کانگریس اور حزب مخالف زوال پذیر

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی

ہرچناؤ اپنے نتائج سے ایک سیاسی پیغام دیتاہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں اوراس کے لیڈران پر منحصر کرتاہے کہ وہ اسے کس شکل میں قبول کرتے ہیں۔ یہ بھی فطری بات ہے کہ ہارنے والی پارٹی پبلک مینڈیٹ پر شکوک وشبہات بھی ظاہرکرتی ہے۔ یہ چیز بالکل بے وجہ نہیں ہوتی ۔ گزشتہ انتخابات میں ای وی ایم پر سوالات اٹھائے گئے ۔ سرکاری مشینری کی غیرجانبداری شبہ کے دائرے میں تھی اورمذہب کے نام پر ووٹرس کے پولارائزیشن کا مسئلہ تو عام بات ہے لیکن بی جے پی کی فتح کا سب سے بڑا سبب ملک کے اندر نریندرمودی کی کرشمائی شخصیت جس پر بین الاقوامی سطح پر ان کے خلاف ہوئے تمام حملے بھی بے اثر رہے ۔ سبھی لیڈران یہ تو کہتے ہیں کہ عوام کا فیصلہ سرآنکھوں پر لیکن اگر ایسا فیصلہ انکے خلاف آتاہے تو نتیجہ گلے کے نیچے نہیں اترتا۔شمال مشرق کی تین ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتیجوں کا ایک واضح پیغام ہے کہ حزب مخالف سیاست کادور اب زوال پذیر ہے۔ ووٹرس اب حزب اقتدار کو ایک اورموقع دینے کو تیار ہیں۔ تین ریاستوں تریپورہ،میگھالیہ اورناگالینڈ کے چناؤ میں ترپورہ کے چناؤ کی سیاسی اہمیت اس لئے واضح ہے کیونکہ یہاں کئی مدعے ایک ساتھ آزمائش میں تھے۔ اول ، کیا دائیں بازو اوربائیں بازو کے نظام فکر کے تناظرمیں بی جے پی اپنی فتح دہراسکتی ہے؟دوئم ،کیامارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی اورکانگریس کااتحاد حزب مخالف کے ایک پلیٹ فارم پر آنے کا کوئی راستہ کھولے گا؟سوئم، ریاست کے چناوی میدان میں آئی نئی پارٹی ٹپرا موتھا کو عوامی حمایت ملے گی یا نہیں؟ریاست کو تقسیم کرکے ایک الگ قبائلی ریاست بنانے کے مدعے پر رائے دہندگان کی کیا رائے ہے؟انتخابی نتائج نے ان سبھی مدعوں پر واضح فیصلہ سنادیاہے۔
بی جے پی کی لگاتار دوسری فتح سے واضح پیغام ملتاہے کہ کانگریس اورمارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت اب وہاں کے عوام کو راس نہیں آرہی ہے۔ ان کی نظر میں بی جے پی ہی ان کے مستقبل کو سنوارسکتی ہے۔بی جے پی کے خلاف سیدھے نظریاتی ٹکراؤ کی سطح پر بائیں بازو کی پارٹیوں کو تیسری بار شکست کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ پہلی بار 2018میں ترپورہ میں جب بی جے پی زیرو سے 36نشستوں پر پہنچی اورمارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کو اقتدار سے باہر کیا۔ دوسری بار 2021ء میں بنگال میں بائیں بازوکی پارٹیوں کو زیرو پر پہنچادیا۔ تیسری بار اس چناؤ میں مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کی نشستیں اورووٹ فیصد دونوں کو گھٹاکر مات دی۔ کانگریس اورمارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کا اتحاد بنگال کے بعد ترپورہ میں بھی ناکام رہا۔ اگریہاں کامیابی ملتی تو حزب مخالف کے اتحاد کا نیا ماڈل بنانے کی کوشش ہوتی لیکن ان نتائج نے حزب مخالف کے اتحاد کی اس نئی کوشش کو گہرہ جھٹکاپہنچایاہے۔ حزب مخالف کے اتحاد کا راستہ ، یہ تو نہیں کہاجاسکتاکہ بند ہوگیاہے لیکن مشکل ضرور ہوگیاہے۔ ترپورہ کی نئی پارٹی کی کارکردگی شاندار ہے۔ پردیوت دیو برمن کی پارٹی کچھ ہی ماہ پرانی ہے اوراس کا مقابلہ ان دوپارٹیوں کے اتحاد سے تھا جو چار دہائیوں سے زیادہ وقت تک اس ریاست پر حکومت کرچکی ہیں۔ یہ کارکردگی یہی بتاتی ہے کہ زمین سے جوڑنے اورزمین سے کٹے ہونے کا کیا نتیجہ ہوتاہے۔ کم سے کم ترپورہ میں کانگریس اورمارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی دونوں ہی وہاں کے عوام کے جذبات وخواہشات سے بے خبر ہیں۔ بی جے پی نے سب سے پہلے وہاں کی عوام کی توقعات کو سمجھا پھراسی کے مطابق وہاں کی انتخابی حکمت عملی تیار کی ۔ ریاست کی تقسیم کرکے ایک نئی ریاست بنانے کے مدعے پر دونوں پارٹیوں نے کھل کر اپنی رائے ووٹرس کے سامنے رکھیں۔ ٹپرا موتھا کاکہناتھا کہ وہ علاحدہ ریاست سے کم کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں۔ رائے دہندگان نے ٹپرا موتھا کے مطالبہ پر ہمدردی تو ظاہر کی لیکن اس کی حمایت نہیں کی۔ لوگوں نے مانا کہ اس نئی پارٹی کو قبائلی سماج کے مفاد کی فکر ہے لیکن بی جے پی کو اس نے زیادہ ذمہ دار پارٹی کی شکل میں دیکھااورصوبے کے اتحاد کے حق میں ووٹ دیا۔
ناگالینڈ میں این ڈی پی پی اوربی جے پی کا اتحاد واضح اکثریت کے ساتھ لوٹ آیاہے ۔ یہاں نیشنلسٹ ڈیموکریٹک پروگرسیو پارٹی کے نیفیوریو کی قیادت میں بنی حکومت میں بی جے پی شامل ہے۔ میگھالیہ میں گزشتہ انتخابات کی طرح ہی کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ جیسا کہ امکان تھا وہاں کونڈراڈ سنگما کی قیادت میں نیشنل پیوپلس پارٹی کی حکومت بن گئی ہے اوربی جے پی اس میںبھی شامل ہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ شمال مشرق کی ان تینوں ریاستوں کے نتائج کا ملکی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟اسمبلی الیکشن کے نتائج کا لوک سبھا چناؤ سے کوئی سیدھا ناطہ نہیں ہوتا۔ یاد کریں جب 2018 میں بی جے پی راجستھان، چھتیس گڑھ،مدھیہ پردیش،میں الیکشن ہار گئی تھی اورکرناٹک میں اکثریت سے دور رہ گئی تھی ۔ اس ناطے 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی شکست کی پیشن گوئی کی جانے لگی تھی لیکن چند ماہ بعد ہوئے عام انتخابات میں ان صوبوں میں اس کی لہر دیکھنے کو ملی ۔ بہر حال چناوی نتائج کا الگ الگ پارٹیاں اپنے انداز میں تجزیہ کرتی ہیں۔ جیتنے والادعویٰ کرتاہے کہ وہ آگے بھی جیتاگا۔جو ہارجاتاہے وہ ان نتائج کو زیادہ اہمیت نہ دینے کا مشورہ دیتاہے ۔ پھر بھی ہر چناؤ کا نتیجہ کچھ اشارہ ضرور کرتاہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکشن کے وقت راتوں رات ہوا بدلتی ہے ۔
مجموعی طور پر ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی اورکانگریس کی ناکامی کا سبب کیاہے ۔یہ تو ماننا پڑے گاکہ بی جے پی کا آئی ٹی سیل جتنا فعال اورچست ہے اتنا کسی پارٹی کا اطلاعاتی ادارہ نہیں ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں کانگریس کی تشہیر بہت کمزورتھی۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھرگے ان تینوں ریاستوں کو چھوٹی ریاستیں کہہ رہے تھے اوراسی لحاظ سے وہاں چناؤ کی تشہیر بھی کی گئی۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘کی قیادت کرنے والے راہل گاندھی نے ایک بار میگھالیہ کی ایک ریلی کو خطاب کرنے کے علاوہ چناؤ کے سلسلے میں کسی ریاست کا دورہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس وزیراعظم نریندرمودی نے گزشتہ 9سال میں60 بار شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کیا۔ دوسرے مودی نے ناگالینڈاورمیگھالیہ جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں اعلان کیاکہ ہم آپ کی روایتوں اورعادتوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے بیف کھانے کے معاملے کو انہوں نے کبھی ایشو نہیں بنایا۔ جب بی جے پی نے محسوس کیا کہ ترپورہ میں پارٹی کی مقبولیت کم ہورہی ہے توانتخابات سے چند ماہ قبل ریاست میں قیادت بدل دی اوریہاں نیا چہرہ سامنے لاکر اینٹی انکمبنسی فیکٹر کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کیلئے مثبت پہلو یہ ہے کہ ان انتخابات کے بعد پانچ ریاستوں کی چھ نشستوں پر ہوئے ضمنی انتخاب میں ان پر مہاراشٹرا،مغربی بنگال اورتمل ناڈو میں ایک ایک نشست پر فتح درج کی ہے۔ لہٰذا کانگریس کیلئے ابھی سب کچھ ختم نہیں ہواہے۔ لوک سبھا الیکشن ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ بی جے پی کی کارکردگی سے سبق لیتے ہوئے کانگریس کو حزب مخالف سے اتحاد کی خاطر موقع محل کے مطابق اپنی پالیسی میں اعتدال لانا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS