بدلتے عالمی حالات کی مناسبت سے سیاست تبدیل ہوتی ہے، ملکوں کی ترجیحات بدلتی ہیں، دو ملکوں کے رشتے بدلتے ہیں، چنانچہ عالمی فوجداری عدالت کے روسی سربراہ ولادیمیر پوتن کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کرنے کے دو دنوں بعد چینی سربراہ شی جن پنگ کے دورۂ روس پر نہ کوئی حیرت ہونی چاہیے، نہ یہ سوچتے ہوئے شام کے سربراہ بشارالاسد کے دورۂ متحدہ عرب امارات پر حیرت ہونی چاہیے کہ عرب لیڈروں کے ان سے تعلقات خراب تھے اور ان کی حمایت ایران کر رہا تھا، کیونکہ سعودی حکومت نے خود ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کوسعودی عرب آنے کی دعوت دی ہے اور بشار کے متحدہ عرب امارات کے دورے نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان صحیح معنوں میں مصالحت ہوئی ہے، ایران اور عرب واقعی ایک دوسرے سے رشتہ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا بھی سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے وہ جاپان کے ہندوستان سے تعلقات زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان اور جاپان کا اتحاد اس خطے کے ان ملکوں کے لیے بھی امید افزا ہے جن کے لیے چین کی توسیع پسند پالیسی مایوس کن ہے۔ دراصل چین نے کبھی پڑوسیوں کی اہمیت نہیں سمجھی۔ ہندوستان کے لوگوں نے جب یہ مانا کہ ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ ہیں، ’کیوبن میزائل کرائسس‘ کی وجہ سے سوویت یونین اور امریکہ کے ٹکراؤ اور دنیا کے بدلتے حالات سے فائدہ اٹھاکر چین نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد بھی ہندوستان کے علاقوں پر اس کی نظر رہی ہے۔ پہلے ڈوکلام اور پھر گلوان کے تنازع نے یہ بات ثابت کی ہے کہ چین کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے خلاف ہندوستان کو ہرحال میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھنی چاہیے۔ جاپان کا بھی چین سے تنازع ہے۔ بحیرۂ شرقی چین کے جاپانی علاقوں پر چین دعویٰ کرتا ہے اور اسے اپنا بتاتا ہے۔ وہ بحیرۂ شرقی چین کے جنوبی کوریا کے علاقوں کوبھی اپنا بتاتا ہے۔ اس نے شمالی کوریا کو دائرۂ اثر میں لے رکھا ہے۔ یہ بات جنوبی کوریا کے لیے پریشان کن ہے، اس لیے جنوبی کوریا نے نئے سرے سے جاپان سے رشتہ استوار کرنے پر توجہ دی ہے۔ اسی لیے جاپانی وزیراعظم کیشیدا کے دورۂ ہند سے پہلے جنوبی کوریا کے صدر یون سُک یول جاپان کے دورے پرگئے تھے۔ جنوبی کوریا کے کسی سربراہ کا پچھلے 12 سال میں یہ پہلا جاپانی دورہ تھا۔
ہندوستان کے امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں، جنوبی کوریا اور جاپان سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ 2022-2021 میں ہندوستان اور جاپان کے درمیان تجارت 20.57 ارب ڈالر کی ہوئی۔ ہندوستان نے جاپان سے 14.49 ارب ڈالر کی اشیا درآمد کی۔ مودی اور کیشیدا دونوں ملکوں کے رشتوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 2022 میں دونوں لیڈروں نے تین بار ملاقات کی۔ امریکہ، آسٹریلیا اور ہندوستان کے ساتھ جاپان بھی ’کواڈ‘ کا حصہ ہے اور ’کواڈ‘ کے سلسلے میں چین کی بے چینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ روس سے مستحکم تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کے روس سے اچھے تعلقات ہیں۔ شروع میں روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے ’کواڈ‘ کے حوالے سے ہندوستان کے خلاف بیان دیا تھا مگر یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد یہ بات روس کی سمجھ میں آگئی کہ ہندوستان ایک خودمختار ملک ہے، وہ نہ اپنے مفاد سے کوئی سمجھوتہ کرے گا اورنہ دوستی کو مفاد کی نذرکرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ روس کا ہندوستان سے رشتہ کمزور نہیں پڑا ہے۔ روس کو یہ احساس ہے کہ ہندوستان اس وقت اس سے رشتہ نبھا رہا ہے جب اسے تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر شی جن پنگ روس کے سہارے چین کی پوزیشن مضبوط اور امریکہ کی پوزیشن کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے دورۂ روس پر نظر رکھنا اسی لیے ضروری ہے۔ یہ دورہ کرکے شی نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ روس کے ساتھ چین کھڑا ہے اور امریکہ یا یوروپی ملکوں کی اسے پروا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین، روس کے ساتھ ملک کر دنیا کو کیا واقعی کثیر محوری بنانے کی طرف بڑھ چکا ہے؟ بات اگر یہ ہے تو امریکہ کو طاقت کا زعم چھوڑ کر اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے جبکہ وطن عزیز ہندوستان کو جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ملکوں سے تعلقات اور زیادہ مستحکم بنانا چاہیے۔
[email protected]
اہم کیوں ہیں سربراہوں کے دورے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS