راجستھان:کانگریس اور بی جے پی دونوں مخمصہ میں گرفتار

0

راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے اس سال جو بجٹ پیش کیا ہے وہ ان کی دوراندیشی، سیاسی سمجھ بوجھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کا یہ بجٹ عوامی تھا اور اسمبلی انتخابات کو مدنظررکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔ راجستھان کانگریس اور بی جے پی دونوں میں اندرونی خلفشار ہے اوریہ خلفشار دونوں پارٹیوں کو دکھ دے رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کی خانہ جنگی اس لئے زیادہ سرخیوںمیں رہتی ہے کیونکہ کانگریس پارٹی راجستھان میں برسراقتدار ہے اور پچھلے اسمبلی انتخابات سے پہلے سچن پائلٹ نے جس گرمجوشی اور سرگرمی کے ساتھ پارٹی کومتحد کیا تھا تو اس سے یہ امید ظاہر ہوئی تھی کہ شاید راجستھان کی کمان ان کے ہاتھ میں دی جائے گی مگر پارٹی کے اعلیٰ کمان نے اشوک گہلوت کے ہاتھ میں پارٹی کی کمان دی اور سچن پائلٹ کو صرف نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر مطمئن ہونا پڑا۔ سچن پائلٹ کو اس بات کا غم ہے کہ محنت کے باوجود ان کو ان کی محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں ملا جبکہ اشوک گہلوت جو کہ ضعیف العمری کی وجہ سے اتنے سرگرم نہیں تھے۔ عہدہ حاصل کئے بیٹھے ہیں یہی راجستھان کانگریس میں خلفشار کا ایک اہم سبب ہے۔ پچھلے دنوں سچن پائلٹ مسلسل پارٹی کے اعلیٰ کمان پر زورڈالتے رہے ہیں کہ وہ راجستھان میں اقتدار کی رسہ کشی پر فیصلہ کن انداز میں کارروائی کرے۔ مگر اعلیٰ کمان اشوک گہلوت کے سیاسی تدبر اور پارٹی کے ممبران اسمبلی اور آرگنائزیشن پر ان کی گرفت کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں لے پارہی۔ راہل گاندھی کی یاترا کے دوران پارٹی نے قیادت کو بدلنے کی کوشش کی تھی جس کا الٹا اثر ہوا اورایک دفعہ توایسا لگا کہ کانگریس منتشر ہوجائے گی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب پارٹی کے لیڈروں میں یہ احساسات پیدا ہوئے تھے۔ سچن پائلٹ اس سے قبل ممبران اسمبلی کی طاقت کی بنیاد پر علیحدہ گروپ بناکر اقتدار میں آنے کی کوشش کرچکے ہیں مگر وہ کامیاب نہیںہوئے۔ سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائی ہے کہ سچن پائلٹ کو ایک طرف بی جے پی کی طرف سے حمایت مل رہی تھی تو وسندھرا راجے سندھیا بی جے پی کی مدد سے بننے والی کسی بھی ایسی حکومت کے قیام کے خلاف تھیں جو ان کو نظرانداز کرکے معرض وجود میں آتی۔ وسندھرا راجے سندھیا اور اشوک گہلوت کے درمیان گرمجوشی کی خبریں بھی پچھلے دنوں سنائی دے رہی تھیں۔ راجستھان میں اسمبلی انتخابات زیادہ دورنہیں اور نہ ہی لوک سبھا کے انتخابات ۔بی جے پی کی پریشانی یہ ہے کہ راجستھان میں لگاتار کئی مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والی وسندھرا راجے سندھیا اپنی ڈگر الگ لے کر چل رہی ہیں۔ راجستھان بی جے پی میں خلفشار ہے اور کئی لیڈر بی جے پی کے وزیراعلیٰ کے عہدے کے دعویدار ہیں۔ اس میں سب سے مضبوط دعویدار وسندھرا راجے سندھیا ہیں۔ مرکزی وزیر برائے آبی امور گجیندرسنگھ شیخاوت ان اہم دعویداروں میں ہیں جو مرکزی قیادت کے منظورنظربھی ہیں اور ان کی دوسرے لیڈروںکے مقابلے میں پارٹی میں گرفت بھی اچھی ہے۔ وسندھرا راجے سندھیا کے طورطریقے مرکزی قیادت کو ناپسند ہیں۔ یہ بات پچھلے اسمبلی انتخابات میں ظاہر ہوگئی تھی۔ وزیراعظم نریندرمودی اور وزیرداخلہ امت شاہ وسندھرا راجے کے طورطریقوں کو لے کر تحفظات رکھتے ہیں مگر پارٹی میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کو کسی ایک نام پر اتفاق کرنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی مرکزی قیادت یہ کوشش کرتی ہے کہ وسندھرا راجے سندھیا کے پرکترے جائیں کیونکہ وہ مرکزی قیادت کی لائن کی پیروی کرنے میں گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ سندھیا خاندان کے اکثر لیڈروں سے متعلق یہی شکایت ہے کہ ان کے اغراض ومقاصد بالکل جدا ہوتے ہیں۔ جیوتی رادتیہ سندھیا کو لے کر بھی کانگریس میں یہی تحفظات تھے۔ ایک بڑا طبقہ ان کی مہاراجہ والی امیج سے بھی نالاں ہیں۔ ان کولگتا ہے کہ ان کے تیور عوامی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس سے جیوتی رادتیہ سندھیا کو توڑنے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔ مدھیہ پردیش کی سیاست میں جیوتی رادتیہ سندھیا کی قلابازی نے جو گل کھلائے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کمل ناتھ سرکار کو گرانا سندھیا خاندان کی قیادت والے کانگریس کے غیرمطمئن گروپ کے لئے آسان ہوگیا تھا۔ جیوتی رادتیہ سندھیا اگرچہ مرکز میں وزیر ہیں مگر پارٹی میں جو ان کی حیثیت ہے اس پر کانگریس کے لیڈر اس پر اکثر چٹکی لیتے رہتے ہیں۔کانگریس کا کہنا ہے کہ اپنے والد کی پارٹی سے بغاوت کرنے کے بعد سندھیا کی وہ حیثیت نہیں رہی جو کسی وقت کانگریس میں تھی۔ یہ خلفشار سندھیا کے لئے سودمندہوگی یا کانگریس کے لئے نقصان دہ ہوگی اس کا اندازہ ایک ڈیڑھ سال کے اندرلگ جائے گا۔ کیونکہ مدھیہ پردیش میں بھی اسمبلی انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں۔
بہرکیف راجستھان میں پائلٹ اور گہلوت کی رسہ کشی کانگریس کی اعلیٰ کمان کو پریشان کئے ہوئے ہے جس کا اظہار وہ کھلے عام نہیں کرتی ہے۔ پائلٹ کے گروپ کا کہنا ہے کہ2013 اور اس سے قبل 2003 میں گہلوت سرکار کی ناراضگی کے سبب ایک طویل عرصے تک بی جے پی ریاست میں برسراقتدارآنے میں کامیاب رہی تھی اور جب 2018 میں پائلٹ نے گائوں گائوں اورقریہ قریہ یاترائیں کرکے اپنے پرانے ووٹ بینک کو واپس لانے میں حاصل کرلی توالیکشن جیتنے کے بعد ان کو تقریباً کنارے کردیا گیا۔ اب پارٹی اسمبلی انتخابات کی تیاری کر رہی ہے اس دوران دونوں گروپوں میں خلفشار سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایک متحدہ پارٹی بن کر کانگریس راجستھان میں ابھرے اس بات کے امکانات کم ہی ہیں۔ کانگریس کو لگتا ہے کہ الیکشن سے قبل پارٹی کی قیادت میں تبدیلی انتشار کو فروغ دے گی اورایسے حالات میں وزیراعلیٰ بننے کے بعد پائلٹ کے لئے حالات کو قابو میں کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اشوک گہلوت جوکہ گزشتہ 50سال سے پارٹی میں اہم عہدے پر فائز رہے ہیں اور پچھلی دوکوششوںمیں ناکامی سچن پائلٹ کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اشوک گہلوت ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور پارٹی کو انہوں نے مکمل طورپر اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ایسے میں کانگریس کے صدر ملکاارجن کھڑگے کے لئے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ راہل گاندھی کی یاترا کے دوران قیادت میں تبدیلی کی جو کوشش کی گئی تھی اس کی ناکامی سے یہ لگ رہا ہے کہ اشوک گہلوت آسانی کے ساتھ عہدہ سے دستبردار نہیں ہوںگے اوریہ ان کے لئے توہین آمیز ہوگا۔ مرکزی قیادت کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ عجلت میں کئے گئے فیصلوںکی وجہ سے مرکزی کانگریس آبزرور اجے ماکن کو کافی دشواریوںاور بے عزتی کا سامنا کرناپڑا تھا۔ یہ تمام صورت حال اشوک گہلوت کو فائدہ پہنچانے والی تھی۔ اشوک گہلوت کے تیور اس قدر جارحانہ ہیں کہ ان کو سچن پائلٹ بالکل برداشت نہیں ہیں اور وہ پائلٹ کو غدار بھی کہہ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ غدار کے لفظ کے پیچھے اعلیٰ کمان کو یہ باورکرانا ہے کہ یہ وہی سچن پائلٹ ہیں جو راجستھان میں وزیراعلیٰ بننے کے لئے بی جے پی سے حمایت حاصل کرنے میں تامل نہیں برت رہے تھے۔ اگرچہ راہل گاندھی نے متوازن رویہ اختیار کیا ہے اور دونوں لیڈروںکو پارٹی کا اثاثہ قرار دیا ہے ۔ اس کے باوجود پچھلے دنوں سچن پائلٹ نے مرکزی قیادت پردبائو ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ راجستھان کے معاملات کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ مگر اس بجٹ نے راجستھان کے عوام میں اشوک گہلوت کی قیادت کو مقبول بنانے میں مدد کی ہے ظاہر ہے اس کا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔ اشوک گہلوت ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیںاور مخالفت کے باوجود سیاسی طورپر مرکزی حیثیت میں رہنا ان کو آتا ہے۔٭٭

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS