنے خلاف ایک ہتھیار بننے سے روکنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس کام سے انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے، اگر ارتغرل اور سلطان سلیمان کے قصے دوردراز ملکوں میں انسانی واقعات سے عام ہو سکتے ہیں تو تغلق اور غزنوی، بابر اور نظام حیدرآباد کی تاریخ میں بھی سیکڑوں اچھے پہلو ضرور ہوں گے!
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS