سندھو آبی سمجھوتہ اور ہند-پاک تعلقات

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
ہند-پاک کے مابین دیگر تمام مسائل سے الگ سندھو آبی معاہدہ کا نفاذبھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سندھو ندی کے پانی کی تقسیم کو لیکر ہندوستان نے پاکستان کو متنبہ کیاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کشن گنگااور راتلے پن بجلی پروجیکٹ پر تکنیکی اعتراضات کی جانچ کیلئے غیرجانبدار ماہر پیشہ ور کی تقرری کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر معاملہ کو ثالثی عدالت میں لیجانے پر اڑاہے۔ یہ قدم معاہدہ کے دفع 9تنازعہ کو نمٹانے کیلئے بنائے گئے نظام کی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے ہندوستان نے ستمبر 1960ء میں ہوئے سندھو آبی معاہدے میں ترمیم کیلئے پاکستان کو نوٹس جاری کیاہے۔ دراصل ہندوستان نے اس معاہدے کو نافذ کرنے میں اسلام آباد کی ہٹ دھرمی کے بعد یہ قدم اٹھایاہے۔ خیال رہے کہ اگست 2021 میں پارلیمان کی ایک مستقل کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کی جائے تاکہ آب وہوا تبدیلی سے پڑے اثرات اوردیگر مسائل سے جڑے ان معاملوں کو نمٹایاجاسکے۔جنہیں سمجھوتے میں شامل نہیں کیاگیاہے۔
پاکستان پر الزام ہے کہ وہ اپنی زمین پر دہشت گرد تنظیموں کی پرورش کرتاہے۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو بڑھاوا کیسے دے سکتا ہے جبکہ پچھلے چند سالوں سے دہشت گردی کی مصیبت کو وہ خود جھیل رہاہے۔ بہر حال سرحد پار سے دہشت گردخود سے آئیں یا حکومت کی شہ پر آئیں ،پاکستان کو اس کی ذمہ داری تو لینی ہی ہوگی اوراسے وہاں پر دہشت گردی کا ڈھانچہ،چاہے اس کی نوعیت کچھ بھی ہو،تباہ کرناہوگا۔ اچھی خبریہ ہے کہ پاکستان کی ملٹری اورپولیس نے اس معاملے میں تھوڑی کارروائی شروع کردی ہے۔ سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیوں کا منھ توڑ جواب دینے کیلئے پاکستان کو جانے والی ندیوں کا پانی روکنے پر کافی عرصہ سے غور وخوض چل رہاہے لیکن عملی طور پر پانی روکنے کا کام اتنا آسان نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ندی گھاٹی نظام میں سے ایک سندھوندی کی لمبائی قریب دوہزار آٹھ سو اسی کلومیٹرہے۔ سندھو ندی کا علاقہ قریب 11ء2لاکھ مربع کلو میٹر رقبہ میں پھیلاہواہے۔ یہ علاقہ پاکستان (47%)، ہندوستان(39%)،چین (8%)اورافغانستان (6%)میں ہے۔ اندازہ ہے کہ تقریباً تیس کروڑ لوگ سندھو ندی کے آس پاس رہائش پذیر ہیں۔ سندھو ندی کے مربوط سلسلہ کی چھ ندیوں میں بڑآبی ذخیرہ ہے۔ اس میں سے ہندوستان اپنے حصے کا قریب 90فیصد پانی استعمال کرلیتاہے۔ باقی پانی روکنے کیلئے ابھی کم ازکم چھ سال لگیں گے۔ تبت میں کیلاش پہاڑ رینج سے بوکھار -چو نامی گلیشیئر کے پاس سے رونما ہوئی سندھو ندی ہندوستان میں لیہہ علاقہ سے گزرتی ہے ۔
لداخ سرحد کو پار کرتے ہوئے جموں وکشمیر نے گلگت کے پاس داردستان علاقے میں اُس کا داخلہ پاکستان میں ہوتاہے۔جو پانچ ندیاں راوی ،چناب ،جھیلم، بیاس اورستلج پنجاب کے نام سے منسوب ہیں، وہ سبھی سندھو ندی کے پانی کوزندگی بخشتی ہیں اور سرسبزوشاداب کرتی ہیں۔ ستلج پرہی بھاکڑا ننگل باندھ ہے ۔ بھلے ہی ہندوستان اورپاکستان کے مابین جغرافیائی سرحدیں کھنچ چکی ہوں ،لیکن یہاں کی ندیاں ،موسم اور تہذیب سمیت کئی چیزوں پراثرانداز نہیں ہو پائیں۔
سندھوندی نظام کا کل آبی اخراج کا رقبہ ایک کروڑ گیاہ لاکھ پیسٹھ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ سالانہ بہاؤ کے اعتبار سے یہ دنیا کی اکیسویں سب سے بڑی ندی ہے۔ بلامبالغہ یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ ندی پاکستان کی آبیاری کا اکیلا ذریعہ ہے ۔ انگریزوں نے پاکستان کے پنجاب علاقے کی آبپاشی کیلئے وسیع نہر نظام بنایاتھا۔ تقسیم نے اس بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں چھوڑ دیا، لیکن ہیڈورک باندھ ہندوستان میں بنے رہے جس سے پاکستان کے بڑے کاشتکار ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ سندھو ندی بیسن کے پانی کی تقسیم کیلئے کئی برسوں کی سنجیدہ گفتگو کے بعد عالمی بینک نے ہندوستان اورپاکستان کے مابین سندھو آبی معاہدہ کے لیے ثالثی کی تھی۔
کئی بیرونی ماہرین کے دخل کے ساتھ دس سال تک گفتگو چلتی رہی اورستمبر 1960میں کراچی میں آبی تقسیم کو لیکر دوطرفہ معاہدہ ہوا۔ ہند-پاکستان کے مابین اس معاہدے کی مثال پورے عالم میں دی جاتی ہے کہ تین تین جنگ اور لگاتارکشیدہ تعلقات کے باوجود یہ معاہدہ عمل میں آیا۔ اس معاہدے کے مطابق ستلج ،ویاس اورراوی ندیوں کو مشرقی ، جبکہ جھیلم ،چناب اورسندھو کو مغربی علاقے کی ندی کہاگیا۔ مشرقی ندیوں کے پانی کا پورا حق ہندوستان کے پاس ہے تومغربی ندیوں کا پاکستان کے پاس ۔ آبپاشی جیسے کچھ معاملوں میں ہندوستان مغربی ندیوں کا پانی کا بھی استعمال کرسکتاہے۔ ہندوستان راوی پر شاہ پور کنڈی میں باندھ بناناچاہتاتھا،پر یہ پروجیکٹ 1995سے رکاہواہے۔ اگر یہ باندھ بن جاتاہے تو ہندوستان اپنے حصہ کا سارا پانی استعمال کرسکے گا۔
دراصل سندھوآبی معاہدہ میں عالمی بینک سمیت کئی بین الاقوامی ادارے شامل ہیں اورانہیں نظرانداز کرکے پانی روکنامشکل ہوگا۔
ہاں اگر ہندوستان دہشت گردی کی سرگرمیوں میں پاکستان کی بلاواسطہ ملوث ہونے کی بات ثابت کردیتاہے تب یہ ممکن ہوگا لیکن یہ سب بھی اتنا آسان نہیں ۔ دوسرے ، اگرہم پانی روک بھی سکتے ہیں تو اسے اپنی سرحد میں جمع رکھنا مشکل ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں بڑے بڑے تالاب باندھ اورنہریںبھی چاہیے ۔ اگربنامناسب انتظام کے پانی روکنے کی کوشش کی گئی توجموں وکشمیر اورپنجاب وغیرہ کے کچھ حصوں میں پانی بھرجائے گا۔ آزادی کے 75سال گزرجانے کے بعد بھی اپنے حصہ کی ندیوں کا پورا پانی استعمال کرنے کیلئے باندھ وغیرہ نہ بنا پانے کی اصل وجہ دفاعی پالیسی ہے۔ مشترکہ ندی پر کسی بھی بڑے پیمانے پر پانی جمع کرنے کاعمل دشمنی کی حالت میں پاکستان کیلئے آبی بم کی شکل میں کام آسکتاہے۔
ہندوستان سے پاکستان جانے والی ندیوں پرچین کی سرمایہ کاری سے کئی بجلی پروجیکٹ ہیں ۔ اگر ان پر کوئی الٹا اثر پڑا توچین برمھ پتر کے بہاؤ کے ذریعے ہماری ساری شمال مشرقی ریاستوں کو مشکلات سے دوچارکر سکتاہے۔ اروناچل اورمنی پور کی کئی ندیاں چین کی حرکتوں کے سبب یکایک باڑھ،آلودگی اورخشک سالی کو جھیل رہی ہیں۔ واضح ہو کہ سندھو آبی میں معاہدہ ترمیم کرنا آسان نہیں ہے۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS