عبدالعزیز
قرآن مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے جن پر گزشتہ زمانہ میں خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہر قوم پر نزولِ عذاب کی صورت مختلف رہی ہے۔ عاد پر اور طرح کا عذاب اترا، ثمود پر کسی اور طرح کا، اہل مدین پر کسی دوسری صورت میں اور آل فرعون پر ایک نئے انداز میں؛ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب ہوا کرتا ہے ، ہر گز بدلنے والا نہیں۔
سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا o (الاحزاب:62)
نزولِ عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآن مجید میں درج کی گئی ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوشحالی بڑھ جاتی ہے تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے اور خود اس کی عملی قوتوں کا رخ صلاح سے فساد کی طرف پھر جایا کرتا ہے۔
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم (یہاں حکم سے مراد حکم طبیعی ہے) دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں مگر عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں‘‘۔ (بنی اسرائیل:16)
دوسرا قاعدۂ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپے استیصال ہوجاتی ہے اور اس کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔
’’یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ کسی نعمت کو، جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الانفال:53)’’پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے‘‘۔ (التوبہ:70)
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (برنفس خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہ کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں۔
’’اگر کہیں اللہ ان لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو وہ روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا ہے‘‘۔ (النحل:61)
’’تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انھوں نے عاجزی اختیار کی مگر ان کے دل اور سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اور اطمینان دلا دیا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو‘‘۔ (الانعام:42-43)
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوشحالی کے فتنے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھاجاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انھیں مال اور اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں تو گویا انھیں بھلائیاں دینے میں سرگرم نہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انھیں شعور (۱)نہیں ہے‘‘۔ (المومنون: 55-56)
(۱)( بعض نادان لوگ جو خدا کی سنت کو نہیں سمجھتے ان کی خوشحالی کو دیکھ کر اس احمقانہ غلطی میں پڑجاتے ہیں کہ ضرور یہ لوگ مومن اور صالح اور خلیفۂ الٰہی ہیں ورنہ ان کو زمین کی وراثت کیسے مل جاتی، لیکن دیکھئے کہ قرآن ان لوگوں کی تردید کس طرح کرتا ہے جو محض دنیوی خوشحالی کو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہونے کی علامت سمجھتے ہیں)۔
آخر کار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کئے ہی جاتی ہے تو خدا اس کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ کر دیتا ہے اور جب اس پر عذاب کا حکم ہوجاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچا سکتی۔
’’یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کیلئے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا‘‘۔ (الکہف:59)
’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے‘‘۔ (ہود:102)
’’اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے‘‘۔ (الرعد:11)
یہ عذاب الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا ہے، اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولت مندی و خوش حالی، طاقت و جبروت، شان و شوکت اور عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیر و صلاح کے مجسّمے ہیں۔ ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذابِ الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔ اور انھوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیوِ ظلم (ظلم بر نفس خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے جو تیزی کے ساتھ انھیں تباہی و ہلاکت کی طرف لئے جارہا ہے۔ وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری ، وہی دہائے سیاست کی کامیابی، وہی علوم حکمیہ و فنونِ عقلیہ کی ترقی، وہی نظام معاشرت کی سربفلک بلندی، جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا اور روئے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہر پھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا ہر تار کٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے اور رہائی کی ہر تدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہوجاتی ہے۔
’اس سر گرہ زندہ گرہِ ناکشودہ را ‘
یہاں ان تمام معاشی اور سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیان مدعا کیلئے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اوپر ظلم کر رہی ہیں اور کس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کئے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی ، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہل فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہورہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصلی سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزائش نسل کو روکا جائے ۔ معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے یا بہ الفاظ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے؛ چنانچہ ضبط ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کیلئے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے۔ انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہر عورت اور مرد کو اس سے متعلق معلومات بہم پہنچانے اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکہ کے عمرانی ’’مصلحین‘‘ نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور جوشِ اصلاح میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رکے گی۔
توالد و تناسل سے مغربی قوموں کی نفرت کا حال یہ ہوگیا کہ ضبط ولادت کے متعدد طریقوں سے بچ بچا کر جو حمل ٹھہر جاتے ان کو بھی اکثر و بیشتر گرایا جانے لگا۔ روس میں تو یہ فعل قانوناً جائز قرار دے دیا گیا اور ہر عورت کا یہ حق تسلیم کیا گیا کہ تین مہینے کا حمل ساقط کردے۔ لیکن انگلستان اور دوسرے فرنگی ممالک میں بھی جہاں اسقاطِ حمل قانوناً ممنوع ہے، خفیہ طور پر اسقاط کی کثرت وبا کی حد تک پہنچ گئی۔ فرانس میں عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ جتنے بچے ہر سال پیدا ہوتے ہیں قریب قریب اتنے ہی حمل ہر سال ساقط کئے جاتے ہیں بلکہ بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اسقاط کی تعداد پیدائش سے زیادہ ہے۔ تیس اور چالیس برس کے درمیان شاید ہی کوئی عورت ہو جس نے اسقاط کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ گو قانوناً یہ فعل جرم ہے لیکن دواخانوں میں علانیہ اس کا ارتکاب ہوتا ہے اور فرضی بیماریاں رجسٹروں میں درج کر دی جاتی ہیں۔ انگلستان میں بہت سی دوائیں ہیں جن کا کاروبار اسقاط ہی سے چلتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کا اندازہ ہے کہ ہر پانچ عورتوں میں سے چار ایسی ضرور نکلیں گی جنھوں نے کبھی نہ کبھی اسقاط کیا ہوگا۔ جرمنی میں تقریباً دس لاکھ حمل ہر سال ساقط کئے جاتے ہیں (بعد میں نازی تحریک نے اس وبا کو سختی کے ساتھ دبانے کی کوشش کی اور اس کے مہلک نتائج کو محسوس کرکے افزائش نسل کیلئے ایک زبردست مہم شروع کی) اور اتنی ہی تعداد زندہ پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ بعض جرمن شہروں میں تو اندازہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ بیس سال کے اندر جتنے بچے پیدا ہوئے اس سے دوگنے حمل ساقط کر دیئے گئے۔ (ماخوذ از: تفہیمات اول)
[email protected]