چھتیس گڑھ
کی راجدھانی رائے پور میں آج سے کانگریس کا 85 واں اجلاس شروع ہوچکا ہے۔پہلے دن اسٹیئرنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ کانگریس صدر کو کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کے اراکین کو نامزد کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے یعنی اب سی ڈبلیو سی کیلئے پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہوں گے۔یہ ایک غیرمعمولی بات ہے اور صدر کو زیادہ بااختیار کرنے کی سمت اسے پارٹی کی مثبت حکمت عملی کے طور پر دیکھاجارہاہے۔ویسے بھی اگلے عام انتخابات اور اس سے قبل رواں سال مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اس اجلاس کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔اس اجلاس میں تقریباً 1800 منتخب اور شریک اے آئی سی سی کے نمائندے (سابق ایم ایل اے، ایم پی اور پارٹی عہدیدار)، 9,000 سے زیادہ پردیش کانگریس کمیٹی کے نمائندے اور 3,000 شریک نمائندے پالیسی اور انتخابی حکمت عملی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے شامل ہورہے ہیں۔توقع یہ بھی ہے کہ پارٹی کی انتخابی حکمت عملی اور تنظیمی طاقت کے حوالے سے اس اجلاس میںکئی اہم فیصلے ہوں گے۔پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے کو نہ صرف اسٹیئرنگ کمیٹی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی(سی ڈبلیو سی) کے ارکان نامزد کرنے کامکمل اختیار بھی دے رکھا ہے اور آج اسٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ میں سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے غیرحاضر رہ کر ان الزامات کی نفی بھی کردی کہ کھڑگے پارٹی کے پراکسی صدر ہیں۔تین دنوں تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں کل سیاسی، اقتصادی اور بین الاقوامی تجاویز پر بحث ہونی ہے جب کہ 26 فروری کو کسانوں، نوجوانوں، روزگار، تعلیم اور سماجی انصاف کے موضوعات پر پارٹی لیڈران کی آنے والی تجاویز زیر بحث لائی جائیں گی۔اس کے بعد پارٹی آگے کی حکمت عملی کا اعلان کرے گی۔
گاندھی خاندان کے باہر کسی لیڈر کی صدارت میں عرصہ بعد ہونے والایہ اجلاس ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامہ میں کتنا اہم ثابت ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اجلاس سے قبل ہی جس طرح کانگریس لیڈروں پریلغارشروع کردی گئی، اس سے یہ محسوس ہورہاہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی گھبراہٹ کا شکار ہے۔ یہ گھبراہٹ ہی تھی کہ رائے پور اجلاس میں شرکت کیلئے جارہے کانگریس لیڈروں میں سے ایک پون کھیڑا کو جمعرات کو دہلی میں جہاز سے اتار کر گرفتار کر لیا گیا تاہم دہلی کی ایک عدالت سے عبوری ضمانت ملنے کے بعد ان کی رہائی حکومت کی مجبوری ہوگئی۔ اس سے قبل چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت کے محنت، ماحولیات اور جی ایس ٹی محکموں کے دفاتر پرسینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ساتھ ای ڈی کے افسران نے چھاپہ مارا، اس سے دو روز پہلے چھتیس گڑھ میں کانگریس پارٹی کے خزانچی رام گوپال اگروال، کانگریس ایم ایل اے دیویندر یادو اور چندر دیو رائے سمیت نصف درجن کانگریس لیڈروں کے گھروں اور دفاتر پربھی چھاپے مارے گئے۔کانگریس لیڈروں کے گھروں اور دفاتر، کانگریس حکومت والی ریاستوں کے مختلف محکموں کے دفاتر پر ای ڈی اور دوسرے مرکزی اداروں کا چھاپہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی، کانگریس کو اپنا نظریاتی مخالف یا سیاسی حریف سمجھنے کے بجائے کانگریس اورا س سے وابستہ لیڈروں کو ذاتی دشمن سمجھ کر اسے مکمل طور پر ختم کردینا چاہتی ہے۔
ویسے بھی ’کانگریس مکت بھارت‘ بی جے پی کا خواب ہے، اس خواب میں رنگ بھرنے کیلئے وہ آئینی اداروں کو بھی انتہائی بے دردی کے ساتھ استعمال کرتی آرہی ہے۔ خاص کرای ڈی اور سی بی آئی اس کے محبوب ہتھیار ہیں جس کا استعمال وہ اپوزیشن خاص کر کانگریس کو ہراساں کرنے کیلئے کررہی ہے۔2014سے 2022کے درمیان فقط آٹھ برسوں میں ای ڈی نے 3010چھاپے مارے ہیں جن میں سے 95فیصد کا ہدف حزب اختلاف بالخصوص کانگریس رہی ہے۔ اسی طرح اس سال کے ابتدائی ڈیڑھ مہینوں میںکانگریس سے وابستہ لیڈروں اورا ن کے دفاتر پر ڈیڑھ درجن سے زیادہ چھاپے مارے گئے ہیں۔رائے پور میںجو چھاپے مارے گئے وہ کچھ دن پہلے یا کچھ دن بعد بھی ہو سکتے تھے لیکن اجلاس سے عین قبل چھاپے مار کر بی جے پی نے اجلاس میں خلل ڈالنے، کانگریس لیڈروں کا مورل ڈائون کرنے اور عوام کے درمیان انہیں مشکوک بنانے کی کوشش کی اورجب اس سے بھی بات نہیں بنی تو پون کھیڑا کو گرفتار کرلیاگیا۔
لیکن بی جے پی کی یہ کوشش کامیابی کا سفر بھی طے کر لے گی، یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ اپنی گرفتاری کے فوراً بعد پون کھیڑا نے جس طرح کا ردعمل دیا ہے، اس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کانگریس اب اپنی کمزوریوں پر کافی حد تک قابو پاچکی ہے اور آنے والے انتخابات میں وہ بی جے پی کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرے گی جس کا ناقوس رائے پور اجلاس سے ہی پھونکا جائے گا۔
[email protected]
کانگریس کا اجلاس اور بی جے پی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS