سائنسی علوم کاداعی ٔ اول:قرآن حکیم ہے

0

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

تاریخی اعتبار سے قرآن عظیم ایک نئے فکری دور کا داعی اور علمبردار ہے جس نے اپنے متبعین کو نئے نظریات سے آگاہ کرکے فکری دنیا کی کایاپلٹ دی اور جدید علم نیز جدید صنعتوں کی طرف توجہ مبذول کراکے ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی۔
یہ انہی آیات کا کرشمہ تھا کہ قرونِ وسطیٰ میں اہل اسلام نے قدیم اقوامِ عالم مثلاً یونانی، ہندوستانی، ایرانی، رومی اور مصری وغیرہ علوم و فنون کے باقی ماندہ علمی سرمائے کو اکھٹا کرکے ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور کتب خانے، یونیورسٹیاں اور تجرباتی معمل Laboratories قائم کرکے سائنسی علوم کو بے انتہا ترقی دی اور جدید سائنس کی بنیاد ڈالی۔ اس موقع پر یہ تاریخی حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یونانی فکرو فلسفہ (جس میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔) محض نظری اور قیاسی تھا۔ عملی و تجرباتی سائنس کا یونانیوں کے ہاں کوئی تصور نہیں تھا۔ اور بقول ایڈون اے برٹ یونانی ذہن تسخیر کائنات کے تصور سے قطعاً ناآشنا تھا۔ اسی طرح یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ سولہویں صدی کے آخر تک یورپ بھی تجرباتی سائنس Practical Science سے بالکل ناواقف تھا۔ چنانچہ یورپ میں جدید تجربیت کا پہلا مفکر فرانس بیکن (۱۵۱۶-۱۶۲۶ء) تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس نے یورپ کو فلسفۂ تجربیت سے پہلی بار روشناس کراتے ہوئے سائنٹفک طریق تحقیق کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح بیکن کی فکری تحریک کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتا ہے۔
مگر اس کے برعکس اہل اسلام آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں یعنی بیکن سے سات آٹھ سو سال پہلے ہی تجرباتی سائنس کی بنیاد ڈال کر مختلف سائنسی علوم کی تدوین کررہے تھے اور سائنسی تجربہ گاہیں اور صدگاہیں قائم کرکے قرآنِ عظیم کی انقلابی تعلیم کے مطابق قدیم نظریات کو مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھ رہے تھے اور آزادنہ طور پر نئے نئے نظریات قائم کررہے تھے۔ اس طرح مسلمانوں نے اپنے دور میں انقلابی اقدامات کرکے ایک نئے اور سنہرے دور کا آغاز کیا اور ایک نئی تاریخ بنائی۔واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ renaissance اور موجودہ سائنس کی بنیاد اہل اسلام ہی کی تحقیق و تدوین اور ان کے بلند پایہ افکار ہی پر مبنی ہے، جیسا کہ پروفیسر حتّی نے اپنی قابل قدر کتاب ’’ہسٹری آف دی عربس‘‘ میں اور اسی طرح دیگر فضلانے بھی اپنی تحریروں میں اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ حتّی تحریر کرتا ہے:
Moslem Spai wrote one of the brightest chapters the intellectual history of medieval Europe, Between the middle of the eight and begining of the thirteenth centuries, as we have noted before, the Arabic-speaking peoples wear the main bearers of the torch of culture and civilization throughout the world. Moreover they were the medium through which ancient science and philosophy we recovered. Supplemented and transmitted in such a way as to make possible the renaissance of Western Europe. In all this. Arabic Spain had a large share.۱؎
۱؎ (History of the Arabs, Philip K. Hitti, P.N. 557, Macmillan Education LTD, London Tenth Edition. 1970)
[یعنی مسلم اسپین قرونِ وسطیٰ میں یورپ کی ذہنی ارتقا کی تاریخ بنانے میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آٹھویں اور تیرہویں صدی کے درمیان، جیسا کہ ہم اس سے پہلے ملاحظہ کرچکے ہیں، عربی بولنے والے ہی پوری دنیا میں تہذیب اور تمدن کے مشعل برادر رہے ہیں۔ مزید براں وہی قدیم سائنس اور فلسفے کی بازیافت کا بھی واسطہ بنے۔ پھر ان (علوم) میں اضافہ کرکے انہیں اس طور پر منتقل کیا کہ (انہی کے باعث) مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوسکی۔ اس پورے عمل میں عرب اسپین کا بہت نمایاں حصہ ہے۔]
نیز مشہور امریکی سائنس داں جارج گیمو اپنی کتاب ’’بایوگرافی آف فزکس‘‘ میں تحریر کرتا ہے:
Arabian scholars studied and tarnslated Greek manuscripts salvaged from the partially destroyed Hellenic libraries, and carried the banner of science while Europe was suffocating in the clutches of medieval scholasticism.۲؎
۲؎ (Biography of Physics, Geroge Gamow, P.N. 26, First Harper Torch Book Edition Published 1964 by Harper and Row publisher, New york.)
[یعنی عرب محققین نے یونانی کتابوں کو ان کا مطالعہ اور ترجمہ کرکے انہیں جزوی طور پر تباہ شدہ ہیلینی کتب خانوں کے ذریعہ ضائع ہونے سے بچالیا۔ اور (اس طرح) انہوں نے سائنس کا پرچم ا اس وقت بلند کیا جب کہ یورپ کا گلاروایتی اصول پرستی کے ہاتھوں گھونٹا جارہا تھا۔]
لہٰذا یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ تاریخی اعتبار سے قرآن عظیم ایک نئے فکری دور کا داعی اور علمبردار ہے جس نے اپنے متبعین کو نئے نظریات سے آگاہ کرکے فکری دنیا کی کایاپلٹ دی اور جدید علم نیز جدید صنعتوں کی طرف توجہ مبذول کراکے ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ قرآنِ حکیم کی حسبِ ذیل ایک اہم ترین آیتِ کریمہ میں غور فرمایئے تو آپ کو نظر آئے گا کہ قرآن حکیم نے کس قدر روشن فکری اور فراخ دلی کے ساتھ نئے نئے علوم اور صنعتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:
ترجمہ: زمین اور آسمانوں کی تخلیق میں، دن رات کے ہیر پھیر میں، اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے لئے نفع بخش سامان لیکر چلتی ہیں، اس پانی میں جس کو اللہ نے بلندی سے اُتارا اور اس کے ذریعہ زمین کو زندگی بخشی جب کہ وہ مردہ تھی پھر اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلادیئے، اور ہوائوں کے ادل بدل میں، اور اس بادل میں جو زمین اور آسمان کے درمیان مسخر رہتا ہے (غرض ان تمام مظاہر میںعقل مندوں کے لئے یقینا (بہت سی) نشانیاں موجود ہیں۔(بقرۃ: ۱۶۴)
جیسا کہ شیخ طنطاوی جو ہری نے لکھا ہے، اس موقع پر بہت سے تمدنی فوائد کا بھی اثبات ہورہا ہے۔ مثلاً اس موقع پر اہل دانش کی سند ان لوگوں کو عطا کی جارہی ہے جواجرام سماوی کی تخلیق میں غور کرتے ہیں، دن رات کے ہیر پھیر اور ان کے اسرار و عجائب معلوم کرتے ہیں، سمندری کشتیوں، جہازوں اور سامان تجارت کے فوائد پر نظر ڈالتے ہیں، بارش کے اسرار، نباتات کے مظاہر، چوپایوں کی خلقت اور ان کی سرشت کا مطالعہ کرتے ہیں، ہوائوں کے ضوابط کا علم حاصل کرتے ہیں، بارش اور بادلوں کے اسرار معلوم کرتے ہیں۔ غرض ان تمام چیزوں کی حقیقت و ماہیت اور ان کے اسرار و فوائد کے جاننے اور ان میں غور و فکر کرنے والوں کو اس موقع پر ’’صاحب عقل ’’یا‘‘ اہل دانش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ فلکیات، بارش، ہوا، بادل، ندی نہریں، معدنیات اور دیگر تمام طبیعی و صنعتی علوم کی تحصیل ضروری ہے۔ غور فرمایئے تو پتہ چلے گا کہ یہاں پر جن کشتیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ لوہا، کوئلہ اور بجلی کی محتاج ہیں۔ (اور یہ بات موجودہ دور کے لئے نئے جہازوں پر زیادہ صادق آتی ہے اور جہاز سازی کے لئے ان تمام متعلقہ چیزوں کا علم اور ان کی جانکاری حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔) غرض اس آیت کریمہ میں تمام اہم علوم کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
ان مباحث سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوگئی کہ اسلام کی نظر میں مظاہر عالم اور ان کے منافع سے استفادہ کرنا بری بات یا کوئی ذلیل حرکت نہیں ہے۔ جیسا کہ دیگر مذاہب میں سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں انسان ہی کے لئے تخلیق کی گئی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان خدائی ضوابط اور شرعی حدود کے اندر رہ کر ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائے اور گیسوئے انسانیت کو سنوارے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین و دنیا دونوں کی آمیزش کا ایک سنگم اور ان دونوں کے ملاپ کا ایک حسین گلدستہ ہے، جس کا کوئی ادنیٰ سا تصور بھی ہمیں دیگر ادیان میں نہیں ملتا۔ وہ یہودیوں کی طرح صرف دنیوی آسائشوں ہی کو اصل قرار نہیں دیتا اور نہ مسیحیت اور ہندی ادیان کی طرح ترکِ دنیا پر زور دیتا ہے۔ بلکہ وہ دنیوی آسائشوں کو دین و اخلاق کے تحفظ اور آخرت کی کامیابی کا بھی ذریعہ سمجھتا ہے۔ (رَبَّنَا آتِنا…) (اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز) میں آسائشِ دنیا کو آسائشِ آخرت پر مقدم رکھنے کا فلسفہ ظاہر کرتا ہے۔
خالقِ ارض وسماوات کے بنی نوع انسان پر لاتعداداور لامتناہی احسانات ہیں۔ اس کائنات کا ایسا کوئی انسان نہیں ہے، خواہ پیغمبر ہویا قطب وابدال، ولی ہویامفکروسائنس داں، یا محقق ومعلم، جواکرام والطاف اور عنایات ومراعاتِ رب ذوالجلال کااِدراک نہ کرسکے۔ جملہ احسانات میں سے ایک قرآنِ حکیم ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ربِّ کائنات کاودیعت کردہ ابدی اور دائمی دستورِ حیات ہے، جس کے قوانین وضوابط ہمہ جہت اور متنوع ہیں۔ یہ انسانی زندگی پر رحمتوں اور مہربانیوںکاایسا بحرِ بیکراں ہے، جس کااحاطہ کرنااور تمام فیوض وبرکات کوورطۂ تحریر میںلانا انسانی قدرت وطاقت کے بس میں نہیں۔ اس کے موضوعات کی کہکشاں ہر وقت ، ہر لمحے چمکتی دمکتی رہتی ہے۔ یہ ضیائیں انفرادی،عائلی،عمرانی،قومی،بین الاقوامی،ثقافتی،معاشرتی،معاشی اور اخلاقی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مبین میں پھیلادی ہیں جسے ہم آفتابِ جہاںتاب کے تعلیماتی انوار بھی کہہ سکتے ہیں۔قرآن کریم کی تعلیماتِ رُشدوہدایت، انسانی زندگی کی دینوی اور اُخروی فلاح وکامرانی کی ضامن ہیں۔
قرآنِ مجیدنے انسانی فہم وفراست اور علم وحکمت کے لیے کچھ ایسی چیزیں بیان کردی ہیں جوآج کی اس دنیا کے انسانوں کے لیے بے حداہم ہیں۔ آج جب سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے گُن گائے جارہے ہیں، قرآن حکیم روحانی اور اخلاقی اقدار ہی نہیں، کائنات میں تخلیق کردہ اشیا سے بھی انسان کواستفادے کی دعوت دیتاہے اور اللہ تعالیٰ ان فیوض وبرکات کوانسانیت کی فلاح قرار دیتاہے۔ آئیے ان الطاف وعنایات میں سے چند احسانات کی افادیت کامطالعہ کریں۔
تسخیرِ کائنات :
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کی ہے، اور بنی آدم کوعلم کے نور سے منور کرکے اشرف المخلوقات بنادیاہے۔ پھر خالقِ کائنات نے انسان کوخیر کثیر’علم وحکمت‘ سے نوازاہے اور حکم دیاہے کہ تحقیق و تفتیش کی ریاضت اسی علم وحکمت سے کرواور اپنی تحقیقات کے زور سے عملِ تسخیر کواپنی متاعِ عزیز بناؤ۔ خدائے بزرگ وبرتر نے بتادیاہے :
’’اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کردیاہے۔‘‘(الجاثیہ۴۵:۱۳)
غوروفکر کرنے والوں کے لیے مخلوقاتِ آسمانی اور زمینی اور شب وروز میں بھی نشانیاں رکھ دی ہیں :
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مندلوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔‘‘(آل عمران،۳:۱۹۰)
یہ ہے وہ تسخیرکرنے کی واضح دعوت جو ربِّ کائنات نے اہلِ بصیرت کو دی ہے۔ تحقیق کا ایک میدان ان کے سامنے رکھ دیاہے۔ اس کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ اُولی الالباب ہیں جنھیں علمِ لدنی اور حکمت کے خیر کثیر سے نوازاگیاہے۔ وہ تحقیق کے میدان میں کودیں، پہاڑوں میں،سیاروں میں،آسمانوں کے آفتاب وماہتاب میں، دشت وصحرااور بحرِ ظلمات میں، دریاؤں اور سمندروں کے آبی جانوروں میں، الیکٹروں،پروٹون میں،عنصر اور ایٹم میں پوشیدہ قوتوں میں غوروخوض کریں۔ تحقیق کے زور پر تسخیر کے عمل کومضبوط بنائیں۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن سے پہلے کہاںیہ تحقیقی عمل کاانکشاف تھا۔ انسان کب تحقیق کی قوت اور کائنات کے حقائق کوجاننے کاعلم رکھتاتھا، بلکہ کب وہ اس بات سے باخبر تھاکہ کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ توقرآنِ حکم کافیض ہے کہ انسانیت کی بہبودکے لیے سائنس داں،مفکر،معلم قرآنِ مجیدکے عطاکردہ علم سے فیض یاب ہوکر علم وتحقیق کے نتائج پر ہر چیز فراہم کر رہے ہیں۔
…………………………(جاری)
قرآن ہی اس نورِ تحقیق کامنبع ہے۔ اگر قرآن تحقیق کی یہ ضیائیں نہ پھیلاتاتوقافلۂ انسانیت تار یکیوںمیں بھٹکتارہتا۔
یہ بات توہر شخص جانتاہے کہ قرآن حکیم کوئی سائنس کی کتاب نہیں بلکہ دین واخلاق اور شرعی قوانین کی کتاب ہے، لیکن ضمناً اس میں فطرت کی تمام نیرنگیوں اور مختلف علوم وفنون کے حقائق معارف کاتذکرہ موجودہے جس کوہر علم وفن کاماہر گہری نگاہ اور عمیق نظر ڈالنے سے معلوم کرسکتاہے بلکہ بعض دفعہ اس کی عظمت وجلال کے نقوش اس پر اس طرح مرتسم ہوتے ہیں کہ وہ حیرت زدہ اور مبہوت ہوکر رہ جاتاہے۔
جس ہستی نے اس کائنات کوتخلیق کیااور جوذات اس کوعدم سے وجودمیں لائی اس ہستی اور ذات نے اس کلام برترکوبھی نازل فرمایااور ان دونوں میں اس قدر مطابقت، ہم نوائی اور ہم آہنگی رکھی کہ مختلف علوم وفنون کے ماہرین جب ایک طرف کائنات پر نگاہ ڈالتے ہیںاور دوسری طرف قرآن حکیم کامطالعہ کرتے ہیں تو ان کے لیے مختلف علوم کے اسرار ورموز کاایک دروازہ کُھل جاتاہے جس سے جھانک کر انہوں نے ان علوم وفنون کے مختلف اصول وضوابط وضع کیے۔ اگریہ کہاجائے تویہ نہ تو مبالغہ ہوگااور نہ ہی کذب کہ قیامت تک جتنے بھی علوم و فنون خصوصیت کے ساتھ نظام کائنات کے متعلق وجودمیں آتے جائیں گے اور ان کی جو بھی تحقیق ہوتی جائے گی ان کی تمام تفصیلات کوقرآنی اشارات کے ذیل میں لایا جاسکتاہے اور حدیث میں جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے وہ کس قدر درست اور صحیح ہے کہ :
’’القرآن لایخلق علیٰ کثرۃ علیٰ الردولاتقضی عجائبہ وہوالفصل لیس بالہزل ولایشبع منہ العلماء ولاتزیغ بہ الأہواء۔ ‘‘ ۱؎
’’قرآن حکیم کوجتنی بار پڑھاجائے یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے، یہ حق وباطل میں فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، یہ مذاق نہیں ہے، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اور اس سے خواہشات نفسانی میں کجی پیدانہیں ہوتی۔‘‘
قرآن حکیم کائنات اور نظام کائنات کاامین ہے :
بہرحال قرآن حکیم کے مطالعہ اور کائنات پر تفکر وتدبر کی وجہ سے ایک ہمہ دان اور ہمہ بین ہستی کاوجودثابت ہوتاہے اور پتہ چلتاہے کہ قرآن حکیم اس کائنات اور نظام کائنات کاامین ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں کئی جگہ فرمایاگیا :
’’ وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ‘‘ (سورہ النحل، ۸۹) ۲؎
’’اور ہم نے آپ پروہ کتاب نازل کی جو ہرشی کی خوب وضاحت کرنے والی ہے۔‘‘
اور ایک جگہ پر ارشاد فرمایا :
’’وَمَا مِنْ غَائِبَۃٍ فِیْ السَّمَاء وَالْأَرْضِ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْن‘‘(سورہ النمل،۷۵) ۳؎
’’اور زمین وآسمان کاکوئی ایسا راز نہیں ہے جو اس کتاب مبین میں موجودنہ ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْدٌ‘‘ (حم سجدہ:۵۳) ۴؎
’’اور ہم (ان منکرین حق کو) ایسے نشانات دکھادیں گے، اطراف عالم میں بھی اور خودان کی اپنی ہستیوں میں بھی، تاآنکہ اس کلام کی حقانیت ان پر واضح ہوجائے۔ کیایہ بات ان کی (تسلّی وتشفّی کے لیے) کافی نہیں ہے کہ تیرا رب (اس کائنات کی) ہر چیز سے واقف وآشناہے۔‘‘
قرآنی تقاضا ہے کہ انسان مظاہر کائنات پر غور کرے :
ان آیات اور ان کے علاوہ قرآن حکیم کی اور کئی آیات اس بات کاتقاضا کرتی ہیں کہ انسان مظاہر کائنات اور کائنات پر غور وفکر کرے۔ چنانچہ جن لوگوں نے علوم جدید اور سائنس میں کمال حاصل کیا ہے وہ جب قرآن حکیم پر گہری نگاہ ڈالتے ہیں تونہ صرف ان کواس کامعجزہ ہوناصاف نظر آتاہے بلکہ ان پر سائنس اور علوم جدیدہ کے اسرارومعانی بھی منکشف ہوتے ہیں جو قرآن حکیم کے علاوہ کسی اور کتاب میں انہیں نظر نہیں آتے۔ کائنات اور نظام کائنات کے بارے میں ان حقائق کوقرآن حکیم میں بیان کرنے کی غرض وغایت حضرت شاہ ولی اللہ کی اصطلاح میں ’’التذکیربآلاء اللہ‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی نوازشات اور مظاہر کائنات کے ذریعہ تذکیر وانتباہ تاکہ یہ مغرور اور باغی انسان اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے اور نیکی اور خداپرستی کاراستہ اختیار کرلے۔ ۵؎
مختصریہ کہ قرآن حکیم کی مختلف آیات میں کائنات اور نظام کائنات کے علوم ومعارف کاایک بحر محیط موجزن ہے، اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق نئے نئے حقائق منظر عام پر آرہے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی آیات کی غرض وغایت اور سب سے بڑھ کر ان کا اچھوتا،دل نشین اور سحر انگیز اسلوب بیان یہ سب ایسے اُمور ہیں جن سے ذوق ووجدان رقص کرنے لگ جاتے ہیں اور عقل بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ یہ یقیناً کلام الہٰی ہے۔(جاری)

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS