مسلموں اور غیر مسلموں کے مابین دوستی؟

0

ریاض فردوسی
قرآن مجید کے مختلف مقامات مثلاًسورہ الاعراف آیت نمبر 76, سورہ ابراہیم آیت نمبر۔9، سورہ فصلت آیت نمبر۔14 سورہ الزخرف آیت نمبر 23,24 اور 30 میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے جب اپنے مخاطب قوموں کو دین کی دعوت پیش کی تو بیشتر لوگوں نے دین کی باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینے کے بعد بھی اللہ کے دین کو مسترد کر دیا اور جان بوجھ کر،ہوش وحواس میں،بغیر کسی تردد کے،پیغمبروں کے ایمان ویقین کی باتوں کا صاف صاف انکار کر دیا اور خود اعتراف کیا کہ ہم کافر ہیں اور کہا کہ جو کچھ آپ دیکر بھیجے گئے ہیں ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے ہم ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور اللہ تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے(سورہ آل عمران، آیت نمبر 28)
ایک جگہ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اے ایمان والوں مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو؟ (سورۃ النساء، آیت نمبر 144)
سورۃ ممتحنہ ایت نمبر 1 میں ارشاد ہے: مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں،اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہو، پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو،اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علیٰ الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
سورہ مجادلہ آیت نمبر 22 میں ہے آپ ﷺ نہ پائیں گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور آخرت کے دن پر کہ دوستی کریں ایسے لوگوں سے جو مخالف ہیں اللہ کے اور اس کے رسول کے خواہ وہ اپنے باپ دادا ہی ہوں،یا اپنی اولاد یا اپنے بھائی، یا اپنے خاندان والے۔ مختلف اسلوب سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے دوستی رکھنے یا کرنے کو منع فرمایا۔اللہ تعالیٰ کے اس نصیحت کے بعد ہم دیکھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے کیوں ایسے کافروں سے مسلمانوں کو دوستی کرنے یا رکھنے سے منع کر دیا۔پیغمبروں کی دعوت کا انکار کرنے کے بعد کفار اور مشرکین چپ چاپ اور خاموش نہیں بیٹھ گئے، بلکہ آگے بڑھ کر رسولوں اور پیغمبروں کے حریف اور دشمن بن گئے اور انکے خلاف اقدام کرنا شروع کر دئے۔
سب سے پہلے رسولوں کی باتوں کا وہ تکذیب کرنے لگے۔انھیں دل آزار باتیں کہنے لگے،ان کا استہزاء اور تمسخر کرنے لگے۔انہیں برے القاب سے پکارنے لگے۔ پیغمبروں کے خلاف سازشیں،مکر اور فریبی کرنے لگے۔مثال کے طور پر نوح علیہ السلام کی دعوت پر انکی قوم اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور اپنے جسموں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے تاکہ نہ ہی دین کی بات کانوں میں پہونچے اور نہ ہی نوح علیہ السلام کا دیدار ہونے پائے۔اپنی قوم کی ایذاؤں سے پریشان ہوکر نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی (ترجمہ۔پھر پکارا اپنے رب کو کہ میں عاجز ہوگیا ہوں تو بدلہ لے ،سورہ القمر، آیت نمبر 10)
جب لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو عورت کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرنے پر منع کیا تو پوری قوم نے لوط علیہ السلام کو بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی(سورہ۔الاعراف آیت نمبر 82-81)
اسی طرح مدین کے لوگوں نے شعیب علیہ السلام اور جو لوگ انکے ساتھ ایمان لائے تھے۔ان کو دھمکی دی کہ وہ پرانے دین کی طرف لوٹ آئے ورنہ سبھوں کو اس جگہ سے نکال دیا جائے گا۔
وجہ اسکی صرف یہ تھی کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت پیش کی اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کو ناپ تول میں کمی کرنے، ملاوٹ کرنے اور راستوں پر بیٹھنے سے منع کیا تھا(سورہ۔ الاعراف، 88-85)
دین کی دعوت اور تبلیغ کے نتیجہ میں ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم نے آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ابراہیم علیہ السلام کے والد نے ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی دی کے دعوت اور تبلیغ کے کام سے بازآجائے ورنہ وہ سنگسار کر دیا جائے گا(سورہ مریم،آیت نمبر۔46)
اسی طرح سورہ ابراہیم آیت نمبر۔13 میں کافروں نے بالعموم اپنے اپنے رسول سے کہا کہ ہم نکال دیں گے تم کو اپنی زمین سے یا لوٹ آؤ ہمارے دین میں، تب حکم بھیجا ان کو ان کے رب نے ہم غارت کریں گے ان ظالموں کو۔اسی طرح ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ کے مشرک اور کفار نے سلوک کیا جیسا سابقہ انبیاء کرام کے ساتھ ان کی قوم کے لوگوں نے کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہیں جو ستایا جارہا ہے،مذاق اڑایا جارہاہے اور جھوٹا کہا جارہا ہے،یہ تو کافروں کی پرانی عادت ہے۔اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں یہی کیا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ استہزاء ہوتا رہا ہے تو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا کرتے تھے ان کو اسی (عذاب) نے جس کی ہنسی اُڑاتے تھے آگھیرا(سورۃ۔الانبیاء۔آیت نمبر۔41)
ایک جگہ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی۔اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں(سورہ الانعام،آیت نمبر 34)
سورۃ الحج، آیت نمبر ۔42 میں مذکور ہے: اور اگر یہ لوگ تم کو جھٹلاتے ہیں ان سے پہلے نوح کی قوم اور عاد وثمود بھی (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہے۔
مکہ کے کفار و مشرکین حضور ﷺ کے ساتھ ساتھ جو لوگ آپ ﷺ پر ایمان لاتے ان پر بھی ظلم و تشدد شروع کر دئے، یہاں تک کے بعض صحابہ کرام ؓ کو حبشہ کے طرف ہجرت کرنا پڑا۔
اس کے بعد جب مدینہ طیبہ سے آنے والے انصار کا مسلمان ہو جانا مکہ میں مشہور ہوا اور مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا اور بہت سے صحابہ کرام ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو مکہ کے رئیسوں نے مشورہ کے لئے دارالندوہ میں ایک خاص مجلس طلب کی جس میں ابو جہل، نضر بن حارث، عتبہ، امیہ بن خلف، ابو سفیان وغیرہ قریش کے تمام نمایاں اشخاص شامل ہوئے اور رسول کریم ﷺ کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلہ کی تدبیریں زیر غور آئیں۔مشورہ شروع ہوا تو کسی نے یہ مشورہ پیش کیا کہ آنحضرت ﷺ کو زنجیروں میں قید کر دیا جائے،کسی اور نے یہ رائے پیش کی کہ ان کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ابو جہل بولا کہ ہم عرب کے سب قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا ایک نوجوان یکبارگی ان پر حملہ کرکے قتل کر دیں اور سب ملکر خون بہا یا دیت دے دیں گے۔اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا۔اسی بات کا ذکر سورہ الانفال آیت نمبر۔30 میں ہوا ہے۔ہجرت کے بعد بھی قریش مکہ چین سے نہیں بیٹھے۔وہ مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے خلاف سازشیں کرنے لگے اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔2ہجری میں جنگ بدر،3 ہجری میں جنگ احد،5ہجری میں جنگ احزاب،6ہجری میں صلح حدیبیہ اور 8 ہجری میں فتح مکہ ہوا۔جنگ بدر میں قریش کے ستر لوگ قتل ہونے اور اتنے ہی لوگ گرفتار ہوئے۔جنگ بدر میں قریش کی کم و بیش ساری قیادت ختم ہو گئی۔جنگ احد میں آپ ﷺ زخمی ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کیا۔
مشرکین نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کو جو عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے قریب مقام حدیبیہ پر پہنچ چکے تھے۔ حرم شریف اور مسجد حرام میں جانے اور عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا۔جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد القیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورکہا یارسول اللہ!ہم ربیعہ کے قبیلہ میں سے ہیں ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان میں مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم آپ تک نہیں آسکتے مگر حرمت والے مہینوں میں ہی۔آپ ہمیں کوئی ایسی بات بتلائیں جس پر ہم عمل کریں اور لوگوں کو بھی اس طرف بُلائیں۔آپﷺ نے فرمایا میں آپ کو چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں(مسلم شریف، باب کتاب الایمان، نمبر 16)
یہ تھے مکہ کے کفار و مشرکین جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے معاندین بن گئے تھے۔ایسے معاندین کے ساتھ مسلمان کیسے دوستی رکھ سکتے تھے۔کفار سے قطع تعلق اور بیزاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ وقت دین کی تبدیلی کا تھا۔ جو لوگ دین اسلام کو قبول کر رہے تھے انہیں اپنے اقارب و رشتہ داروں سے رشتہ منقطع کا حکم تھا۔ کیونکہ اس بات کا خدشہ اور ڈر تھا کہ کہیں اپنے لوگوں کی محبت میں آکر کہیں دین اسلام سے پھر نہ جائے۔قران مجید کے بعض مقامات پر مکہ کے کفار اور مشرکین کے بعض شرارتوں اور بدمعاشی کا بھی ذکر ہوا ہے اور مسلمانوں کو ایسے کفار کے ساتھ مجالس کرنے اور شرکت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
اور جب تو دیکھے ان لوگوں کو کہ جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو ان سے کنارہ کر یہاں تک کہ مشغول ہو جاویں کسی اور بات میں اور اگر بھلا دے تجھ کو شیطان تو مت بیٹھ یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ(سورۃ الانعام آیت نمبر 68)
اور سورۃ النساء،آیت نمبر 140 میں اسی حکم کا تکرار اس طرح ہوا کہ اور حکم اتار چکا تم پر قرآن میں کہ جب سنو اللہ کی آیتوں پر انکار ہوتے اور ہنسی ہوتے تو نہ بیٹھو ان کے ساتھ یہاں تک کہ مشغول ہوں کسی دوسری بات میں نہیں تو تم بھی انہی جیسے ہوگئے اللہ اکٹھا کرے گا منافقوں کو اور کافروں کو دوزخ میں ایک جگہ۔
،سورہ الانعام اور سورہ النساء میں یہ علت بیان ہوا کہ اگر مسلمان کبھی بھی یہ دیکھیں کہ کفار آیات اللہ پر طعن و استہزاء میں مشغول ہے تو مسلمان اس سے خط ملط نہ رکھیں کہیں وہ بھی ان کے زمرے میں داخل ہو کر مستحق عذاب نہ بن جائے۔ مومن کی غیرت کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ ایسی مجلس سے بیزار ہو کر کنارہ کرے اور کبھی بھول کر شریک ہوگیا تو یاد آنے کے بعد فوراً وہاں سے اٹھ جائے۔
مشرکین مکہ قران مجید کا بھی توہین کرتے تھے: اور جب کوئی پڑھے ان پر ہماری آیتیں تو کہیں ہم سن چکے اگر ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ لیں ایسا یہ تو کچھ بھی نہیں مگر احوال ہیں اگلوں کے(سورہ الانفال، آیت نمبر 31)
کفار یہ بھی کہتے تھے کہ مت کان دھڑ اس قرآن کے سننے کو اور بک بک کرو اس کے پڑھنے میں شایدتم غالب ہو (سورہ فصلت، آیت نمبر 41)
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ابو جہل نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ جب محمد ﷺ قرآن پڑھا کریں تو تم ان کے سامنے جا کر چیخ و پکار اور شور وغل کرنے لگا کرو تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بعض نے کہا کہ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر اور بیچ میں طرح طرح کی آوازیں نکال کر قرآن سننے سے لوگوں کو روکنے کی تیاری کرو(قرطبی)
ہمارا ملک بھارت ایک کثیر المذاہب ملک ہے،یہاں ملک کے کسی بھی حصہ میں دو تین مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے مل جائیںگے۔یہ ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں مسلمان زیادہ ہو اور ہندو کم، یا ہندو زیادہ ہو اور مسلمان کم یا دونوں ہی قومیں کم و بیش برابر ہو،مشاہدہ اور تجربہ سے یہی دیکھا گیا ہے کہ ہندو،ہندو کے ساتھ اور مسلمان،مسلمان کے ساتھ گہری اور قلبی دوستی رکھتے ہیں، ہندو بھی اپنے ہم مذہب بھائیوں میں سے سبھوں کے ساتھ نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ساتھ قلبی دوستی رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی ایسا ہی دیکھا جاتا ہے؛ ایک ہندو اپنے جان پہچان کے مسلمان کو دیکھتے ہی رام نام یا پرنام یا نمسکار کہنے کے بعد اس کی حال چال پوچھ لیتا ہے ،جواب میں مسلمان کہہ دیتا ہے سب اللہ کا کرم ہے،مسلمان بھی ایک جان پہچان کے ہندو سے حال چال دریافت کر لیتا ہے جواب میں ہندو بھی کہتا ہے کہ سب رام جی کی کرپا ہے۔اگر کسی ہندو کا مسلمان کے ساتھ تھوڑا زیادہ قربت ہے یا ایک ہندو اور ایک مسلمان ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں تو شادی بیاہ کی تقریب میں دونوں ایک دوسرے کو دعوت بھی دیتے ہیں، اگر کسی مسلمان کا پڑوسی ہندو ہے یا ہندو کا پڑوسی مسلمان ہے، تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بیماری میں ایک دوسرے کی عیادت کرتے ہیں،اور مصیبت اکے وقت ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔بحیثیت مسلمان اتنا حساس ضرور ہونا چاہیے کہ غیرمسلم کی دوستی یا تعلقات کسی بھی طرح سے اس کے دینی عقائد پر اثر نہ ڈالے یا اس کی صحبت کی وجہ سے کوئی حرام چیز کھا نہ لے۔
ہمارے ملک میں بعض غیر مسلم لوگ یا بعض غیر مسلم تنظیمیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ فجر کی آذان پر مخالفت کرتے ہیں،نمازیوں کو راستوں پر نماز پڑھنے سے روکتے ہیں،مسجدوں کی بے حرمتی کرتے ہیں،مدرسوں کو منہدم کرتے ہیں،داڑھی اور ٹوپی والے مسلمان کو پیٹتے ہیں،زبردستی غیر اسلامی اور کفریہ نعرے لگواتے ہیں، مسلمانوں کو وطن چھوڑنے کی بات کہتے ہیں، ہمارے کھانے پینے کے سامان کا چھان بین کرتے ہیں، قربانی کے جانوروں پر پابندی عائد کرتے ہیں،مسلم ناموں کو مٹانے ہیں اور اس کی جگہ غیر مسلم ناموں کو لکھتے ہیں۔ایسے مسلم مخالف لوگوں یا تنظیموں سے مسلمانوں کو بیزار رہنا چاہیے۔ایسے ہی معاندین کے لیے اللہ تعالی فرماتا ہے: اللہ تو منع کرتا ہے تم کو ان سے جو لڑے تم سے دین پر اور نکالا تم کو تمہارے گھروں سے اور شریک ہوئے تمہارے نکالنے میں کہ ان سے کرو دوستی اور جو کوئی ان سے دوستی کرے ،سو وہ لوگ وہی ہیں گنہگار(سورۃ الممتحنہ، آیت نمبر 9)
اسی ملک میں بہت غیر مسلم لوگ یا تنظیمیں یا پارٹیاں ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کی حمایت میں بات کرتے ہیں،ہمارے حق کی بات کرتے ہیں، ہمارے اوپر ہو رہے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، ایسے غیرمسلم لوگوں کے ساتھ رفاقت یا مجالست رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،جو غیر مسلم معاند نہیں ہیں ان سے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو(سورہ۔الممتحنہ۔آیت نمبر 8)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS