کیوں بڑھ رہی ہے مغربی ایشیا میں کشیدگی؟

0

گزشتہ دو مہینوں میں مغربی ایشیا میں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کے بنا پر امریکہ اور اس کے حریف ممالک کافی فکر مند ہیں۔ ایک بڑے طبقے کا کہنا ہے کہ ارض فلسطین میں اسرائیل کی بربریت کے بعد پوری دنیا کی توجہ یوکرین سے ہٹ کر اس خطے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مغربی ممالک کے لیے تکلیف دہ ہے جو چاہتے ہیں کہ یوکرین پر روس کی جارحیت پر عالمی برادری کی توجہ برقرار رہے تاکہ عالمی سیاسی منظر نامے پر روس کو الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کی جاسکیں۔
پچھلے دنوں افریقہ کے دو ممالک سوڈان اور چاڈ کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات میں گرم جوشی میں آنا اگرچہ فلسطین کاز کے لیے نقصان دہ ہے۔خیال رہے کہ یہ دونوں ممالک مسلم اکثریتی ہیں اور دونوں ملکوں کے فوجی حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرلیے ہیں۔ مگر دو روز قبل افریقی یونین میں اسرائیل کے ڈیلگیشن کے ساتھ جو ہوا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل نے نجی سطح پر اگرچہ کچھ پیش رفت کی ہے اور کچھ ممالک بطور خاص مسلم ممالک کے ساتھ اس کے مراسم گہرے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود اجتماعی سطح پر حالات ابھی بھی زیادہ بدلے نہیں ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ ممالک جو کہ اسرائیل کے ساتھ اپنی انفرادی سطح پر سفارتی اقتصادی اور دفاعی تعلقات بنانے کے لیے راضی ہوئے ہیں۔ اس کی وجوہات اور ان کی مجبوریاں ہیں ورنہ مجموعی طور پر اسرائیل کو کافی حد تک ایک جارح طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بہر کیف گزشتہ چند دنوں میں دفتر خارجہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں اس قرار داد کی مذمتی قرار داد لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے تحت مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کی حرکت پر بحث کی جائے گی۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ اس موقع پر کوئی مذمتی یا یکطرفہ قرار داد کو پاس کیا جائے۔ وہ اسرائیل سے کہہ رہا ہے کہ وہ مغربی کنارے سے تعمیراتی سرگرمیوں کو موقف کرے کیونکہ تعمیراتی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ارض فلسطین میں موجودہ تصادم اور کشیدگی کو کم کیا جائے۔ اس خطے میں جنگ کا خطرہ منڈلارہاہے لہٰذا امریکہ کی کوشش ہے کہ اس صورت حال ٹالا جائے اور دونوں فریق یعنی فلسطین اور اسرائیل کسی ایسے اقدام سے باز رہیں جس سے کہ تصادم پیدا ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کم از کم6 ماہ کے لیے صبر وتحمل سے کام لیں۔ امریکہ کی یہ بھی کوشش رہی ہے کہ اسرائیل اس خطے میں دوسرے پڑوسی عرب ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔ اقتصادی تعاون کرے۔ تاکہ اس خطے میں اس کو اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کا موقع ملے۔ اسرائیل کی سابقہ سرکار یہ چاہتی تھی کہ مصر کے ساتھ ساتھ لبنان ، اردن وغیرہ کے ساتھ کچھ سمجھوتے ہوجائیں۔ لبنان کے ساتھ تو سابقہ حکومت نے ایک سمجھوتہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جو کہ فرانس کی مصالحت سے ممکن ہوسکا تھا۔ اس سمجھوتے سے نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ لبنان کو بھی اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے قدرتی گیس حاصل کرنے میں کامیابی ملتی۔ لیکن اسرائیل کی بنجامن نتن یاہو نئی سرکار ترجیحات اور پالیسیاں مختلف ہیں۔ اس سرکار نے آتے ہی ایسے یکطرفہ جارحانہ اقدام کرنے شروع کردیے جو کہ ارض فلسطین ہی نہیں بلکہ قرب وجوار عرب ممالک کو بھی مخمصے میں ڈالنے والے ہیں۔
اسرائیل نے اقتدار میں آتے ہی مغربی کنارے میں غیر قانونی نو آبادیاتی بستیوں کے تعمیراتی منصوبوں کو تیزی سے عمل میں لانا شروع کردیا ہے۔ ظاہرہے کہ اسرائیل کی منشا مغربی کنارے کو اپنی ریاست یعنی اسرائیل کی سرزمین پر شامل کرنے کی ہے۔
مغربی کنارے میں فلسطینی عارضی حکومت جس کا دائرہ کار محدود ہے ، کام کررہی ہے اور 1992-93 اوسلو معائدہ کے بعد وہاں پر فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اسرائیل کا کوئی بھی قدم حالات کو بگاڑ سکتا ہے جور قابو سے باہر کرسکتا ہے اور گزشتہ 30سال میں جو بھی پیش رفت ہوئی ہے اس کو ختم کرنے والا ثابت ہوسکتا ہے۔ اوسلو معاہدہ کی روح سے ہی دوریاستی نظریے کی دونوں فریقوں(فلسطین اور اسرائیل) نے توثیق کی تھی اور اس وقت یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید یہ 70 سال پرانا انتہائی پیچیدہ مسئلہ کسی حد حل ہوجائے مگر بنجامن نتن یاہو کی موجودہ سرکار کے قیام کے بعد سے ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ یہ حکومت اس پورے خطے پر اپنا مکمل اقتدار اعلیٰ ہونے کا اعلان کردے اور اس خطے کو اپنی ریاست میں ملانے یا الحاق کرنے اسرائیل ایسا جولان کی پہاڑیوں ، یروشلم وغیرہ کے علاقوں کے ساتھ کرچکا ہے۔ خیال رہے کہ مغربی کنارے پر اگرچہ اقتدار اعلیٰ اسرائیل کا ہے مگر وہ مکمل نہیں ہے، جزوی ہے۔
اسرائیل کا حالات کا بدلنے کا اعلان تیسرے انتقاضہ کی وجہ بن سکتا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ ایسا ایک پیچیدگی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد پاس ہوچکی ہے جس کے تحت اسرائیل کی مسلسل قبضے پر عالمی کریمنل کورٹ (Inter National Criminal Court)سے کہاگیا ہے کہ وہ ان علاقوں پر اسرائیل کی جارحیت پر اپنی قانونی رائے دے جن پر اسرائیل نے طاقت کے زور پر قبضہ کررکھا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی یہ قرار داد امریکی صدر جوبائیڈن کے لیے درد سر ہے۔ کیونکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات 2024میں ہونے والے ہیں اور ایسے حالات میں موجودہ صدر کے لیے توازن برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے بھی مغربی ایشیا میں اب امریکہ کی پوزیشن پہلی جیسی نہیں ہے اور کئی ممالک امریکی موقف کو نظرانداز کررہے ہیں اور اپنے حالات اور ضروریات کے مطا بق خارجہ پالیسی کے فیصلے کررہے ہیں۔
یوکرین پر امریکی موقف قبول کرنے کے لیے چند ممالک تیار ہیں اور زیادہ تر خاموش ہیں۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کے قیمتوں ، روس پر عائد پابندیوں کے معاملوں پر بھی مغربی ایشیا کے ممالک آزادانہ روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے اقدام سے امریکہ کو اپنی پالیسیاں اور روس پر عائد پابندیاں صحیح طریقہ سے عمل میں لانے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ امریکہ کے لیے یہ صورت حال اس لیے بھی تکلیف دہ ہیں کیونکہ اس کے پرانے حلیف ممالک سعودی عربیہ اور یو اے ای نے بالکل ہی الگ موقف اختیار کیا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایسے وقت میں جب دنیا یوکرین پر روسی جارحیت کا ایک سال منا رہی ہے۔ حالات اس کے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دیں اور روس کو اس کے کیمپ میں سیندھ لگانے میں کوئی بھی کامیابی ملے۔
rvr

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS