دورۂ یوکرین سے بائیڈن کے اشارے

0

عالمی لیڈران الفاظ کے سہارے ہی اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتے، اپنے ہاؤ بھاؤ اورعمل سے بھی موقف کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا یوکرین کے دارالحکومت کیف اچانک پہنچ جانا محض اتفاق نہیں ہے، یہ امریکہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے یوکرین دورے سے روس کے ساتھ یوروپ اور باقی دنیا کے ممالک کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ امریکہ کی طاقت کو سمجھیں، یہ سمجھیں کہ سپر پاور امریکہ متوازن مگرکارآمد حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا جانتا ہے۔
بائیڈن کا کیف دورہ بظاہر ایک طاقتور ملک کے صدر کا دورہ ہے مگریہ عام دورہ نہیں ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب دو دن بعد 24 فروری کو یوکرین جنگ کا ایک برس مکمل ہو جائے گا لیکن جنگ کے ختم ہونے کا فی الوقت امکان نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی چین کے دورے پر گئے تھے اور یہ خبر آئی تھی کہ یوکرین جنگ میں چین، روس کا ساتھ دے رہا ہے مگر جو بائیڈن نے یوکرین دورے سے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ چین، ایران اور وہ ممالک خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں جو یوکرین جنگ میں روس کا ساتھ دے رہے ہیں، حالات پر امریکہ کی نظر ہے اور وہ حالات سے نمٹنا جانتا ہے۔ کیف سے جو بائیڈن نے کہا، ’روس کی کوشش ہے کہ یوکرین کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے۔ پوتن کو لگا تھا کہ وہ ہمیں الگ تھلگ کر دیں گے لیکن ایک سال بعد بھی ہم ساتھ کھڑے ہیں۔ میری یہاں موجودگی اس کی مثال ہے۔‘ بائیڈن نے کہا کہ ’پابندیوں کی وجہ سے روس کی اقتصادیات بالکل تباہ ہو چکی ہے۔ ہم یوکرین کی مدد کرتے رہیں گے۔ ‘ اور امریکہ کے صدر نے یوکرین کی مالی امداد کے ساتھ دفاعی امداد کا بھی اعلان کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے، یہ اعلان جنگ ختم کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے۔ یوکرین جنگ کا خاتمہ امریکہ کے حق میں نہیں۔ جنگ جتنی طویل کھنچے گی، روس اتنا ہی کھوکھلا ہوگا۔ روسیوں کے لیے پریشانیاں بڑھیں گی اور پھر پوتن کے لیے بھی مسئلے پیدا ہوں گے، یہ بات امریکی صدر جانتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ امریکہ یوکرین کے لوگوں کے یا عالمی امن کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے۔
2022 کی ابتدا میں اس بات کے اشارے تو مل رہے تھے کہ روسی صدر رولادیمیر پوتن یوکرین پر حملہ کر دیں گے مگر عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین اور دور اندیش لیڈروں کی اگر بات نہ کریں تو عام لوگوں نے شاید ہی یہ سوچا ہوگا کہ روس واقعی یوکرین پر حملہ کر دے گا اور اس حملے کے اتنے تباہ کن اثرات دنیا پر پڑیں گے، طاقتور ممالک اس جنگ کے بہانے اپنی طاقت کا اظہار کریں گے، کئی اور جنگوں کے ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا، تیسری عالمی جنگ کا ذکر ہونے لگے گا مگرایسا ہو رہا ہے۔ اسی لیے یہ جنگ افغان اورعراق جنگ سے مختلف ہے۔ اس جنگ نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ روس نہ سوویت یونین کے بکھراؤ کو بھولا ہے اورنہ ہی یہ بات اس نے نظرانداز کی ہے کہ وارسا پیکٹ کے تحلیل کر دیے جانے کے باوجود ناٹو کی توسیع ہوتی رہی اور اس توسیع کا مقصد کیا ہے۔ یوکرین جنگ نے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ بظاہر یوروپی ممالک متحد نظر آتے ہیں مگر وہ بٹے ہوئے ہیں۔ بائیڈن یہ جانتے ہیں کہ یوکرین کے ساتھ اگر امریکہ کھڑا نہ ہوا، یوکرین پر قبضہ جمانے میں اگر روس کامیاب ہوگیا تو اس کا دائرۂ اثر بڑھتا چلا جائے گا، وارسا پیکٹ کے دنوں کی واپسی ہوجائے گی۔ اسی لیے بائیڈن ایک طرف تویہ نہیں چاہتے کہ امریکہ براہ راست روس سے ٹکرائے، کیونکہ اس سے ایٹمی جنگ کا خدشہ بڑھ جائے گا، تیسری عالمی جنگ کے اندیشوں کے حقیقت بننے کی راہ ہموارہوجائے گی اور دوسری طرف بائیڈن یہ بھی نہیں چاہتے کہ یوکرین کو تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ اس کے خلاف جنگ روس کے لیے آسان بن جائے اور پھر یہی جنگ نئے سوویت یونین کی تشکیل کی بنیاد رکھ دے، اس لیے وہ خود کیف گئے۔ پولینڈ سے ایک گھنٹے کا سفر کر کے بائیڈن کیف پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ براہ راست کیف نہیں جا سکتے تھے؟ وہ ٹرین سے کیف کیوں گئے؟ کیا وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ امریکہ کے دبدبے میں کمی نہیں آئی ہے؟ پولینڈ سے یوکرین جاکر کیا وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ روس، کیف سے وارسا نہیں جائے گا، امریکہ پولینڈ سے یوکرین آئے گا؟ سوالات اوربھی ہیں؟ اور ان سوالوں کا جواب گزرتے وقت کے ساتھ مل جائے گا۔ فی الوقت یہ بات طے سی لگتی ہے کہ یوکرین جنگ ابھی ختم نہیں ہوگی، اس کا دائرۂ اثر بڑھے گا۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS